Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 144
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن
وَمَا : اور نہیں مُحَمَّدٌ : محمد اِلَّا : مگر (تو) رَسُوْلٌ : ایک رسول قَدْ خَلَتْ : البتہ گزرے مِنْ قَبْلِهِ : ان سے پہلے الرُّسُلُ : رسول (جمع) اَفَا۟ئِنْ : کیا پھر اگر مَّاتَ : وفات پالیں اَوْ : یا قُتِلَ : قتل ہوجائیں انْقَلَبْتُمْ : تم پھر جاؤگے عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں پر وَمَنْ : اور جو يَّنْقَلِبْ : پھر جائے عَلٰي عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیوں پر فَلَنْ يَّضُرَّ : تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ بھی وَسَيَجْزِي : اور جلد جزا دے گا اللّٰهُ : اللہ الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
اور محمد ﷺ تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ (یعنی مرتد ہوجاؤ گے) اور جو الٹے پاؤں پھرجائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کرسکے گا اور خدا ‌شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔
آیت نمبر 144 تا 148 ترجمہ : اور آئندہ آیت صحابہ کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب یہ بات مشہور ہوگئی کہ محمد ﷺ شہید کر دئیے گئے، اور صحابہ (مخلصین) سے منافقین نے کہا اب جب کہ محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے تو اپنے (سابق) دین کی طرف پلٹ جاؤ۔ تو (وَمَا محمدٌ اِلاّ رسول الخ) نازل ہوئی۔ اور محمد تو بس ایک رسول ہیں، اور ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں سو اگر یہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم الٹے پاؤں واپس چلے جاؤ گے ؟ یعنی کفر کی طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور آخری جملہ استفہام انکاری کے محل میں ہے۔ یعنی وہ معبود نہیں تھے (کہ اس کی موت کی وجہ سے) تم پلٹ جاؤ اور جو کوئی الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جائے گا تو وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کرے گا بلکہ خود اپنا نقصان کرے گا۔ اور اللہ عنقریب اس کی نعمتوں کے شکر گزاروں کو ثواب کی صورت میں اچھا صلہ دے گا۔ اور ممکن نہیں کہ کوئی جاندار مقررہ وقت پر قضائے الہیٰ کے بغیر مرجائے (کتابًا) مصدر ہے یعنی اللہ نے موت کا وقت مقرر لکھ دیا ہے۔ موت نہ مقدم ہوتی ہے اور نہ مؤخر پھر تم کیوں ہمت ہار گئے ؟ ہمت کا ہارنا موت کو نہیں ٹال سکتا، اور ثابت قدمی حیات کو ختم نہیں کرسکتی، اور جو شخص اپنے عمل سے دنیا کا فائدہ چاہتا ہے۔ یعنی دنیا کا صلہ چاہتا ہے تو ہم اس میں سے جو اس کی قسمت میں ہوتا ہے اس کو دیدیتے ہیں اور جو آخرت کا نفع چاہتا ہے تو ہم اس کو اس کا ثواب دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو صلہ دیں گے اور کتنے ہی نبی قتل کیے جا چکے ہیں اور ایک قراءت قاتَلَ ہے اور فاعل اس کی ضمیر ہے، کہ ان کے ساتھ میں بہت سے اللہ والے تھے۔ مَعَہٗ خبر ہے اور ربّیون کثیرٌ، اس کا مبتدا ہے، بڑی جماعت۔ دوسرا ترجمہ : اور بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں۔ جو کچھ انہیں زخم اور ان کے انبیاء و اصحاب کا قتل اللہ کی راہ میں پیش آیا۔ اس سے نہ تو انہوں نے ہمت ہاری اور نہ وہ جہاد میں کمزور پڑے اور نہ وہ اپنے دشمن سے ربے جیسا کہ تم نے کیا جب مشہور ہوگیا کہ آپ ﷺ شہید کر دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے یعنی ان کو اجر دیتا ہے ان کے نبی کے قتل کے وقت ان کی ثابت قدمی اور صبر کے باوجود ان کی دعاء تو بس اتنی تھی کہ وہ دعاء کرتے رہے کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملہ میں ہماری زیادتیوں یعنی ہمارے حد سے تجاوز کرنے کو معاف کر دے یہ ظاہر کرنے کے لیے جو کچھ ان کو پیش آیا ہے وہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہے اور اپنی کسی نفسی کو ظاہر کرنے کے لیے تھا۔ اور جہاد میں قوت دے کر ہم کو ثابت قدم رکھ اور ہم کو کافروں پر غلبہ عطا فرما سو اللہ نے ان کی دنیا کا بھی عوض دیا یعنی نصرت اور غنیمت، اور آخرت کا بھی عمدہ بدلہ دیا۔ اور وہ جنت ہے، اور ثواب کا حسن، استحقاق سے بڑھ کر عطا کرنا ہے، اور اللہ نیکوکاروں سے محبت رکھتا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الجملۃ الاخیرۃ محل الاستفھام الانکاری۔ مطلب یہ ہے کہ اَفَاِنْ مَاتَ ، پر جو ہمزہ استفہام داخل ہے وہ دراصل اِنْقَلَبْتُمْ علیٰ اَعْقَابِکُمْ ۔ پر داخل ہے اور یہی محل استفہام ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے ” اَاِنْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ اِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ الخ “ ای لا ینبغی منکم الانقلاب والارتداد لانّ محمدًا ﷺ مبلَّغ لَا مَعْبُوْدٌ۔ لہٰذا ان یہ اعتراض واقع نہیں ہوگا کہ موت اور قتل سے سوال کے کیا معنی ؟ قولہ ؛ بقضائہٖ ، اِذن کی تفسیر قضاءٌ سے کرکے ایک سوال مقدر کا جواب دیا ہے۔ سوال : مَا کَانَ لِنَفْسٍ أنْ تَمُوْتَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللہِ ، سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی موت اس کے اختیار میں ہے اس لیے کہ موت کی نسبت نفس کی طرف کی گئی ہے۔ جواب : اِذن بمعنی قضاء ہے۔ قولہ : مصدرٌ، یعنی کتاباً مفعول لہ نہیں ہے اس لیے کہ مفعول لہ کی صورت میں معنی درست نہیں۔ کتاباً کی صفت ہے اور ابن عطیہ نے منصوب علی التمیز کہا ہے۔ قولہ : جزاء۔ یہ ایک شبہ کا جواب ہے۔ شبہ : اس شبہ کا جواب ہے کہ ثواب کا اطلاق اجر دنیا پر نہیں ہوتا ثواب کا اطلاق تو اجر آخرت پر ہوتا ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ ثواب بمعنی جزاء ہے جس کا اطلاق اجر آخرت اور صلہء دنیا دونوں پر ہوتا ہے۔ خاص بول کر عام مراد ہے۔ قولہ : فیھا، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ ثواب کی اضافت دنیا کی طرف اضافت مظروف الی الظرف ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ دنیا ثواب کا نہ فاعل ہے اور نہ مفعول لہٰذا ثواب کی اضافت دنیا کی طرف کیا معنی ؟ نوٹ : بعض نسخوں میں جزاء منھا کے بجائے جزاء فیھا ہے جو زیادہ صحیح ہے مذکورہ تشریح جزاء فیھا کے نسخہ کے مطابق کی گئی ہے۔ قولہ : کَأَیِّنْ یہ دراصل اَیٌّ تھا، اس پر کاف تشبیہ داخل کیا نون، نون، تنوین ہے خلاف قیاس اس کو باقی رکھا ہے، کَاَین بمعنی کم خبر یہ برائے تکثیر ہے۔ قولہ : مَعَہ، خبر مقدم ہے اور ربّیون، مبتداء موخر ہے، مبتدا خبر مقدم سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر حال ہے۔ قولہ : وَمَا کَانَ قَوْلَھُمْ اِلاَّ اَنْ قَالُوْا الخ، قَوْلَھُمْ ، کَانَ کی خبر مقدم اور أن قَالُوْا بتاویل مصدر ہو کر کَانَ کا اسم مؤخر ہے، ابن کثیر اور عاصم رحمہما اللہ تعالیٰ نے ” قَوْلَھُمْ “ کو کان کے اسم ہونے کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے اس صورت میں ” أنْ قالوا “ کان کی خبر ہوگی۔ اللغۃ والبلاغۃ اَلَاعْقَاب۔ جمعُ عَقَبٍ ، ایڑھی، الٹے پاؤں واپس ہونا، راہ فرار اختیار کرنا، قصر موصوف علی الصفت فی اللغۃ : الحبس، وفی الاصلاح تخصیص احد الامرین علی الآخر ونفیہ عما عداہ۔ وھو یقع للموصوف علی الصفۃ وبالعکس، والآیۃ من النوع الاول، ای قصر الموصوف علی الصفۃ بالاضافۃ۔ یعنی محمد ﷺ صفت رسالت پر ہی مقصود ہیں موت کی طرف متعدی نہیں۔ صحابہ کرام ؓ آپ کو بعید عن الہلاک سمجھتے تھے اور آپ کی جدائی کو امر عظیم سمجھتے تھے تو گویا کہ صحابہ ؓ نے آپ کے لیے دو وصف ثابت کیے، الرسالۃ، وعدم الھلاک، پھر تخصیص کے ذریعہ وصف رسالت پر مقصود کردیا۔ قولہ : رِبّیُّوْنَ ۔ اللہ والے۔ خدا پرست، ہزاروں، جماعتیں، یہ رِبِّیٌّ کی جمع ہے امام بخاری (رح) تعالیٰ نے اس کے معنی جماعتوں کے کیے ہیں۔ بقول قاضی بیضاوی (رح) تعالیٰ ربّیۃ کی طرف بطور مبالغہ منسوب ہے جس کے معنیٰ جماعت کے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد اور قتادہ نے ربّیون کثیر، کے معنی جماعات کثیر، بیان کیے ہیں، صاحب جلالین نے بھی جموع کثیر، کہہ کر اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے، کلبی کا قول ہے کہ ربّیۃ دس ہزار کا ہوتا ہے۔ (لغات القرآن، ملخصًا) تفسیر و تشریح وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ، محمد ﷺ ، نام مبارک قرآن میں پہلی مرتبیہ آیا ہے، اس کے لفظی معنی ہیں وہ شخص جس کی مدح بہت زیادہ یا بار بار کی جائے۔ یا جو صفات حسنہ کا مجموعہ ہو۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل اس نام کا رواج بہت کم تھا۔ علامہ ابو جعفر محمد بن حبیب بغدادی المتوفی 245 ھ نے کل سات آدمیوں کے نام گنائے ہیں۔ (کتاب المعتبر، بحوالہ ماجدی) ۔ ان میں سے ایک شخص محمد بن سفیان بن مجاشع کی بابت لکھا ہے کہ اس کے والد نے ایک شامی راہب سے یہ سن کر کہ آئندہ پیغمبر کا نام محمد ہوگا یہ نام اپنے لڑکے کا رکھ دیا۔ کان سفیان اتی الشام فنزل علی راھب فاعحبتہُ فصاحتہ وعقلہ فسال الراھب عن نسبہٖ فانتسب لہ اِلیٰ مُضَرَ فقال لہ اما انّہ یُبْعَثُ فی العرب نبی یقال لہ محمد فسمّٰی سفیان اِبْنَہ محمداً (ماجدی) محمد ﷺ صرف رسول ہیں، یعنی ان کا امتیاز یہی وصف رسالت ہی ہے یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالا تر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دوچار ہونا نہ پڑے۔ جنگ احد کی شکست کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد قتل کر دئیے گئے۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ ابن قمیہ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک پتھر مارا جس کی وجہ سے آپ کی رباعی مبارک (آگے کے چار دانت) شہید ہوگئے۔ اور قتل کرنے کے لیے آگے بڑھا تو مصعب بن عمیر ؓ نے آپ کا دفاع کیا اور وہی صاحب الرایہ (پرچم بردار) تھے ابن قمیہ نے حضرت مصعب بن عمیر کو شہید کردیا اور وہ سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ مقتول ہوگئے تو اس نے شور مچا دیا ” قتلتُ محمدٌا “ اور کہا گیا ہے کہ شیطان نے شور مچا دیا کہ محمد قتل کر دئیے گئے۔ یہ خبر آناً فاناً مشہور ہوگئی۔ اس خبر کو سن کر مسلمانوں میں بددلی اور کم ہمتی پیدا ہوگئی اور لڑائی سے پیچھے ہٹنے لگے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی ﷺ کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہوجانا ان کا موت سے دوچار ہوجانا کوئی نئی بات نہیں ہے پچھلے انبیاء بھی موت اور قتل سے دوچار ہوچکے ہیں، آپ ﷺ بھی بالفرض اگر اس سے دوچار ہوجائیں تو کیا تم اس دین ہی سے پھر جاؤ گے ؟ یاد رکھو جو پھرجائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ نبی کریم ﷺ نے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر ؓ شدّت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نہایت حکمت سے کام لے کر منبر رسول ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی جس سے حضرت عمر ؓ متأثر بھی ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی نازل ہوئی
Top