Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
آیت نمبر 121 تا 129 ترجمہ : اور اے محمد ﷺ وہ وقت یاد کرو جب آپ مدینہ سے اپنے اہل کے پاس سے نکلے تھے، مسلمانوں کو قتال کے مناسب مراکز پر کھڑے کرتے ہوئے اور اللہ ان کے اقوال کو بڑا سننے والا اور ان کے احوال کو بڑا جاننے والا ہے اور یہ احد کا دن تھا۔ آپ ﷺ ہزار یا پچاس کم ہزار افراد کے ساتھ نکلے تھے، اور مشرکوں کی تعداد تین ہزار تھی 3 ھ کے ماہ شوال کی ساتویں تاریخ بروز شنبہ گھاٹی میں نزول فرمایا، اور احد پہاڑ کی جانب اپنی اور لشکر کی پشت رکھی، اور آپ ﷺ نے لشکر کی صفوں کو درست فرمایا، اور تیر اندازوں کا ایک دستہ جس پر عبد اللہ بن جبیر کو سالار نام زد فرمایا تھا پہاڑ کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا۔ اور فرمایا کہ تیر اندازی کے ذریعہ (دشمن کو) منتشر کرکے تم ہمارا دفاع کرتے رہنا، تاکہ دشمن ہماری پشت کی جانب سے نہ آسکے، اور اپنی جگہ ہرگز نہ چھوڑنا خواہ ہم مغلوب ہوں یا غالب۔ جب تم میں سے دو جماعتیں، یہ اذ، سابقہ اذ، سے بدل ہے، بنو سلمہ اور بنو حارثہ جو کہ لشکر کے دو بازو تھے، یہ خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں۔ یعنی قتال سے بزدلی دکھائیں اور واپس چلی جائیں۔ جب کہ عبد اللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھی یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ ہم کیوں اپنی جانوں کو اور اپنی اولادوں کو قتل کرائیں ؟ اور (عبد اللہ بن ابی) نے ابو حاتم سلمی سے کہا تھا کہ میں تم کو تمہاری جانوں اور تمہارے نبی کے بارے میں حفاظت کی قسم دیتا ہوں، کہا اگر ہم (اس کو) قتال سمجھتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔ (یعنی یہ قتال نہیں ہلاکت ہے) تو اللہ تعالیٰ نے دونوں جماعتوں کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور یہ لوگ واپس نہیں ہوئے، درآنحالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور مسلمانوں کو تو اللہ ہی پر اعتماد کرنا چاہیے نہ کہ کسی اور پر، (آئندہ آیت) اللہ کی نعمتوں کو یاد دلانے کیلئے اس وقت نازل ہوئی جب مسلمان شکست کھا گئے اور یقیناً بدر میں جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی، حالانکہ تم تعداد میں اور آلات کے اعتبار سے کم تھے۔ اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم اس کی نعمتوں کے شکر گزار بن جاؤ۔ اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب آپ مؤمنین کے قلوب کو مطمئن کرنے کے لئے مومنین سے وعدہ کر رہے تھے، کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار تین ہزار نازل کردہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے (منزلین) میں تخفیف اور تشدید دونوں قراءتیں ہیں۔ بیشک یہ مقدار تمہارے لیے کافی ہوگی۔ اور سورة انفال میں ہزار کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ ابتداءً ان کی مدد ایک ہزار سے فرمائی تھی، پھر تین ہزار ہوگئے پھر پانچ ہزار، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر تم دشمن سے مقابلہ کے وقت صبر کرو اور اللہ کی مخالفت سے ڈرتے رہو اور مشرکین جب تمہارے اوپر اچانک آپڑیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار نشان زدہ (منتخب) فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ واؤ۔ کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ۔ یعنی آداب حرب سیکھے ہوئے (پہلی صورت میں) یا تربیت یافتہ (دوسری صورت میں) اور ان لوگوں نے صبر کیا، اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا فرمادیا۔ بایں طور کی فرشتوں نے اَبْلَقْ گھوڑوں پر سوار ہو کر مشرکوں سے قتال کیا جو کہ زرد یا سفید عمامے باندھے ہوئے تھے۔ اور ان کے شملے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکے ہوئے تھے۔ اور یہ مدد تو اللہ نے اس لیے کہ تاکہ تم خوش ہوجاؤ اور تاکہ تمہارے قلوب اس سے مطمئن ہوجائیں اور تم دشمن کی کثرت اور اپنی قلت کی وجہ سے نہ گھبراؤ۔ اور نصرت تو بس زبردست اور حکمت والے اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور وہ لشکر کی کثرت پر موقوف نہیں ہے۔ (اور یہ نصرت اس لیے تھی) تاکہ کفر کرنے والوں میں سے ایک گروہ کو قتل و قید کے ذریعہ ہلاک کر دے (لیقطع) نصرکم کے متعلق ہے یا شکست کے ذریعہ ان کو ذلیل کر دے اور وہ ناکام ہو کر واپس جائے اور وہ اپنے مطلوب کو نہ پاسکے۔ اور جب احد کے دن آپ ﷺ کی رباعی مبارک شہید ہوگئیں اور آپ کو چہرہ انور زخمی ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی کہ جس نے اپنے نبی کے چہرہ کو خون آلود کردیا۔ آپ کو اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں بلکہ معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پس آپ تو صبر کریں۔ خواہ ان کو اسلام کی توفیق دے کر ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے۔ ’ اَو ‘ بمعنی الی ان ہے۔ اس لیے کہ وہ کفر کی وجہ سے ظالم ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی ملک ہے۔ ملکیت کے اعتبار سے اور تخلیق کے اعتبار سے اور مملوکیت کے اعتبار سے۔ وہ جس کی مغفرت چاہتا ہے اس کی مغفرت کرتا ہے اور جس کو عذاب دینا چاہتا ہے اس کو عذاب دیتا ہے۔ اور اللہ اپنے دوستوں کو بڑا معاف کرنے والا اور اطاعت گزاروں پر رحم کرنے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : غَدَوْتَ ، غَدْوٌ، سے ماضی واحد مذکر حاضر معروف۔ الغدو صبح کے وقت نکلنا۔ قولہ : تُبَوِّیُّ ، تَبْوِیّۃ سے مضارع واحد مذکر حاضر، تو جگہ دیتا ہے، اتارتا ہے، جاتا ہے، اس کا تعدیہ مفعول ثانی کی طرف بنفسہ بھی ہوتا ہے اور بالام بھی۔ قولہ : اِذْھَمَّتْ طَّآئِفَتَانِ ، یہ اِذْ سابق اِذ غَدَوْتَ سے بدل ہے نہ کہ سمیع علیم سے جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اس لیے کہ سمیع وعلیم ہونا کسی زمان کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ قولہ : بدر، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک کنویں کا نام ہے۔ یہ کنواں بدرنامی ایک شخص کا تھا اسی کے نام سے یہ جگہ موسوم ہوگئی۔ قولہ : مُسَوِّمِیْنَ ، واؤ کے کسرہ کے ساتھ، یعنی فرشتوں نے اپنے گھوڑوں کی دموں اور پیشانیوں پر اور اپنے اوپر لباس کے ذریعہ علامت لگائی ہوئی تھی۔ اور اگر واؤ کے فتحہ کے ساتھ ہو تو طلب ہوگا کہ کہ وہ گھوڑے نشان زدہ تھے۔ قولہ : ای مُعْلَمِیْنَ یہ مُسَوِّمِیْنَ کی تفسیر ہے۔ قولہ : بُلْقٌ، اَبْلَقْ کی جمع ہے، چتکبرا۔ قولہ : اَرْسَلُوْھا بین اکتافھم یعنی اپنے عماموں کے شملے کمر پر لٹکائے ہوئے تھے۔ قولہ : أو بمعنی اِلیٰ أن، اَو، کو الی أن، کے معنی میں لینے کی وجہ یہ ہے کہ یَتُوْبَ ، فعل ہے اور ماقبل میں اَلْاَمر اور شئٌ، دونوں اسم ہیں لہٰذا فعل کا عطف اسم پر درست نہیں ہے اور معنی کے درست نہ ہونے کی وجہ سے لَیْسَ پر بھی عطف درست نہیں ہے۔ اور اَوْ بَمَعْنٰی اِلٰی أن بکثرت مستعمل ہے۔ تفسیر و تشریح غزوہ احد : وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ ، جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے جنگ احد کا واقعہ مراد ہے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ شوال 3 ھ کے شروع میں کفار مکہ تقریباً تین ہزار مسلح لشکر جرار لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے، تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا اور اس کے علاوہ جنگ بدر کی ذلت آمیز شکست کے انتقام کا شدید جوش اور جذبہ بھی رکھتے تھے۔ خود نبی ﷺ اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کی جائے عبد اللہ بن ابی منافق کی رائے بھی یہی تھی۔ مگر چند نوجوانوں نے جو شہادت کے شوق سے بےتاب تھے اور جنہیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔ باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا آخر کار آپ ﷺ نے ان کے اصرار کی وجہ سے باہر نکل کر دفاع کرنے ہی کا فیصلہ فرما لیا اور جنگی لباس زرہ وغیرہ پہن کر آپ تیار ہوگئے اس وقت صحابہ کو احساس ہوا کہ آپ مجبوراً اپنی رائے کے برخلاف مدینے سے باہر نکل کر لڑنے پر تیار ہوئے ہیں، بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اگر آپ مدینہ میں رہ کر دفاع کرنا پسند فرماتے ہیں تو ایسا ہی کیجئے۔ مگر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ نبی جب حربی لباس پہن لیتا ہے تو اس کے لیے لائق نہیں کہ وہ اللہ کے فیصلہ کے بغیر واپس ہو یا لباس اتارے۔ ایک ہزار مجاہد آپ کے ساتھ نکلے، مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر عین اس وقت جب کہ دونوں لشکر آمنے سامنے تھے، یہ کہہ کر الگ ہوگیا کہ جب ہماری بات ہی نہیں مانی گئی تو خواہ مخواہ ہم اپنی جان کیوں گنوائیں ؟ عبد اللہ منافق کی بروقت اس حرکت سے اضطراب کا پھل جانا ایک فطری بات تھی، حتیٰ کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا، پھر اکابر صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہوگیا، ان باقی ماندہ سات سو افراد کے ساتھ نبی ﷺ آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں مدینہ منورہ سے تقریباً چا رمیل کے فاصلہ پر اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ احد پہاڑ پشت پر تھا، اور قریش کا لشکر سامنے پہلے میں صرف ایک درّہ تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا، وہاں آپ نے عبد اللہ بن جبیر کی زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دئیے اور ان کو تاکید کردی کہ ہمارا خواہ کچھ بھی انجام ہو ہم ہاریں یا جیتیں تم اپنی جگہ مت چھوڑنا اس سے بعد جنگ شروع ہوئی۔ قریش بڑے اہتمام کے ساتھ میدان میں اترے، ان کی تین ہزار کی جمعیت تھی جن میں سات سو زرہ پوش تھے دو سو گھوڑ سوار باقی شتر سوار تھے قبیلوں کے بڑے بڑے سردار تھے، ہمت بڑھانے اور جوش دلانے کے لیے عورتیں بھی شریک لشکر تھیں، ہاتھوں میں باجے لیے پرجوش ترانے گاتی جاتی تھیں، اور مقتولین بدر کے انتقام پر عزیزوں، قریبوں کو ابھارتی تھیں۔ اسلامی فوج اس کے مقابلہ میں کل ایک ہزار سے بھی کم تھی اور سامان کی کیفیت یہ تھی کہ علاوہ آپ ﷺ کی سواری کے فوج میں صرف ایک گھوڑا اور تھا۔ ابتداءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں باتری پھیل گئی، لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت حاصل کرنے کی فکر میں لگ گئے، ادھر جن تیر اندازوں کو آپ ﷺ نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن کے پیر اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے۔ تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طرف لپکے، حضرت عبد اللہ بن جبیر نے ان کو نبی ﷺ کا تاکیدی حکم دیا دلایا، بہت روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ رکا، اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے بروقت فائدہ اٹھا لیا اور پہاڑ کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کردیا عبد اللہ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں نے اس حملہ کو روکنے کی کوشش کی مگر مدافعت نہ کرسکے، اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا دوسری طرف بھاگا ہوا دشمن بھی پلٹ آیا اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا، اور مسلمان غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا تاہم چند بہادر صحابہ ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی ﷺ شہید ہوگئے، اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے حواس بھی گم کر دئیے اور باقی ماندہ لوگ بھی بہت کم رہ گئے۔ اس وقت آپ ﷺ کے گرد صرف دس جاں نثار صحابہ رہ گئے تھے، اور آپ ﷺ خود زخمی ہوچکے تھے، شکست کی تکمیل میں کوئی کسی باقی نہیں رہی تھی، لیکن عین وقت پر صحابہ ؓ کو معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ زندہ و سلامت ہیں چناچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر آپ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ کو بسلامت پہاڑ کی طرف لے آئے۔ لیکن اس موقع پر یہ معمہ باقی رہا اور آج تک معمہ ہی ہے جو حل طلب ہے کہ وہ کیا چیز تھی کہ کفار مکہ خود بخود واپس ہوگئے ؟ مسلمان اس قدر پراگندہ ہوچکے تھے کہ ان کا دوبارہ مجتمع ہو کر جنگ کرنا مشکل تھا اگر کفار اس فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو بظاہر ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم وہ کسی طرح آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر بھاگے اور واپس چلے گئے ؟
Top