Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
آیت نمبر 130 تا 143 ترجمہ : اے ایمان والو ! یہ بڑھتا ثڑھتا سود کھانا چھوڑ دو (مُضٰعَفَۃً ) الف اور بغیر الف دونوں طریقوں پر ہے۔ اس طور پر کہ مدت پوری ہونے پر مالی مطالبہ بڑھا دو ۔ اور مطالبہ میں مہلت دے دو ۔ (اکل ربا) کو ترک کرکے اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ اور اس آگ سے ڈرو جو (اصالۃً ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے کہ تم کو اس میں عذاب دیا جائے اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑو کہ جس کی وسعت زمین و آسمان ہیں (سَارِعُوْا) میں قبل السین واؤ اور بدون واؤ دونوں (قراءتیں) ہیں۔ یعنی (جنت کی وسعت) ان دونوں کی وسعت کے مانند ہے اگر ایک دوسرے کے ساتھ ملا لیے جائیں، اور ” عرض “ کے معنی وسعت کے ہیں، عمل اطاعت اور ترک معاصی کرکے جو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو فراغت اور تنگی (دونوں حالتوں) میں اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں، (یعنی فراخ دستی اور تنگ دستی میں خرچ کرتے ہیں) اور غصہ کو پی جانے والے ہیں یعنی قدرت کے باوجود غصہ کو ضبط کرنے والے ہیں اور جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا ہے ان کو درگذر کرنے والے ہیں یعنی اس کی سزا کو ترک کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اعمال کے ذریعہ نیکوکاروں سے محبت کرنے والا ہے یعنی ان کو ثواب عطا کرنے والا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی ناشائستہ حرکت ناپسندیدہ برائی کر بیٹھتے ہیں، مثلاً زنا یا زنا سے کم مثلا بوسہ کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یعنی اس کی وعید کو یاد کرلیتے ہیں اور اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو معاف کرسکتا ہے ؟ اور یہ لوگ اپنے کیے پر اڑ نہیں جاے ئ بلکہ اس سے باز آجاتے ہیں حال یہ ہے کہ وہ اس کی (قباحت) کو جانتے ہیں کہ ان سے جو حرکت سرزد ہوئی ہے وہ گناہ ہے ایسے لوگوں کو جزاء ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے جب ان میں داخل ہوجائیں گے (خٰلدین) حال مقدرہ ہے یعنی ان کے لیے ان باغوں میں رہنا مقدر کردیا گیا ہے، اطاعت گزاروں کے لیے یہ بہترین اجر ہے اور شکست احد کے بارے میں (آئندہ آیت) نازل ہوئی، تم سے پہلے بھی کفار کو مہلت دینے اور پھر گرفت کرنے کے واقعات گزر چکے ہیں تو اے مومنو ! زمین میں چلو پھر و اور رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے انجام میں غور کرو یعنی ان کا انجام ہلاکت ہی ہوا۔ لہٰذا تم ان کے (وقتی) غلبہ سے کبیدہ خاطر نہ ہو میں ان کو (ان کی ہلاکت) کے وقت تک مہلت دے رہا ہوں۔ یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے بیان ہے۔ اور ان میں سے پرہیزگاروں کے لیے گمراہی سے ہدایت اور نصیحت ہے اور نہ ہمت ہارو یعنی کفار کے مقابلہ میں قتال میں کمزور نہ پڑو۔ اور احد میں جو کچھ تم کو پیش آیا اس سے غم زدہ نہ ہو اور اگر تم صحیح معنی میں مومن رہے تو ان پر فتح حاصل کرکے تم ہی غالب رہو گے اور جواب شرط پر مجموعہ ماقبل یعنی (فسیر و اولا تھنوا الخ) دلالت کرتا ہے یعنی اگر تم احد میں زخمی ہوئے (قَرح) میں قاف کے فتحہ کے ساتھ اور اس کے ضمہ کے ساتھ۔ زخم وغیرہ کی تکلیف۔ تو بدر میں کفار کو بھی اسی قسم کا زخم لگ چکا ہے اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں (یعنی) ادل بدل کرتے رہتے ہیں، ایک دن ایک فریق کے حق میں اور دوسرے دن دوسرے فریق کے حق میں، تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ (شکست اُحد) اس لئے تھی کہ مخلص مومنوں کو دوسروں (غیر مخلصوں) سے ممتاز کرکے ظاہر کر دے اور تم میں سے بعض کو شہادت عطا فرمائے اور بذریعہ شہادت ان کو اعزاز بخشے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں یعنی کافروں سے محبت نہیں کرتا یعنی ان کو سزا دے گا۔ اور ان پر جو کچھ انعام کیا جاتا ہے وہ ڈھیل ہے۔ اور تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس تکلیف کے ذریعہ جو ان کو پہنچی گناہوں سے پاک و صاف کر دے اور کافروں کو ہلاک کر دے شاید تم اس خیال میں ہو کہ جنت میں داخل ہوگے حالآنکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے علم ظہور کے طور پر ان لوگوں کو جانا نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں ؟ اور تکالیف میں صبر کرنے والے کون ہیں ؟ جنگ سے پہلے تو تم موت کی آرزو کر رہے تھے، اصل میں ایک تاء کو حذف کرکے۔ جب تم نے کہا تھا کہ کاش ہمارے لیے بھی یوم بدر کے مانند ہوتا تاکہ ہم بھی وہ حاصل کرتے جو شہداء بدر نے حاصل کیا سو تم موت کو یعنی اس کے سبب کو کہ وہ حرب ہے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے شکست کے اسباب میں غور و فکر کر رہے تھے کہ یہ شکست کن اسباب کی وجہ سے ہوئی، یعنی تم کیوں شکست کھا گئے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : کعَرْضِھمَا، اس میں اشارہ ہے کہ حرف تشبیہ اور مضاف محذوف ہے۔ سوال : مضاف محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی جواب : تاکہ جنت کی وسعت کی تشبیہ ارض و سماوات کے ساتھ صحیح ہوجائے، اس لیے کہ عرض جنت مقولہ کم متصل یعنی مقدر سے ہے اور ارض و سماوات مقولہ جوہر سے ہے حالانکہ جواز تشبیہ کے لیے مقولہ کا متحد ہونا ضروری ہے، اور جب عرض محذوف مان لیا تو دونوں یعنی مشبہ اور مشبہ بہ مقولہ کم متصل سے ہوگئے۔ لہٰذا تشبیہ درست ہوگئی۔ قولہ : بِمَادرونہ۔ اس حذف کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ عطف درست ہوجائے کیونکہ عطف کیلئے مغایرت ضروری ہے۔ قولہ : ای وَعِیْدہ اس اضافہ کا مقصد اس شبہ کا جواب ہے کہ اللہ کے ذکر سے استغفار ہی مراد لینا ضروری نہیں ہے۔ جواب : ذکر سے مراد اسکی وعید کا ذکر ہے۔ قولہ : حال مقدرۃ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ، حال کے لیے مقارنت یعنی حال اور ذوالحال کا زمانہ متحد ہونا ضروری ہے، حالانکہ خلود نفس جزاء کے ثبوت کے بعد ہوگا۔ جواب : ان کے لیے خود مقدر کردیا گیا ہے۔ قولہ : وَجوابہ دَلَّ علیہ مجموع ما قبلہٗ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اِنْ کُنْتُمْ مومنین شرط ہے اس کی جزاء اگر ماقبل کا جملہ فَسِیْرُوْا فِی الارضِ الخ ہے تو یہ درست نہیں ہے اس لیے کہ ماقبل کے جملہ فَسِیْرُوا فی الارض سے مفہوم ہے۔ قولہ : لَیَتَّعِظُوا، یہ لفظ محذوف مان کر مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ لِیَعْلَمَ کا عطف محذوف پر ہے۔ قولہ : یکرمھم بالشھادۃ اس میں اشارہ ہے کہ شہداء شہید کی جمع ہے نہ کہ شاہد کی۔ قولہ : بل، یعنی ام، بمعنی بل ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ یہ اَم منقطعہ ہے نہ کہ متصلہ کو اس کو عدیل (مقابل) کی ضرورت ہو۔ قولہ : ای بُصَرَاءُ ۔ سوال : فَقَدْرَ أیْتُمُوْہُ کے بعد انتم تنظرون کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ جواب : پہلی رویت سے مراد رویت بصری ہے، رَأیْتُمُوْہُ کی ضمیر مفعولی موت کی طرف راجع ہے گر موت چونکہ نظر آنے والی چیز نہیں اس لیے سبب مضاف، محذوف مانا یعنی سبب موت، یعنی حرب کو دیکھ لیا اور انتم تنظرون سے صاحب بصیرت و علم و دانش ہونا مراد ہے لہٰذا معلوم ہوگیا کہ دونوں معنیٰ الگ الگ ہیں۔ اللغۃ والبلاغۃ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبوٰا یہ کلام مستانف ہے بیان ربا کے لیے لایا گیا ہے۔ قولہ : الکاظمین، یہ کَظَمٌ کا اسم فاعل ہے، اس کے اصل معنیٰ مشک وغیرہ بھر کر اس کا منہ بند کرنے کے ہیں تاکہ اندر کی چیز باہر نہ آسکے، یہ کَظَم القِربۃ سے ماخوذ ہے۔ التنکیت فی التشبیہ : أن یقصد المتکلم الیٰ شئ بالذکر دون غیرہ مِمّاَ یَسُدّ مسدہ لِاَجْل نُکْتَۃٍ ، وَاذا وَقَعَ فی التشبیہ فقد بَلَغَ الْغَایَۃَ ، وَھو ھنا فی قولہ تعالیٰ ۔ عَرْضُھَا السمٰوات والارض ” فقد اَرَادَ وَصْفَھَا بالسعۃِ فخص عَرضَھَا بالذکر دون الطول، وَاِنما عَدَلَ عن ذکر الطول، لأنہ مستقر فی الاذھان أنّ الطول، اَدَل علی السعۃ فاِذا کان عَرْضُھَا مِمّا یَسَعُ السمٰوت والارض، فَما بالک بطولھا۔ قولہ : لَاتَھِنُوْا، تم سست مت ہوجاؤ، تم کمزور مت پڑجاؤ۔ وَھْنٌ، سے فعل ہے جمع مذکر حاضر۔ قولہ : نُدَاوِلُھَا، مُدَاوَلَت، سے مضارع جمع متکلم، ہم اس کو ادلتے بدلتے رہتے ہیں مادہ، دولۃٌ۔ تفسیر و تشریح ربط : چونکہ غزوہ احد میں ناکامی کا بڑا سبب رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی اور عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہوجانا تھا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی اور ناجائز طریقہ سے زراندوزی کے سرچشمہ پر بند باندھنا ضروری سمجھا۔ اور حکم دیا کہ سود خوری سے باز آجاؤ جس میں انسان رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے انسان کے اندر مال کی حرص بےحد بڑھ جاتی ہے۔ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاتَاْکُلُوْا الرِّبوٰا اَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً : اَضعَافًا مُضَاعَفَۃً کی قید حرمت کے لیے بطور شرط کے نہیں ہے، بلکہ واقع کی رعایت کے طور پر ہے یعنی زمانہ جاہلیت میں ایسا کرتے تھے اس لیے اَضْعَافاً مُضاعَفَۃً ، کی قید بیان واقعہ کے لیے ہے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مدت میں مزید اضافہ کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ جس سے سود کی رقم بڑھ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی اور ایک عام آدمی کے لیے اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس آگ سے ڈرو کہ جو درحقیقت کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے، اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ اگر تم سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ سود خوری تم کو کفر تک پہنچا سکتی ہے کیوں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربہ ہے۔ سود خوری کے نقصانات : سود خوری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سورخوری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ (1) سود لینے والوں میں حرص و طمع، بخل و خود غرضی اور (2) سود دینے والوں میں نفرت اور غصہ اور بغض و حسد۔ انفاق فی سبیل اللہ کے فوائد : سودخوری سے جو اوصاف فریقین میں پیدا ہوتے ہیں اس کے برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے فیاضی، ہمدردی، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں، کون نہیں جانتا کہ ان دونوں صفات کے مجموعوں میں سے پہلا مجموعہ بدترین اور دوسرا مجموعہ بہترین ہے۔
Top