Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر 190 تا 200 ترجمہ : آسمانوں اور زمین اور ان میں جو عجائبات ہیں ان کی تخلیق میں اور آمدورفت اور زیادتی و کمی شب و روز کے بدلنے میں یقیناً عقل مندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جو لوگ (الذین) اپنے ما قبل کی صفت یا بدل ہے اللہ تعالیٰ کو کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے لیٹے لیٹے یعنی ہرحال میں یاد کرتے ہیں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حسب طاقت مذکورہ ہئیتوں میں نماز پڑھتے ہیں۔ اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ زمین اور آسمان کے بنانے والے کی قدرت پر استدلال کریں۔ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! یہ مخلوق جس کو ہم دیکھ رہے ہیں تو نے بےفائدہ پیدا نہیں کی بلکہ تیرے کمال قدرت پر دلیل بنایا۔ تمام لایعنی کاموں سے تو پاک ہے سو ہم کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ اے ہمارے پروردگار ! جس کو تو نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا تو تو نے اس کو رسوا اور کافروں کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا کہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچا سکے، اس میں کافروں کے ساتھ رسوائی کی تخصیص کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو لایا گیا ہے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ بآواز بلند لوگوں کو ایمان کی طرف پکار رہا ہے۔ اور وہ محمد ﷺ یا قرآن ہے کہ اے لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ پس ہم اس پر ایمان لائے اے الہیٰ اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما لہٰذا ان پر سزا دے کہ ان کو ظاہر نہ فرما اور ہماری وفات (یعنی حشر) انبیاء و صالحین کے زمرہ میں فرما، اے ہمارے رب ! اپنی رحمت اور اپنے فضل سے (مذکورہ چیزوں کا ہم کو مستحق فرما) اور اپنے رسول کی زبانی تو نے جس کا ہم سے وعدہ فرمایا ہے عطا فرما۔ ان کا مذکورہ چیزوں کا سوال کرنا باوجودیکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ میں تخلف نہیں ہوتا بایں معنیٰ ہے کہ ہم کو اپنے وعدے کے مستحق میں شامل فرما اس لیے کہ ان کو ان وعدوں کا مستحق ہونے کا یقین نہیں تھا۔ اور رَبَّنَا، کی تکرار عاجزی میں مبالغہ کرنے کے لیے ہے اور ہم کو قیامت کے دن رسوا نہ کرنا بیشک تو بعث و جزاء کے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا۔ سو ان کی دعاء کو ان کے پروردگار نے قبول کرلیا اس لیے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے جز ہو یعنی مذکر مونث سے ہے اور اس کا عکس یہ جملہ (معترضہ) ماقبل کے لیے موکدہ ہے۔ یعنی وہ اعمال کی جزاء اور عدم اضافت میں برابر ہیں۔ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت امّ علمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے نہیں سنا کہ اللہ نے ہجرت کے معاملہ میں عورتوں کا بھی کچھ ذکر کیا ہو۔ اس لیے وہ لوگ جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔ اور جن کو ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میرے دین کے راستہ میں ایذا دیئے گئے اور جنہوں نے کفار سے جہاد کیا اور شہید کیے گئے۔ (قتلوا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے۔ اور ایک قراءت میں قُتِلُوْا کی تقدیم کے ساتھ ہے۔ میں ضرور ان کی برائیاں دور کر دوں گا یعنی ان کو مغفرت میں چھپالوں گا۔ اور ضرور ان کو ایسی جنت میں داخل کروں گا کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (ثواباً ) یہ اللہ کی طرف سے بطور ثواب ہے، لَاُکَفِّرَنّ کے معنیٰ سے مصدر برائے تاکید ہے۔ اس میں تکلم سے غیبت کی جانب التفات ہے۔ اور بہتر ثواب اللہ ہی کے پاس ہے۔ (اور آئندہ آیت اس وقت نازل ہوئی) جب مسلمانوں نے کہا کہ ہم اللہ کے دشمنوں کو بہتر حالت (آسودگی) میں دیکھ رہے ہیں اور ہم مشقت میں ہیں۔ کافروں کا شہروں میں تجارت اور کسب معاش کے سلسلہ میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکہ میں نہ ڈال دے یہ تو چند روزہ بہار ہے جس سے دنیا میں چند روز مزے اڑائیں گے اور ختم ہوجائیگی۔ پھر تو ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانہ یعنی برابستر ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے ایسے باغات ہیں کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کی طرف سے بطور ضیافت ہوگی اور یہ ہمیشہ رہنا ان کے لیے مقدر کردیا گیا ہے اور ’ نُزُل ‘ اس چیز کو کہتے ہیں جو مہمان کے لیے تیار کی جاتی ہے اور اس کا نصب جنۃ سے حال ہونے کی بناء پر ہے اور اس میں عامل معنیٰ ظرف ہیں (ای ثَبَتَ لھم) اور اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ صالحین کے لیے متاع دنیا سے بہتر ہے اور اہل کتاب میں یقیناً کچھ ایسے بھی ہیں کو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی یا نجاشی، اور اس پر بھی جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے یعنی قرآن اور جو ان کی طرف اتارا گیا ہے۔ یعنی تورات اور انجیل (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں۔ اور اللہ کی آیتوں کا جو تورات و انجیل میں ان کے پاس ہیں۔ اور وہ محمد ﷺ کی صفات ہیں قلیل قیمت میں سودا نہیں کرتے کہ زوال ریاست کے خوف سے ان کو چھپا دیں۔ جیسا کہ ان کے علاوہ دیگر یہود کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے ان کو دوگنا اجر دیا جائے گا جیسا کہ سورة قصص میں ہے یقیناً اللہ جلد حساب لینے والا ہے مخلوق کا حساب دنیوی ایام کے حساب کے اعتبار سے نصف دن میں لے لیگا۔ اے ایمان والو ! طاعات پر اور معاصی سے باز رہنے پر صبر کرو اور کفار کے مقابلہ میں ثابت قدم رہو۔ کہ وہ تم سے زیادہ ثابت قدم نہ ہوں۔ اور جہاد کے لیے تیار رہو اور تمام حالات میں اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم جنت کے لینے میں کامیاب ہوجاؤ اور نار جہنم سے بجات پاؤ۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ (الآیۃ) کلام مستانف ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود اور اس کے علم اور اس کی قدرت کو بیان کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ قولہ ؛ یقولون، سابق میں باری تعالیٰ کا کلام تھا یہاں سے ” اولوالالباب “ کا کلام شروع ہے اس لیے یہاں یقولون مقدر مانا ہے۔ قولہ : الخلق الذی نرَاہ۔ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : ہذا کا مشارٌ الیہ السموٰت والارض ہے جو کہ مونث ہے اور ھذا اسم اشارہ مذکر ہے، اسم اشارہ اور مشارٌ الیہ میں مطابقت نہیں ہے جواب : ھذا کا مشارٌ الیہ خلق بمعنیٰ مخلوق ہے۔ لہٰذا کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : باطلاً ۔ یہ ہذا سے حال ہے نہ کہ خلقت کا مفعول ثانی اس لیے کہ خلق متعدی بیک مفعول ہے۔ قولہ : للخلود فیھا۔ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اللہ تعالیٰ کا قول ” یَوْمَ لَایُخْزِی اللہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہٗ “ کا مقتضیٰ ہے کہ تمام مومنین غیر محزونین ہوں۔ حالانکہ عصاۃ مومنین میں سے بعض جہنم میں داخل ہوں گے اور یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ جو بھی جہنم میں داخل ہوا رسوا ہوا اگرچہ وہ مومن ہی کیوں نہ ہو ؟ جواب : دخول سے دائمی دخول مراد ہے جو صرف کافروں کے لیے ہوگا۔ اس سے معتزلہ کا جواب بھی ہوگیا کہ ان کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب مومن نہیں ہے۔ قولہ : وضع الظاھر موضع المضمر الخ یہ ایک سال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔ سوال : اصحاب الخزی کا ذکر سابق میں مَنْ تدخل النار کے ضمن میں آچکا ہے لہٰذا اس کے لئے ضمیر لانا کافی تھا یعنی ماللظلمین کے بجائے مَالَھُمْ کافی تھا ؟ جواب : یہ ہے کہ خزیان کی تخصیص کو بیان کرنے لے لئے صراحت کے ساتھ لفظ ظالمین ذکر کیا گیا ہے۔ قولہ : الیہ۔ سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : نداء اور دعاء متعدی باللام نہیں ہوتے حالانکہ یہاں متعدی باللام ہے ؟ جواب : لام بمعنی اِلیٰ ہے۔ اسی جواب کی طرف مفسر علام نے اِلَیْہِ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ قولہ : ثواباً ، مصدرٌمِنْ معنی لَاکفرنَّ موکدٌ لہ اس عبارت سے ایک تو یہ بتانا ہے کہ ثواباً جنت سے حال نہیں ہے اسلئے کہ یہاں حال کا ذوالحال پر حمل درست نہیں ہے۔ قولہ : لاکفرّن، سے ایک سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔ سوال : ثوابًا، لَأکفرن کا مفعول مطلق نہیں ہوسکتا دونوں کے الفاظ الگ ہیں، حالانکہ دونوں کا ایک مادہ سے ہونا ضروری ہے۔ جواب : ثواباً اور لَأکَفِّزَنَّ اگرچہ دونوں کے الفاظ متحد نہیں ہیں مگر معنیٰ کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں، اس لیے کہ لَأکَفَّرَنَّ معنی میں لَاُثِیْبَنَّھُمْ کے ہے۔ لہٰذا اب عبارت اس طرح ہوگی ” لَاُثیبَنَّھُمْ ثوابًا “ اور یہ مفعول مطلق برائے تاکید ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ الطباق : اَلَّذِیْنَ یذکرون اللہ قِیَامًا وقعوداً وعلی جنوبھِمْ ۔ (میں صنعت طباق ہے) ۔ الطباق الذی جمع حالات الانسان الثلاث فی الصلوٰۃ، وھی قیام والقعود والاضطجاع علی الجنب کما یقول الشافعی (رح) تعالیٰ او استلقاء لانّہ اَخفُّ کما یقول ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ ۔ المجاز المرسل : المجاز المرسل بعلاقۃ المحلیۃ فقد ذکر السموات والارض ومرادہ ما فیھا مِن اجرام عظیمۃ بدیعۃ الصنع۔ الایجاز : ایجاز فی قولہ تعالیٰ ” وَیَتَفَکّرونَ فی خلق السّمٰواتِ والارض “ حیث انطویٰ تحت ھٰذا الایجاز کلَّ ماَ تمحَّضَ عنہ العلم من روائع المکتشفات وبدائع المستنبطات وفی الحدیث ” لاعبادۃ کالتَفَکّر “۔ تفسیر و تشریح شان نزول : اِنَّ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ (الآیۃ) اس آیت کے شان نزول کے متعلق ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور محدث ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ عطا بن ابی رباح (رح) تعالیٰ حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے حالات میں جو سب سے زیادہ وجیب چیز آپ نے دیکھی ہو وہ مجھے بتلائیے۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا آپ کی کس شان کو پوچھتے ہو، ان کی ہر شان عجیب تھی، ہاں ایک عجیب واقعہ سناتی ہوں۔ وہ یہ کہ آپ ﷺ ایک رات میرے پاس تشریف لائے، اور لحاف میں میرے ساتھ داخل ہوگئے پھر فرمایا اجازت دو میں اپنے پروردگار کی عبادت کروں، بستر سے اٹھے۔ وضو فرمایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، اور قیام میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو سینہ مبارک پر بہہ گئے، پھر رکوع فرمایا اور اس میں بھی روئے، پھر سجدہ کیا اور سجدہ میں بھی اسی قدر روئے، پھر سر اٹھایا اور مسلسل روتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ حضرت بلال آئے اور آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دی۔ بلال فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور اس قدر گریہ کیوں فرماتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، کیا میں شکر گذار بندہ نہ نبوں ؟ اور شکریہ میں گریہ وزاری کیوں نہ کروں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آج کی رات مجھ سے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” اِنَّ فی خلق السموٰات والارض “ (الآیۃ) ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : بڑی تباہی ہے اس شخص کے لیے جس نے ان آیتوں کو پڑھا اور ان میں غور نہیں کیا۔ (معارف) خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ سے کیا مراد ہے ؟ خلق، مصدر ہے جس کے معنی ایجاد و اختراع کے ہیں، مطلب یہ ہوا کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں سے ہر شخص بآسانی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ خدا سے غافل نہ ہو، اور آثار کائنات کو جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ غور و فکر کے ساتھ مشاہدہ کرے۔ جب وہ نظام کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ان پر کھل جاتی ہے کہ یہ سراسر ایک حکیمانہ نظام ہے تو وہ کہہ اٹھتے ہیں ” رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطلاً “ اور وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ بات سراسر حکمت کے خلاف ہے کہ جس مخلوق میں اللہ نے اخلاقی حس پیدا کی ہو، جسے تصریف کے اختیارات دئیے ہوں، جسے عقل وتمیز عطا کی ہو، اس سے اس کی حیات دنیا کے اعمال پر باز پرس نہ ہو اور اسے نیکی پر جزاء اور بدی پر سزا نہ دی جائے۔ اس طرح نظام کائنات پر غور کرنے سے انہیں آخرت کا یقین حاصل ہوجاتا ہے، اور خدا کی سزا سے پناہ مانگنے لگتے ہیں ” سُبْحَانَکَ فَقنَا عَذَابَ النَّارِ “۔ اسی طرح یہی مشاہدہ ان کو اس بات کی مطمئن کردیتا ہے کہ پیغمبر اس کائنات اور اس کے آغاز و انجام کے متعلق جو نقطہ نظر پیش کرتا ہے اور زندگی کا جو راستہ بتاتا ہے وہ سراسر حق ہے۔ اور زبان دل سے کہنے لگتے ہیں ” رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیا ینادی للایمان اَن آمنوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا الخ، رَبّنَا وَآتِنَا ماوَعدتنا علی رسلک ولاتخزنا یوم القیامۃ اِنّک لا تخلف المیعاد “۔ انہیں اس امر میں تو شک نہیں ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا یا نہیں، البتہ تردد اس امر میں ہے کہ آیا یہاں وعدوں کے مصداق ہم بھی قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ اس لیے وہ اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ ان وعدوں کا مصداق ہمیں بھی بنا دے کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا میں تو ہم پیغمبروں پر ایمان لاکر کفار کی تضحیک اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنے ہی رہے، قیمت میں بھی ان کافروں کے سامنے ہماری رسوائی ہو اور وہ ہم پر بھپتی کسیں کہ ایمان لا کر بھی ان کا بھلا نہ ہوا۔
Top