Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 105
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو تَفَرَّقُوْا : متفرق ہوگئے وَاخْتَلَفُوْا : اور باہم اختلاف کرنے لگے مِنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَھُمُ : ان کے پاس آگئے الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْم : بڑا
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے اور احکام بین کے آنے کے بعد ایک دوسرے سے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو (قیامت کے دن) بڑا عذاب ہوگا
وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا (الآیۃ) اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلاف اور تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا اور اس کے دلائل سے بیخبر تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لیے اختلاف و تفرقہ کی راہ اختیار کی تھی، قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے میں اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ سیاہ چہرے والے اور سفید چہرے والے کون ہوں گے ؟: ان کی تعیین میں مفسرین کے مختلف اقوال مذکور ہیں، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ مہاجرین و انصار کے چہرے سفید ہوں گے اور بنی قریظہ اور بنی نضیر کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ (قرطبی) ۔ امام ترمذی (رح) تعالیٰ علیہ نے حضرت ابو امامہ ؓ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اس سے مراد خوارج ہیں یعنی سیاہ چہرے خوارج کے ہوں گے اور سفید چہرے ان لوگوں کے ہوں گے جن کو وہ قتل کریں گے۔ جب حضرت ابو امامہ ؓ سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے یہ حدیث آپ ﷺ سے سنی ہے تو حضرت ابو امامہ ؓ نے شمار کرکے بتایا کہ اگر میں نے یہ حدیث سات مرتبہ نہ سنی ہوتی تو میں بیان نہ کرتا۔ (ترمذی)
Top