Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 101
تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآئِهَا١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ١ۚ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ
تِلْكَ : یہ الْقُرٰي : بستیاں نَقُصُّ : ہم بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ : سے اَنْۢبَآئِهَا : ان کی کچھ خبریں وَلَقَدْ : اور البتہ جَآءَتْهُمْ : آئے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیاں لے کر فَمَا : سو نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : وہ ایمان لاتے بِمَا : کیونکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ : مہر لگاتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر قُلُوْبِ : دل (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ بستیاں 105 ہیں جن کے احوال ہم نے آپ سے بیان کردیئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تھے مگر جس بات کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لانا 106 انہوں نے مناسب نہ سمجھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے
105 یعنی سیدنا نوح (علیہ السلام) سیدنا ہود (علیہ السلام) سیدنا صالح (علیہ السلام) سیدنا لوط (علیہ السلام) اور سیدنا شعیب (علیہ السلام) کے علاقہ ہائے تبلیغ رسالت۔ 106 دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے ؟ آیت کے اس حصہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے ؟ اور دوسرے یہ کہ اس مہر لگنے کی نسبت اللہ کی طرف کس لحاظ سے ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے دل پر مہر یوں لگتی ہے کہ وہ جس بات کا ایک دفعہ انکار کردیتا ہے یا اسے جھٹلا دیتا ہے پھر اسے کوئی نشانی دیکھنے سے یا کسی کے سمجھانے سے حقیقت سمجھ میں آ بھی جائے تو محض اس لیے اپنے پہلے سے کیے ہوئے انکار پر ڈٹ جاتا ہے کہ اس سے اس کی انامجروح ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اس حالت کو پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل پر اللہ کی مہر لگنے کا وقت آگیا ہے اور آئندہ وہ حق بات تسلیم کرنے کے قابل ہی نہ رہے گا۔ مہر لگنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ؟ اور مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی وجہ سے اسے سبب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اعمال کی جزا و سزا کا دار و مدار بھی اسباب کو اختیار کرنے کی بنا پر ہے۔ لیکن ان اسباب کے مسببات یا نتائج حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے یہ نتائج اکثر اوقات تو اختیار کردہ اسباب کے مطابق ہی برآمد ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ان کے خلاف بھی برآمد ہوسکتے ہیں لہذا نتائج کی نسبت اسباب اختیار کرنے والے کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی۔ اور قرآن میں یہ نسبت دونوں طرح سے استعمال ہوئی ہے۔ بہرحال یہ نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہو تو بھی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کسی سبب اختیار کرنے والے مجرم کے عمل کے نتیجے میں ہے۔ اور حقیقتاً مجرم وہ ہے جس نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے۔
Top