Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے (یکساں) گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا
یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلاً وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ مہد (گہوارہ) میں کلام کرنے کا مقصد تو صاف ہے کہ شیر خوارگی کے زمانہ میں اعجازی طور پر یا معنیٰ کلام کریں گے۔ کہولت (ادھیڑ عمر) میں بات کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ ادھیڑ عمر میں تو سب ہی بات کرتے ہیں۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ مقصد تو حالت شیرخوارگی کے کلام کا بیان کرتا ہے اس کے ساتھ بڑی عمر میں کلام کرنے کو اس لیے لایا گیا ہے کہ جس طرح انسان بڑی عمر میں عاقلانہ دانشمندانہ کلام کرتا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بچپن میں ہی ایسا کلام کیا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جب آسمانوں پر اٹھایا گیا تھا تو اس وقت آپ کی عمر 33 سال تھی، جو عین جوانی کی عمر ہوتی ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے آپ پر کہولت کا زمانہ نہیں آیا جب آپ نزول فرمائیں گے تب آپ پر کہولت کا زمانہ آئے گا۔ گویا کہ اس میں آپ کے نزول کی طرف اشارہ ہے اس طریقہ سے ان کے بچپن کے کلام ہی کی طرف زمانہ کہولت کا کلام بھی معجزانہ ہوگا۔
Top