Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میر پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر 31 تا 41 ترجمہ : جب مشرکین نے کہا ہم (ان بتوں کی) اللہ کی محبت میں پوجا کرتے ہیں تاکہ یہ ہم کو اس کو مقرب بنادیں آیت نازل ہوئی۔ اے محمد ﷺ ان سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تو اللہ تم سے محبت کرے گا۔ یعنی تم کو اس کا ثواب دے گا۔ اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ اس شخص کے جس نے میری پیروی کی ان تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے جو اس سے سابق میں ہوچکے ہیں اور اس پر رحم کرنے والا ہے۔ آپ ان سے کہئے کہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو توحید وغیرہ میں جس کا وہ حکم کرتا ہے۔ اس پر بھی اگر وہ گرداں رہیں یعنی طاعت سے اعراض کریں۔ تو اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا اس میں اسم ظاہر کو اسم ضمیر کی جگہ لایا گیا ہے، یعنی ان سے محبت نہیں کرتا اس معنی کر کہ ان کو سزا دے گا بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) اور آل ابراہیم اور آل عمران کو یعنی خود ان کو سارے جہان پر انبیاء کو ان کی نسل سے کرکے برگزیدہ کیا ہے، یہ بعض بعض کی ذریت ہیں اور اللہ خوب سننے والا ہے اور خوب جاننے والا ہے اس وقت کو یاد کرو جب عمران کی بیوی حنہ نے جب کہ وہ بوڑھی ہوگئیں اور بچہ کی خواہشمند ہوئیں، اور حمل محسوس کیا عرض کیا اے میرے پروردگار میں نے اس بچہ کی جو میرے پیٹ میں ہے تیرے لیے نذر مانی ہے کہ اس کو دنیوی مشاغل سے بالکلیہ الگ رکھ کر بیت المقدس کی خدمت کے لیے آزاد رکھا ئاے گا یعنی میں اس کو آزاد کر دوں گی، سو تو (یہ) مجھ سے قبول کر تو دعاء سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے۔ اور عمران کا انتقال ہوگیا، جس وقت (ان کی بیوی حنہ) حامل تھیں، پھر جب اس نے لڑکی کو جنم دیا حالانکہ اس کو لڑکے کی امید تھی اس لیے کہ (بیت المقدس کی خدمت کے لئے) لڑکے ہی آزاد کئے جاتے تھے۔ تو عذر بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا اے میرے پروردگار میں نے تو لڑکی جنی ہے حالانکہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس نے کیا جنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میں یہ جملہ معترضہ ہے اور ایک قراءت میں وَضَعْتُ ، ضمہ کے ساتھ ہے، جو لڑکا میں نے طلب کیا تھا وہ اس لڑکی جیسا نہیں ہوسکتا ہے جو مجھے دی گئی اس لئے کہ اس سے ایک خاص خدمت مقصود ہے جس کی یہ لڑکی اپنے ضعف اور اس کے عورت ہونے کی وجہ سے اور ان اعذار یعنی مثلاً حیض و نفاس وغیرہ پیش آنے کی وجہ سے صلاحیت نہیں رکھتی (خیر) میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں، حدیث میں ہے کہ جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے پیدائش کے وقت شیطان اس کو چونکے لگاتا ہے جس کی وجہ سے وہ زور زور سے چلاتا ہے، البتہ مریم اور اس کا بیٹا اس سے مستثنیٰ ہیں، (رواہ الشیخان) پھر اس کے پروردگار نے بدرجہ احسن اس کی ماں مریم سے قبول کرلیا۔ اور اس کو اچھا نشو و نما دیا، یعنی اچھی تخلیق کے ساتھ اس کو پروان پڑھایا تو وہ ایک دن میں اتنی بڑھتی تھی کہ جتنا بچہ ایک سال میں بڑھتا ہے۔ تو اس کو اس کی والدہ بیت المقدس میں (بیت المقدس کے) خدمت گار احبار کے پاس لائی اور ان سے کہا اس نذر مانی ہوئی کو لو۔ تو سب نے اس میں رغبت کی اس لیے کہ یہ ان کے امام کی بیٹی تھی، زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، اس لیے کہ اس کی خالی میرے نکاح میں ہے تو لوگوں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ ہم تو قرعہ اندازی کریں گے تو وہ نہر اردن کی طرف چلے ان کی تعداد انتیس تھی انہوں نے اپنے قلم (دریا) میں ڈالدئیے۔ یہ بات طے کرکے کہ جس کا قلم پانی میں کھڑا ہوجائے گا اور سطح آب پر چڑھ آئے گا، تو وہی شخص مریم کا زیادہ مستحق ہوگا۔ چناچہ (حضرت) زکریا علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا قلم کھڑا ہوگیا لہٰذا زکریا علیہ الصلوٰۃ نے مریم کو لے لیا اور اس کے لیے مسجد میں ایک زینہ وبالا خانہ بنوایا، اس پر سوائے زکریا (علیہ السلام) کے کوئی نہیں چڑھتا تھا۔ اور حضرت زکریا (علیہ السلام) ان کے پاس کھانا پانی اور تیل (وغیرہ) لے جاتے تھے تو مریم کے پاس موسم سرما کے پھل موسم گرما میں، اور موسم گرما کے پھل موسم سرما میں پاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اور ان کا سرپرست زکریا (علیہ السلام) کو بنادیا یعنی اس کو ان کے ساتھ ملا دیا اور ایک قراءت میں تشدید کے ساتھ اور زکریا کے نصب کے ساتھ ہے۔ ممدودہ اور مقصورہ دونوں ہیں اور اللہ اس کا فاعل ہے، جب کبھی زکریا ان کے پاس حجرہ میں آتے اور وہ سب سے افضل جگہ تھی، تو ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں پاتے (ایک روز) پوچھا اے مریم تیرے پاس یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں ؟ وہ بولیں یہ اللہ کی طرف سے آجاتی ہیں، اس وقت وہ کم سن ہی تھیں، وہ ان کو میرے پاس جنت سے لاتا ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے یعنی بلامشقت کے کافی رزق، (بس) وہیں یعنی جب زکریا (علیہ السلام) نے یہ صورت حال دیکھی تو سمجھ گئے کہ جو ذات بےموسم کی چیز کو لانے پر قادر ہے تو وہ بڑھاپے میں اولاد دینے پر بھی قادر ہے، اور زکریا (علیہ السلام) کے اہل خانہ وفات پاچکے تھے، زکریا (علیہ السلام) نے جب وہ رات کے وقت مسجد میں نماز کے لیے گئے دعاء کی، عرض کی اے میرے پروردگار مجھے اپنے پاس سے کوئی پاکیزہ اولاد یعنی نیک اولاد عطا فرما بیشک آپ دعاء کے قبول کرنے والے ہیں۔ سو ان کو فرشتوں یعنی جبرائیل (علیہ السلام) نے آواز دی حال یہ کہ وہ مسجد میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ کہ اللہ تم کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے۔ أنَّ اصل میں باَنَّ ہے، اور ایک قراءت میں کسرہ کے ساتھ ہے، قول کی تقدیر کے ساتھ (یُبَشِّرُ ) مشدد اور غیر مشدد دونوں قراءتیں ہیں۔ جو کلمۃ اللہ کی کہ جو من جانب اللہ ہوگا یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والا ہوگا، کہ وہ روح اللہ ہیں، اور اس کا نام ” کلمہ “ رکھا گیا، اس لیے کہ وہ کلمہ ” کُنْ “ کے ذریعہ سے پیدا کیا گیا اور مقتدا ہوگا اور بہت زیادہ ضبط نفس کرنے والا ہوگا۔ اور عورتوں سے بہت کنارہ کش رہنے والا ہوگا اور نبوت سے سرفراز ہوگا صالحین میں شمار ہوگا۔ روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے یہ بھی خطاء کا ارتکاب کیا اور نہ کبھی اس کا قصد کیا۔ (زکریا) بولے اے میرے پروردگار میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا ؟ میں بوڑھا ہوچکا ہوں یعنی ایک سو بیس سال کی انتہائی عمر کو پہنچ چکا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے، جو کہ اٹھانوے سال کو پہنچ چکی ہے۔ جواب ملا تم دونوں سے لڑکے کی تخلیق کا معاملہ اسی طرح ہوگا۔ اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے کوئی شئ اس کو عاجز نہیں کرسکتی، اور اس قدرت عظیمہ کو ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو سوال الہام فرمایا تاکہ قدرت عظیمہ کے ذریعہ جواب دے، اور جب حضرت زکریا (علیہ السلام) کا نفس مبشربہ کی عجلت کیلیے آرزومند ہوا تو عرض کیا اے میرے رب تو میرے لیے میری عورت کے حاملہ ہونے کی کوئی نشانی مقرر فرما دے فرمایا اس پر تیری نشانی یہ ہے کہ تم لوگوں سے تین دنوں تک مع ان کی راتوں کے اشارہ کے سوا بات نہ کرسکو گے۔ یعنی لوگوں سے کلام کرنے پر قادر نہ ہوگے بخلاف ذکر اللہ کے، اور اپنے پروردگار کو بکثرت یاد کرتے رہو اور صبح و شام یعنی آخر دن اور اول دن میں تسبیح کرتے رہو تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بمعنی اَنَہٗ یُثِبکم، یُحْبِبْکُمُ اللہ کی تفسیر یُثِیْبُکُمْ سے کرکے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔ سوال : اللہ کی جانب محبت کی نسبت کرنا درست نہیں ہے اس لیے کہ محبت میلان القلب الی الشئی کو کہتے ہیں، یہ ذات خداوندی کے لئے محال ہے۔ جواب : محبت کرنے سے مراد اجر وثواب کرنا ہے۔ قولہ : اَعْرَضُوْا اس میں اشارہ ہے کہ تَوَلَّوا، ماضی کا صیغہ ہے نہ کہ مضارع کا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اس لئے کہ مضارع کی صورت میں ایک تاء کا حذف لازم آئے گا۔ عموم کے قصد سے اور اس بات پر دلالت کرنے کے لیے کہ اعراض سبب کفر ہے، ” ھم “ کی جگہ اسم ظاہر الکافرین لائے ہیں، یعنی لایحبُّھُمْ کے بجائئے الکٰفِرِیْنَ کہا ہے۔ قولہ : مِنَ التَوْحید، یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اعمال فرعیہ میں اعراض موجب کفر نہیں ہوتا، حالانکہ یہاں فرمایا گیا اِنّ اللہَ لَایُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعراض عن الاعمال الفرعیہ مرکب موجب کفر ہے۔ جواب : یہاں اعراض سے مراد اعراض عن التوحید ہے جو کہ موجب کفر ہے۔ قولہ : بمعنی انفسھما، آل ابراہیم اور آل عمران سے مراد خود ابراہیم اور عمران ہیں اس لیے کہ ان کی آل میں کافر اور مومن سب ہوئے ہیں، حالانکہ کافر مراد نہیں ہیں، عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب نامہ اس طرح ہے موسیٰ بن عمران بن یصھر بن قاہث بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم، علیہم السلام۔ اور حضرت مریم کے والد کا نام بھی عمران ہے ان کا سلسلہ نسب اس طرح ہے۔ حضرت مریم بنت عمران بن ماثان بن یہوذا بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم، علیہم السلام۔ دونوں عمرانوں کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو سال کا فاصلہ ہے۔ قولہ : اَنْ اَجْعَلَ ، نذرتُ کی تفسیر اَنْ اَجْعَلَ سے کرکے ایک سوال کا جواب مقصود ہے۔ سوال : نذر فعل کی مانی جاتی ہے نہ کہ شئ اور ذات کی، ما فی بطنی ذات ہے نہ کہ فعل۔ پہلا جواب : اَنْ اَجْعَلَ کہہ کر اسی سوال کا جواب دیا ہے، اور نذر ماننا فعل ہے نہ کہ عین، اس میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ، نذرتُ متعدی بیک مفعول ہے حالانکہ یہاں دو مفعول کی طرف متعدی ہے ایک مافی بطنی اور دوسرا محررًا۔ دوسرا جواب : نذرتُ بمعنی میں جَعَلَ کے ہے، اور جَعَلَ متعدی بدو مفعول ہوتا ہے۔ قولہ : ای جبرئیل، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ نادتْ کا فاعل ملائکہ ہیں حالانکہ ندا دینے والے تنہاء حضرت جبرائیل ہیں۔ جواب : الف لام جنس کا ہے اور یہاں اقل جنس مراد ہے یعنی فردواحد اور وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ اللغۃ والبلاغۃ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ ، اس میں مجاز مرسل ہے۔ مجاز مرسل : مجاز مرسل وہ مجاز ہے جس میں علاقہ تشبیہ کے علاوہ کوئی دوسرا علاقہ ہو، (مثلاً علاقہ سببیت و مسببیت) ، یا جزئیت و کلیت وغیرہ یہاں اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان رضا مندی کا علاقہ ہے بندے اللہ سے راضی اور اللہ بندہ سے راضی۔ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰی اٰدَمَ وَنُوْحًا (الآیۃ) اس آیت میں فن توشیح ہے۔ فن توشیح : وہ ہے کہ جس کلام کا اول کلام قافیہ پر، اگر نظر ہو اور سجع پر، اگر نثر ہو دلالت کرے۔ یعنی اول کلام ہی سے قافیہ یا سجع سمجھ میں آجائے۔ آیت مذکورہ میں اِنَّ اللہَ اصطفیٰ ہی سے فاصلہ (آخر آیت) سمجھ میں آگیا کہ فاصلہ اَلعٰلمین آئے گا اس لیے کہ مذکورین مندرج فی العٰلمین ہی کی صفت سے ہیں۔ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی، یہ جملہ خبر یہ ہے، جملہ خبریہ کے دو مقصد ہوتے ہیں، فائدۃ الخبر اور لازم فائدۃ الخبر۔ قائدۃ الخبر مخاطب کو اس حکم کو خبر دینا جس پر وہ کلام مشتمل ہے۔ لازم فائدۃ الخبر، مخاطب کو یہ بتانا کہ متکلم اس حکم سے واقف ہے، مذکورہ جملے میں مذکورہ دونوں فائدے مقصود نہیں ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فائدۃ الخبر اور لازم فائدۃ الخبر دونوں سے واقف ہے۔ تفسیر و تشریح اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ ۔ (الآیۃ) یہود و نصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ کو ہم سے محبت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان دعوؤں سے اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور رضا حاصل نہیں ہوسکتی یہ محض دعوی ہے جو بغیر دلیل مقبول نہیں۔ اس لیے کہ محبت ایک مخفی چیز ہے کسی کو کسی سے محبت ہے یا نہیں، کم ہے یا زیادہ اس کا کوئی پیمانہ نہیں بجز اس کے کہ حالات اور معاملات سے اندازہ کیا جائے محبت کی کچھ علامات و آثار ہوتے ہیں ان سے پہچانا جاتا ہے یہ لوگ اللہ کی محبت کے دعویدار اور محبوبیت کے متمنی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس آیت میں اپنی محبت کا معیار بتلا دیا ہے یعنی دنیا میں اگر کسی کو اپنے مالک سے حقیقی محبت کا دعویٰ ہے تو اس کے لئے یہ لازم ہے کہ اس کو اتباع محمدی ﷺ کی کسوٹی پر آزما کر دیکھ لیا جائے سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا۔
Top