Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ
: اور جب
غَدَوْتَ
: آپ صبح سویرے
مِنْ
: سے
اَھْلِكَ
: اپنے گھر
تُبَوِّئُ
: بٹھانے لگے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
مَقَاعِدَ
: ٹھکانے
لِلْقِتَالِ
: جنگ کے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
آیت نمبر 121 تا 129 ترجمہ : اور اے محمد ﷺ وہ وقت یاد کرو جب آپ مدینہ سے اپنے اہل کے پاس سے نکلے تھے، مسلمانوں کو قتال کے مناسب مراکز پر کھڑے کرتے ہوئے اور اللہ ان کے اقوال کو بڑا سننے والا اور ان کے احوال کو بڑا جاننے والا ہے اور یہ احد کا دن تھا۔ آپ ﷺ ہزار یا پچاس کم ہزار افراد کے ساتھ نکلے تھے، اور مشرکوں کی تعداد تین ہزار تھی 3 ھ کے ماہ شوال کی ساتویں تاریخ بروز شنبہ گھاٹی میں نزول فرمایا، اور احد پہاڑ کی جانب اپنی اور لشکر کی پشت رکھی، اور آپ ﷺ نے لشکر کی صفوں کو درست فرمایا، اور تیر اندازوں کا ایک دستہ جس پر عبد اللہ بن جبیر کو سالار نام زد فرمایا تھا پہاڑ کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا۔ اور فرمایا کہ تیر اندازی کے ذریعہ (دشمن کو) منتشر کرکے تم ہمارا دفاع کرتے رہنا، تاکہ دشمن ہماری پشت کی جانب سے نہ آسکے، اور اپنی جگہ ہرگز نہ چھوڑنا خواہ ہم مغلوب ہوں یا غالب۔ جب تم میں سے دو جماعتیں، یہ اذ، سابقہ اذ، سے بدل ہے، بنو سلمہ اور بنو حارثہ جو کہ لشکر کے دو بازو تھے، یہ خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں۔ یعنی قتال سے بزدلی دکھائیں اور واپس چلی جائیں۔ جب کہ عبد اللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھی یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ ہم کیوں اپنی جانوں کو اور اپنی اولادوں کو قتل کرائیں ؟ اور (عبد اللہ بن ابی) نے ابو حاتم سلمی سے کہا تھا کہ میں تم کو تمہاری جانوں اور تمہارے نبی کے بارے میں حفاظت کی قسم دیتا ہوں، کہا اگر ہم (اس کو) قتال سمجھتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔ (یعنی یہ قتال نہیں ہلاکت ہے) تو اللہ تعالیٰ نے دونوں جماعتوں کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور یہ لوگ واپس نہیں ہوئے، درآنحالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور مسلمانوں کو تو اللہ ہی پر اعتماد کرنا چاہیے نہ کہ کسی اور پر، (آئندہ آیت) اللہ کی نعمتوں کو یاد دلانے کیلئے اس وقت نازل ہوئی جب مسلمان شکست کھا گئے اور یقیناً بدر میں جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی، حالانکہ تم تعداد میں اور آلات کے اعتبار سے کم تھے۔ اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم اس کی نعمتوں کے شکر گزار بن جاؤ۔ اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب آپ مؤمنین کے قلوب کو مطمئن کرنے کے لئے مومنین سے وعدہ کر رہے تھے، کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار تین ہزار نازل کردہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے (منزلین) میں تخفیف اور تشدید دونوں قراءتیں ہیں۔ بیشک یہ مقدار تمہارے لیے کافی ہوگی۔ اور سورة انفال میں ہزار کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ ابتداءً ان کی مدد ایک ہزار سے فرمائی تھی، پھر تین ہزار ہوگئے پھر پانچ ہزار، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر تم دشمن سے مقابلہ کے وقت صبر کرو اور اللہ کی مخالفت سے ڈرتے رہو اور مشرکین جب تمہارے اوپر اچانک آپڑیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار نشان زدہ (منتخب) فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ واؤ۔ کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ۔ یعنی آداب حرب سیکھے ہوئے (پہلی صورت میں) یا تربیت یافتہ (دوسری صورت میں) اور ان لوگوں نے صبر کیا، اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا فرمادیا۔ بایں طور کی فرشتوں نے اَبْلَقْ گھوڑوں پر سوار ہو کر مشرکوں سے قتال کیا جو کہ زرد یا سفید عمامے باندھے ہوئے تھے۔ اور ان کے شملے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکے ہوئے تھے۔ اور یہ مدد تو اللہ نے اس لیے کہ تاکہ تم خوش ہوجاؤ اور تاکہ تمہارے قلوب اس سے مطمئن ہوجائیں اور تم دشمن کی کثرت اور اپنی قلت کی وجہ سے نہ گھبراؤ۔ اور نصرت تو بس زبردست اور حکمت والے اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور وہ لشکر کی کثرت پر موقوف نہیں ہے۔ (اور یہ نصرت اس لیے تھی) تاکہ کفر کرنے والوں میں سے ایک گروہ کو قتل و قید کے ذریعہ ہلاک کر دے (لیقطع) نصرکم کے متعلق ہے یا شکست کے ذریعہ ان کو ذلیل کر دے اور وہ ناکام ہو کر واپس جائے اور وہ اپنے مطلوب کو نہ پاسکے۔ اور جب احد کے دن آپ ﷺ کی رباعی مبارک شہید ہوگئیں اور آپ کو چہرہ انور زخمی ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی کہ جس نے اپنے نبی کے چہرہ کو خون آلود کردیا۔ آپ کو اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں بلکہ معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پس آپ تو صبر کریں۔ خواہ ان کو اسلام کی توفیق دے کر ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے۔ ’ اَو ‘ بمعنی الی ان ہے۔ اس لیے کہ وہ کفر کی وجہ سے ظالم ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی ملک ہے۔ ملکیت کے اعتبار سے اور تخلیق کے اعتبار سے اور مملوکیت کے اعتبار سے۔ وہ جس کی مغفرت چاہتا ہے اس کی مغفرت کرتا ہے اور جس کو عذاب دینا چاہتا ہے اس کو عذاب دیتا ہے۔ اور اللہ اپنے دوستوں کو بڑا معاف کرنے والا اور اطاعت گزاروں پر رحم کرنے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : غَدَوْتَ ، غَدْوٌ، سے ماضی واحد مذکر حاضر معروف۔ الغدو صبح کے وقت نکلنا۔ قولہ : تُبَوِّیُّ ، تَبْوِیّۃ سے مضارع واحد مذکر حاضر، تو جگہ دیتا ہے، اتارتا ہے، جاتا ہے، اس کا تعدیہ مفعول ثانی کی طرف بنفسہ بھی ہوتا ہے اور بالام بھی۔ قولہ : اِذْھَمَّتْ طَّآئِفَتَانِ ، یہ اِذْ سابق اِذ غَدَوْتَ سے بدل ہے نہ کہ سمیع علیم سے جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اس لیے کہ سمیع وعلیم ہونا کسی زمان کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ قولہ : بدر، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک کنویں کا نام ہے۔ یہ کنواں بدرنامی ایک شخص کا تھا اسی کے نام سے یہ جگہ موسوم ہوگئی۔ قولہ : مُسَوِّمِیْنَ ، واؤ کے کسرہ کے ساتھ، یعنی فرشتوں نے اپنے گھوڑوں کی دموں اور پیشانیوں پر اور اپنے اوپر لباس کے ذریعہ علامت لگائی ہوئی تھی۔ اور اگر واؤ کے فتحہ کے ساتھ ہو تو طلب ہوگا کہ کہ وہ گھوڑے نشان زدہ تھے۔ قولہ : ای مُعْلَمِیْنَ یہ مُسَوِّمِیْنَ کی تفسیر ہے۔ قولہ : بُلْقٌ، اَبْلَقْ کی جمع ہے، چتکبرا۔ قولہ : اَرْسَلُوْھا بین اکتافھم یعنی اپنے عماموں کے شملے کمر پر لٹکائے ہوئے تھے۔ قولہ : أو بمعنی اِلیٰ أن، اَو، کو الی أن، کے معنی میں لینے کی وجہ یہ ہے کہ یَتُوْبَ ، فعل ہے اور ماقبل میں اَلْاَمر اور شئٌ، دونوں اسم ہیں لہٰذا فعل کا عطف اسم پر درست نہیں ہے اور معنی کے درست نہ ہونے کی وجہ سے لَیْسَ پر بھی عطف درست نہیں ہے۔ اور اَوْ بَمَعْنٰی اِلٰی أن بکثرت مستعمل ہے۔ تفسیر و تشریح غزوہ احد : وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ ، جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے جنگ احد کا واقعہ مراد ہے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ شوال 3 ھ کے شروع میں کفار مکہ تقریباً تین ہزار مسلح لشکر جرار لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے، تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا اور اس کے علاوہ جنگ بدر کی ذلت آمیز شکست کے انتقام کا شدید جوش اور جذبہ بھی رکھتے تھے۔ خود نبی ﷺ اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کی جائے عبد اللہ بن ابی منافق کی رائے بھی یہی تھی۔ مگر چند نوجوانوں نے جو شہادت کے شوق سے بےتاب تھے اور جنہیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔ باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا آخر کار آپ ﷺ نے ان کے اصرار کی وجہ سے باہر نکل کر دفاع کرنے ہی کا فیصلہ فرما لیا اور جنگی لباس زرہ وغیرہ پہن کر آپ تیار ہوگئے اس وقت صحابہ کو احساس ہوا کہ آپ مجبوراً اپنی رائے کے برخلاف مدینے سے باہر نکل کر لڑنے پر تیار ہوئے ہیں، بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اگر آپ مدینہ میں رہ کر دفاع کرنا پسند فرماتے ہیں تو ایسا ہی کیجئے۔ مگر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ نبی جب حربی لباس پہن لیتا ہے تو اس کے لیے لائق نہیں کہ وہ اللہ کے فیصلہ کے بغیر واپس ہو یا لباس اتارے۔ ایک ہزار مجاہد آپ کے ساتھ نکلے، مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر عین اس وقت جب کہ دونوں لشکر آمنے سامنے تھے، یہ کہہ کر الگ ہوگیا کہ جب ہماری بات ہی نہیں مانی گئی تو خواہ مخواہ ہم اپنی جان کیوں گنوائیں ؟ عبد اللہ منافق کی بروقت اس حرکت سے اضطراب کا پھل جانا ایک فطری بات تھی، حتیٰ کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا، پھر اکابر صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہوگیا، ان باقی ماندہ سات سو افراد کے ساتھ نبی ﷺ آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں مدینہ منورہ سے تقریباً چا رمیل کے فاصلہ پر اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ احد پہاڑ پشت پر تھا، اور قریش کا لشکر سامنے پہلے میں صرف ایک درّہ تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا، وہاں آپ نے عبد اللہ بن جبیر کی زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دئیے اور ان کو تاکید کردی کہ ہمارا خواہ کچھ بھی انجام ہو ہم ہاریں یا جیتیں تم اپنی جگہ مت چھوڑنا اس سے بعد جنگ شروع ہوئی۔ قریش بڑے اہتمام کے ساتھ میدان میں اترے، ان کی تین ہزار کی جمعیت تھی جن میں سات سو زرہ پوش تھے دو سو گھوڑ سوار باقی شتر سوار تھے قبیلوں کے بڑے بڑے سردار تھے، ہمت بڑھانے اور جوش دلانے کے لیے عورتیں بھی شریک لشکر تھیں، ہاتھوں میں باجے لیے پرجوش ترانے گاتی جاتی تھیں، اور مقتولین بدر کے انتقام پر عزیزوں، قریبوں کو ابھارتی تھیں۔ اسلامی فوج اس کے مقابلہ میں کل ایک ہزار سے بھی کم تھی اور سامان کی کیفیت یہ تھی کہ علاوہ آپ ﷺ کی سواری کے فوج میں صرف ایک گھوڑا اور تھا۔ ابتداءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں باتری پھیل گئی، لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت حاصل کرنے کی فکر میں لگ گئے، ادھر جن تیر اندازوں کو آپ ﷺ نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن کے پیر اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے۔ تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طرف لپکے، حضرت عبد اللہ بن جبیر نے ان کو نبی ﷺ کا تاکیدی حکم دیا دلایا، بہت روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ رکا، اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے بروقت فائدہ اٹھا لیا اور پہاڑ کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کردیا عبد اللہ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں نے اس حملہ کو روکنے کی کوشش کی مگر مدافعت نہ کرسکے، اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا دوسری طرف بھاگا ہوا دشمن بھی پلٹ آیا اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا، اور مسلمان غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا تاہم چند بہادر صحابہ ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی ﷺ شہید ہوگئے، اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے حواس بھی گم کر دئیے اور باقی ماندہ لوگ بھی بہت کم رہ گئے۔ اس وقت آپ ﷺ کے گرد صرف دس جاں نثار صحابہ رہ گئے تھے، اور آپ ﷺ خود زخمی ہوچکے تھے، شکست کی تکمیل میں کوئی کسی باقی نہیں رہی تھی، لیکن عین وقت پر صحابہ ؓ کو معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ زندہ و سلامت ہیں چناچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر آپ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ کو بسلامت پہاڑ کی طرف لے آئے۔ لیکن اس موقع پر یہ معمہ باقی رہا اور آج تک معمہ ہی ہے جو حل طلب ہے کہ وہ کیا چیز تھی کہ کفار مکہ خود بخود واپس ہوگئے ؟ مسلمان اس قدر پراگندہ ہوچکے تھے کہ ان کا دوبارہ مجتمع ہو کر جنگ کرنا مشکل تھا اگر کفار اس فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو بظاہر ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم وہ کسی طرح آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر بھاگے اور واپس چلے گئے ؟
Top