Tafseer-e-Jalalain - Al-Ankaboot : 52
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ شَهِیْدًا١ۚ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
قُلْ : آپ فرمادیں كَفٰي : کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان شَهِيْدًا ۚ : گواہ يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِالْبَاطِلِ : باطل پر وَكَفَرُوْا : اور وہ منکر ہوئے بِاللّٰهِ ۙ : اللہ کے اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں هُمُ الْخٰسِرُوْنَ : وہ گھاٹا پانے والے
کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا ہی گواہ کافی ہے جو چیز آسمانوں میں اور زمین میں ہے وہ سب کو جانتا ہے اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور خدا سے انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں
آیت نمبر 52 تا 63 ترجمہ : آپ کہہ دیجئے کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان میری سچائی پر گواہ کافی ہے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسے سب باتوں کی خبر ہے اور انہیں میں میرا اور تمہارا حال بھی ہے اور جو لوگ باطل پر اور وہ اللہ کے علاوہ وہ چیزیں ہیں جن کی پوجا پاٹ کی جاتی ہے یقین رکھتے ہیں اور تم میں سے اللہ کے منکر ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے سودے میں نقصان اٹھانے والے ہیں اس طور پر کہ انہوں نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کرلیا ہے اور یہ لوگ آپ سے عذاب کے بارے میں جلدی کرتے ہیں اور اگر عذاب کی مدت متعین نہ ہوتی تو ان پر فوری عذاب آچکا ہوتا اور ان پر وہ عذاب دفعۃً آپہنچے گا اور ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی، یہ لوگ آپ سے دنیا ہی میں عذاب کا تقاضا کرتے ہیں (ذراتسلی رکھیں) بلاشبہ جہنم کافروں کو گھیرے میں لینے والی ہے جس دن عذاب ان کو ان کے اوپر سے اور نیچے سے گھیرے گا، عذاب کے ذمہ دار فرشتے کہیں گے اپنے اعمال کی جزا چکھو یقول میں نون اور یا دونوں ہیں، اگر نون ہو تو مطلب ہوگا ہم فرشتوں کو یہ بات کہنے کا حکم کریں گے تو تم ہم سے بچ کر نہیں نکل سکتے اے میرے ایماندار بندو ! میری زمین بہت کشادہ ہے میری ہی بندگی کرو جہاں بھی عبادت آسان ہو، لہٰذا اس سرزمین سے جہاں عبادت آسان نہ ہو اس سرزمین کی طرف ہجرت کر جاؤ (کہ جہاں عبادت کرنا آسان ہو) (یہ آیت) مکہ کے ان کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مکہ میں اظہار اسلام کے بارے میں تنگی میں تھے، ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھر تم سب زندہ ہونے کے بعد ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے تُرْجَعُوْنَ تا اور یا کے ساتھ، جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ہم ان کو جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جنت کے بالا خانوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یعنی ہم نے ان کے لئے جنت کے بالا خانہ میں ہمیشہ رہنا مقدر کردیا ہے، عمل کرنے والوں کا اجر کیا ہی خوب ہے یہ اجر، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مشرکین کی ایذاؤں اور دین کے اظہار پر صبر کیا اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں تو وہ ان کو ایسے طریقے سے روزی دے گا کہ ان کے وہم و گمان بھی نہ ہوگا اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو کمزوری کی وجہ سے اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے اے ہجرت کرنے والو ! اللہ تم کو بھی رازی دے گا اور ان کو بھی اگرچہ تمہارے پاس زادراہ اور خرچہ نہ ہو وہ تمہاری باتوں کو سنتا ہے اور تمہارے دل کے رازوں کو جانتا ہے اور اگر آپ ان سے یعنی کفار سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ اور کس نے شمس و قمر کو مسخر کر رکھا ہے ؟ ولَئِن میں لام قسم کا ہے تو یقیناً یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے، تو پھر یہ لوگ توحید کو چھوڑ کر اس کا اقرار کرنے کے بعد کہاں الٹے چلے جارہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسکا چاہتے ہیں بطور آزمائش رزق کشادہ کردیتے ہیں اور کشادہ کرنے کے بعد اس کا رزق تنگ کردیتے ہیں یا بطور آزمائش جس کی چاہیں (روزی تنگ کردیتے ہیں) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر شئ کے حال سے واقف ہے اور اسی (معلوم) شئ میں روزی کشادہ اور تنگ کرنے کا محل بھی ہے اور اگر آپ سے دریافت کریں کہ وہ ذات کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس پانی کے ذریعہ زمین کو خشک ہوجانے کے بعد تروتازہ کردیا ؟ تو یقیناً یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے تو پھر اس کے ساتھ کسی کو کیوں شریک کرتے ہیں ؟ آپ کہیے تمہارے اوپر حجت ثابت ہونے پر، الحمدللہ، بلکہ ان میں اکثر لوگ اس معاملہ میں اپنے (قول میں) تناقض کو سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : صَفْقَۃٌ ہاتھ پر مارنا، تالی بجانا، معاملہ کرنا، عرب کی عادت تھی کہ بیع کے تام ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے اختتام بیع پر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے تھے، یہاں مطلقاً بیع مراد ہے جس کو تجارتی اصطلاح میں سودا کہتے ہیں۔ قولہ : فَاِیَّایَ فَا عْبُدُوْن، اِیَّایَ اپنے ماقبل فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے بعد کا فعل اس کی تفسیر کررہا ہے تقدیر عبارت یہ ہے فاعبدوا ایّایَ فاعبدون . قولہ : لَنُبَوِّئنّھُمْ جمع متکلم لام تاکید بانون تاکید ثقیلہ بَوَّءَ یُبَوِّ ءُ تَبْوِئَۃً (تفعیل) بَوْءٌ مادہ ہے، ٹھکانہ دینا، جگہ درست کرنا، اور ایک قراءت میں لَنُثْوِیَنَّھُمْ ای لنقیمنّھُمْ مشتق من الثواء بمعنی اقامت، اس دوسری قراءت کے مطابق غُرَفًا مفعول بہ ہوگا نُثوِی نُنزِلْ لے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے۔ اس صورت میں ننزل کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی بدومفعول ہوگا، مفعول اول ھم ضمیر ہے اور دوسرا غُرَفًا بتقدیر فی ہے، ای فی غرفٍ من الجنۃ پہلی قراءت میں غُرَفًا مفعول ثانی ہے اور ھم مفعول ہے اس لئے کہ بَوَأَ متعدی بدومفعول ہے، قال اللہ تعالیٰ تُبَوِّ ئُ المؤمنینَ مقاعِدَ لِلقتال اور کبھی متعدی بالام بھی ہوتا ہے کما قال تعالیٰ وَاِذ بَوّ أنا لاِْبراھیم مکان البیتِ. قولہ : تجری من تحتھا الانھار یہ جملہ ہو کر غُرَفًا کی صفت ہے۔ قولہ : وَالذین آمنوا مبتداء لَنُبَوِّ ئَنَّھُمْ اس کی خبر والذین آمنوا فعل محذوف کی وجہ سے منصوب بھی ہوسکتا ہے جس پر بعد کا فعل دلالت کررہا ہے اس صورت میں یہ باب اشتغال سے ہوگا۔ قولہ : مقدرین الخلود فیھا اس سے اشارہ ہے کہ خالدین حال مقدرہ ہے ای انھم حین الدخول یقدرون الخلود . قولہ : ھٰذا الاجریہ مخصوص بالمدح ہے۔ قولہ : الذین صَبَروا، ھم مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ شارح نے ظاہر کردیا اور العاملین کی صفت بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : وکأین من دابۃ کأیّن مبتداء ممیّز، من دابۃٍ اس کی تمییز لا تحمل دابّۃٍ کی صفت اللہ یَرزُقُھا جملہ ہو کر کأیِّن مبتداء کی خبر۔ تفسیر وتشریح شروع سورت سے یہاں تک مسلمانوں کے ساتھ کفار کی عداوت اور توحید و رسالت سے مسلسل انکار اور حق اور اہل حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاٹوں کا بیان تھا، مذکورۃ الصدآیات میں مسلمانوں کے لئے ان کے شر سے بچنے اور حق کو شائع کرنے اور حق و انصاف کو دنیا میں قائم کرنے کی ایک تدبیر کا بیان ہے جس کا اصطلاحی نام ہجرت ہے یعنی اس وطن اور ملک کو چھوڑ دینا جس میں انسان خلاف حق بولنے اور کرنے پر مجبور ہو اور شعائر دین کو آزادی سے ادا نہ کرسکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ ارضی وَاسِعَۃٌ فاِیّایَ فَاعْبُدُوْن یعنی اگر کسی ملک میں یا کسی علاقہ میں ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ جہاں فرائض دین اور شعائر اسلام کو بآسانی ادا نہ کرسکے اور باطل کی مجبوراً تائید کرنی پڑے تو ایسی جگہ سے ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے، فرائض میں کوتاہی یا عدم ادائیگی کے بارے میں یہ عذر عند اللہ قابل قبول نہ ہوگا کہ جہاں ہم رہتے تھے کافروں اور ظالموں کی حکومت تھی فرائض اور شعائر اسلام کی دائیگی وہاں ممکن نہیں تھی، اس لئے کہ اللہ کی زمین وسیع ہے ہجرت کرجانا چاہیے تھا۔ وطن سے ہجرت کرکے کسی دوسری جگہ جانے میں عام طور پر عادۃً دو قسم کے خطرات پیش آیا کرتے ہیں جو ہجرت سے روکتے ہیں، پہلا خطرہ اپنی جان کا ہے، جب وطن کو چھوڑ کر جائیں گے تو یہاں کے کفار اور ظالم لوگ راہ میں حائل ہوں گے اور ممکن ہے کہ راستہ میں دیگر کافروں سے بھی مقابلہ یا مقاتلہ کہ نوبت آجائے جس سے جان کا خطرہ ہو، اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ کل نفسٍ ذائقۃ الموت یعنی موت تو ہرحال اور ہر جگہ آنے والی ہے اس لئے موت سے خوف اور گھبراہٹ مومن کا کام نہیں ہونا چاہیے اور مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ موت اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں آسکتی اس لئے ہجرت کرنے میں موت کا خوف حائل نہ ہونا چاہیے، خصوصاً جبکہ احکام الہٰی کی اطاعت کرتے ہوئے موت آجانا دائمی راحتوں اور نعمتوں کا ذریعہ ہے جو ان کو آخرت میں ملیں گی، جس کا ذکر بعد کی ان دو آیتوں میں فرمایا اَلَّذِینَ آمَنُوْا وَعمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّھُمْ مِنَ الجنۃِ غُرَفًا .(الآیۃ) دوسرا خطرہ ہجرت کی راہ میں یہ پیش آتا ہے کہ دوسرے ملک یا دوسری جگہ جاکر رزق کا کیا سامان ہوگا ؟ اپنی جگہ رہتے ہوئے تو انسان کا کچھ نہ کچھ ذریعہ معاش ہوتا ہے، ہجرت کی وجہ سے یہ سب ختم ہوجاتا ہے، اس کا جواب بعد کی تین آیتوں میں اس طرح دیا گیا ہے کہ تم اس حاصل کردہ سامان اور ذریعہ کے بھی رزق پہنچا دیتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سامان اور اسباب کے ہوتے ہوئے بھی انسان رزق سے محروم ہوسکتا ہے اس کے بیان کے لئے فرمایا وَکَأَیِّنْ مِنْ دَابَّۃٍ لاَتَحْمِلُ رِزْقَھَا واِیّا کُمْ یعنی اس پر غور کرو کہ زمین پر چلنے والے ہزاروں قسم کے جانور ہیں کہ جو اپنا رزق جمع کرنے اور رکھنے کا انتظام نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ ان کو روزانہ رزق مہیا کرتا ہے، سفیان بن عینیہ (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان اور چوہا اور چیونٹی کے سوا کوئی حیوان اپنی غذا جمع نہیں کرتا بعض حضرات نے کوے کو بھی شمار کیا ہے وہ بھی آشیانہ میں غذا چھپا کر رکھتا ہے مگر بھول جاتا ہے، چیونٹی چونکہ سردی کے موسم میں اپنے سوراخ سے باہر نہیں آتی اس لئے موسم گرما ہی میں سرما کا انتظام کرلیتی ہے، بقیہ ہزار ہا اقسام کے جانور جن کا شمار بھی مشکل ہے ان میں کوئی جانور ایسا نہیں ہے کہ جو کل کی فکر کرتا ہو، حدیث میں ہے کہ یہ پرندے صبح کو اپنے گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس ہوتے ہیں نہ ان کی کوئی کھیتی باڑی ہے اور نہ زمین جائدادنہ کسی کارخانہ یا دفتر کے ملازم ہیں کہ وہاں سے اپنا رزق حاصل کریں اور یہ ایک دن کا معاملہ نہیں جب تک وہ زندہ رہتے ہیں روزانہ ان کو پیٹ بھرائی رزق ملتا ہے۔ (معارف) خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت سے روکنے والی دوسری شئ فکر معاش ہے مگر یہ انسان کا خام خیال ہے اس لئے اپنے جمع کردہ اسباب معاشی پر بھروسہ کرلینا درست نہیں ہے اس لئے یہ دوسرا خطرہ بھی ہجرت سے مانع نہیں ہونا چاہیے۔ ہجرت سے متعلق الفاظ عام ہونے کی وجہ سے حکم اگرچہ عام ہے مگر آیت کے شان نزول میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مومنین کو جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم کس طرح مدینہ جائیں نہ وہاں گھر ہے نہ در اور نہ وہاں مال، ہمیں وہاں کون کھلائے گا ؟ تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ مسئلہ : جس شہر یا ملک میں انسان کو اپنے دین پر قائم رہنے کی آزادی نہ ہو، وہ کفر وشرک یا احکام شرعیہ کی خلاف ورزی پر مجبور ہو تو ایسی جگہ سے بشرطیکہ قدرت ہو ہجرت کرنا واجب ہے البتہ اگر قدرت نہ ہو یا کوئی ایسی جگہ میسر نہ ہو کہ وہاں آزادی سے اپنے دین پر عمل کرسکے تو وہ شرعاً معذور ہے۔ مسئلہ : جس جگہ عام احکام دینیہ پر عمل کرنے کی آزادی ہو وہاں سے ہجرت فرض یا واجب تو مگر مستحب ہے، اور اس میں دارلکفر ہونا بھی ضروری نہیں دارلفسق جہاں احکام الہٰیہ کی خلاف ورزی اعلاناً ہوتی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اگرچہ اس کو دارالاسلام کہا جاتا ہو، یہ تفصیل حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر فرمائی ہے۔
Top