Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 167
وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا١ۖۚ وَ قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوِ ادْفَعُوْا١ؕ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ١ؕ هُمْ لِلْكُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْاِیْمَانِ١ۚ یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یَكْتُمُوْنَۚ
وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ نَافَقُوْا : منافق ہوئے وَقِيْلَ : اور کہا گیا لَھُمْ : انہیں تَعَالَوْا : آؤ قَاتِلُوْا : لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اَوِ : یا اِدْفَعُوْا : دفاع کرو قَالُوْا : وہ بولے لَوْ نَعْلَمُ : اگر ہم جانتے قِتَالًا : جنگ لَّااتَّبَعْنٰكُمْ : ضرور تمہارا ساتھ دیتے ھُمْ : وہ لِلْكُفْرِ : کفر کیلئے (کفر سے) يَوْمَئِذٍ : اس دن اَقْرَبُ : زیادہ قریب مِنْھُمْ : ان سے لِلْاِيْمَانِ : بہ نسبت ایمان یَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں بِاَفْوَاهِھِمْ : اپنے منہ سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں فِيْ قُلُوْبِھِمْ : ان کے دلوں میں وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِمَا : جو يَكْتُمُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں
اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ خدا کے راستے میں جنگ کرو یا (کافروں کے) حملوں کو روکو تو کہنے لگے کہ اگر ہم کو لڑائی کی خبر ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ رہتے یہ اس دن ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہیں اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے
وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا (الآیۃ) اور اس شکست کا دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دے۔ عبد اللہ بن ابی جب تین سو منافقوں کو اپنے ساتھ لے کر راستہ سے واپس ہونے لگا تو بعض مسلمانوں نے جاکر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور ساتھ چلنے کے لیے راضی کرنا چاہا، مگر اس نے جواب دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ کوئی جنگ نہیں ہے بلکہ ہلاکت اور خودکشی ہے اگر کوئی ڈھنگ کی لڑائی ہوتی تو ہم ضرور ساتھ چلتے ایسے غلط کام میں ہم آپ کا کیوں ساتھ دیں ؟ عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے یہ بات اس لیے کہی تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے کی ان کی بات نہیں مانی گئی تھی عبد اللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں نے یہ بات اس وقت کہی جب مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے۔ اور عبد اللہ بن حرام انصاری انہیں سمجھا کر واپس لانے کی کوشش کر رہے تھے۔
Top