Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اللّٰهُ
: اللہ
يٰعِيْسٰٓى
: اے عیسیٰ
اِنِّىْ
: میں
مُتَوَفِّيْكَ
: قبض کرلوں گا تجھے
وَرَافِعُكَ
: اور اٹھا لوں گا تجھے
اِلَيَّ
: اپنی طرف
وَمُطَهِّرُكَ
: اور پاک کردوں گا تجھے
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوْا
: انہوں نے کفر کیا
وَجَاعِلُ
: اور رکھوں گا
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
اتَّبَعُوْكَ
: تیری پیروی کی
فَوْقَ
: اوپر
الَّذِيْنَ
: جنہوں نے
كَفَرُوْٓا
: کفر کیا
اِلٰى
: تک
يَوْمِ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کا دن
ثُمَّ
: پھر
اِلَيَّ
: میری طرف
مَرْجِعُكُمْ
: تمہیں لوٹ کر آنا ہے
فَاَحْكُمُ
: پھر میں فیصلہ کروں گا
بَيْنَكُمْ
: تمہارے درمیان
فِيْمَا
: جس میں
كُنْتُمْ
: تم تھے
فِيْهِ
: میں
تَخْتَلِفُوْنَ
: اختلاف کرتے تھے
اس وقت خدا نے فرمایا کی عیسیٰ میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھالوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کردونگا اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (و غالب) رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم میں اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردونگا
آیت نمبر 55 تا 63 ترجمہ : (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : اے عیسیٰ میں تم کو وفات دینے والا (یعنی) تم کو (اپنے) قبضہ میں لینے والا ہوں اور دنیا سے بغیر موت کے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور ان لوگوں سے تم کو پاک الگ کرنے والا ہوں جو منکر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی (یعنی) مسلمانوں اور نصاریٰ میں سے جس نے تیری تصدیق کی ان لوگوں پر جو تیرے منکر ہوئے قیامت تک کے لیے غلبہ دینے والا ہوں اور وہ (منکرین) یہود ہیں، وہ (یہود پر) دلیل اور تلوار کے ذریعہ غالب رہیں گے۔ پھر تم سب کی واپسی میری طرف ہوگی سو میں تمہارے درمیان دینی معاملہ میں فیصلہ کروں گا سو جن لوگوں نے کفر کیا تو میں ان کو سخت عذاب دوں گا دنیا میں قتل و قید اور جزیہ کے ذریعہ اور آخرت میں آگ کے ذریعہ اور ان کو کوئی اس عذاب سے بچا نے والا نہیں ہوگا، اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو میں ان کو پورا پورا صلہ دوں گا یاء اور نون کے ساتھ۔ اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ یعنی ان کو سزا دے گا۔ روایت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا تو اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا تو ان کو ان کی والدہ نے پکڑ لیا اور رونے لگیں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : قیامت ہم کو جمع کرے گی، اور یہ واقعہ لیلۃ القدر میں بیت المقدس میں پیش آیا اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر تینتیس سال تھی اور آپ کی والدہ اس کے بعد چھ سال بقید حیات رہیں اور ایک حدیث کو شیخین نے روایت کیا کہ آپ قیامت کے قریب نزول فرمائیں گے، اور ہمارے محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے اور دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ اور صلیب کو توڑ دیں گے اور جزیہ مقرر کریں گے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) (دنیا میں) سات سال قیام فرمائیں گے۔ اور ابو داؤد طیالسی کی حدیث میں ہے کہ چالیس سال قیام فرمائیں گے۔ اور ان کو وفات دیجائے گی اور ان پر نماز پڑھی جائے گی اور یہ بھی احتمال ہے کہ قبل الرفع اور بعد الرفع دنیا میں قیام کی مجموعی مدت مراد ہو۔ اے محمد ﷺ عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ مذکورہ واقعہ جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں نشانیوں میں سے ہے (من الآیا) (نتلوہ) کی ” ھاء “ سے حال ہے، اور عامل اس میں ذالک کے معنیٰ (یعنی) ” اُشِیْرُ “ ہیں۔ اور ذکر محکم یعنی قرآن کریم ہے۔ بلاشبہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان عجیب بغیر باپ کے ان کی تخلیق میں اللہ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی شان عجیب کے مانند ہے اور یہ عجیب کی اعجب کے ساتھ تشبیہ کے قبیل سے ہے تاکہ مخالف کے لیے مسکت، اور اوقع فی النفس ہو۔ آدم یعنی ان کے جسم کو مٹی سے پیدا فرمایا پھر ان سے کہا بشر ہوجاؤ تو وہ (بشر) ہوگئے، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ بغیر باپ کے پیدا ہوجا تو وہ ہوگئے۔ یہ امر حق تیرے رب کی طرف سے ہے، (یہ) مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای اَمْر عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ لہٰذا اس میں آپ شبہ کرنے والوں میں نہ ہوجانا۔ پھر جو کوئی نصاریٰ میں سے آپ سے اس باب میں حجت کرے بعد اس کے کہ آپ کے بعد اس کے کہ آپ کے پاس عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملہ میں علم پہنچ چکا ہے۔ تو ان سے کہو (اچھا) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو بھی اور تمہاری عورتوں کو بھی اور خود ہم تم بھی (آئیں) ان سب کو جمع کریں پھر عاجزی سے دعاء کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ اس طرح کہیں، اے اللہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملہ میں جھوٹے پر لعنت فرما، اور نبی ﷺ نے جب انہوں نے اس معاملہ میں آپ ﷺ سے جھگڑا کیا، تو نبی ﷺ نے وفد نجران کو مباہلہ کی دعوت دی، تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اپنے معاملہ میں غور کرلیں۔ پھر ہم آپ کے پاس آئیں گے، تو ان کے صاحب الرائے نے ان سے کہا : تم ان کی نبوت کو پہچان چکے ہو اور واقعہ یہ ہے کہ کسی قوم نے اپنی نبی سے مباہلہ نہیں کیا مگر یہ کہ وہ ہلاک ہوگئی۔ لہٰذا تم اس شخص سے صلح کرلو اور واپس چلو (مشورہ کے بعد) وہ لوگ آپ کے پاس آئے، اور حال یہ ہے کہ آپ (مباہلہ) کے لیے نکل چکے تھے، اور آپ کے ساتھ حسن ؓ اور حسین ؓ اور فاطمہ ؓ اور علی ؓ تھے۔ اور آپ نے ان سے فرمایا جب میں بددعاء کروں تو تم آمین کہنا، تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کرکے صلح کرلی۔ روایت کیا ہے اس کو ابو نعیم نے اور روایت کیا ابو داؤد نے کہ انہوں نے دو سو حُلّوں (جوڑوں) پر صلح کرلی۔ آدھے ماہ صفر میں اور بقیہ ماہ رجب میں۔ اور تیس گھوڑوں اور تیس اونٹوں اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس (تیس) پر (صلح کرلی) اور احمد نے اپنی مسند میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر یہ مباہلہ کرنے والے نکلتے تو اس حال میں لوٹتے کہ نہ مال (باقی) پاتے اور نہ اہل (زندہ) اور طبرانی نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ اگر نکلتے تو جل جاتے۔ بیشک یہ مذکورہ ہی سچی خبر ہے کہ جس میں شک نہیں ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ ” مِنْ “ ، زائدہ ہے۔ بیشک اللہ ہی زبردست ہے اپنے ملک میں حکمت والا ہے۔ اپنی صنعت میں۔ سو اگر یہ (اب بھی) سرتابی کریں۔ (یعنی) ایمان سے اعراض کریں۔ تو بیشک اللہ خوب جانتا ہے مفسدوں کو تو ان کو سزا دے گا اس میں ضمیر کو اسم ظاہر کی جگہ رکھا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مُتَوَقِّیْکَ ، مُتَوَفّی، تَوَفُّیٌ (تَفعُّلْ ) سے اسم فاعل واحد مذکر مضاف کَ مضاف الیہ، میں تجھے وفات دینے والا ہوں۔ میں تجھے اپنی گرفت میں لے کر اٹھا لینے والا ہوں۔ میں تجھے سلانے والا ہوں۔ تَوَفی کے معنیٰ پورا پورا لینا، علماء سلف نے اس کی تشریح میں لفظ قبض استعمال کیا ہے۔ یعنی گرفت میں لے لینا، لیکن قبضہ میں اور گرفت میں لینے سے کیا مراد ہے ؟ قبض روح مع البدن یا صرف قبض روح، یعنی مار ڈالنا یا نیند مسلط کرنا مراد ہے، یعنی میں تجھ کو سلا دوں گا پھر نیند کی حالت میں آسمان کی طرف اٹھالوں گا۔ اس معنی کا مستدل اللہ تعالیٰ کا قول ” ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُمْ بِاللَّیْلِ “ ہے اللہ تم کو رات کو سلاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ توفّی، کا معنی سلادینے کا آتا ہے، واقعہ بھی اسی طرح ہوا، کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سلا کر اٹھا لیا (معالم) ابو البقاء نے کلیات میں کہا ہے مُتَوَفّیْکَ وَرَافِعُکَ ، یہ دونوں اگرچہ اسم فاعل کے صیغہ ہیں مگر معنی میں استقبال کے ہیں اور کلام میں تقدیم و تاخیر ہے اصل میں رَافِعُکَ وَمُتَوَفّیْکَ ہے۔ اس لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے آسمان پر اٹھایا گیا پھر آئندہ ان کو موت ہوگی، تفسیر عباسی میں بھی اس کی تائید ہے۔ حضرت امام رازی نے نفیس اور دقیق تفسیر کی ہے، اِنِّی متوفیکَ کے معنیٰ اِنِّی متمم عمرک فحینئذ اتوفّاکَ فَلَا اَتْرُکُھُمْ حَتَّی یقتلوک بل انا رافعکَ الی سمائی ومقرک بملائکتی واصونک عن ان یتمکّنوا من قتلِکَ (کبیر) یعنی اِنّی متوفیک، کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری عمر پوری کرونگا اور پوری عمر کرنے کے بعد تم کو وفات دوں گا کافروں کے ہاتھوں تمہیں قتل نہ ہونے دوں گا، بلکہ اپنے آسمان کی طرف تم کو اٹھالوں گا اور فرشتوں کے پاس تمہاری قیام گاہ ہے، وہاں تم کو پہنچا دوں گا۔ اور کافروں کے قتل سے تم کو محفوظ رکھوں گا۔ قولہ : مُبعِدُک، مُطَھِّرُکَ ، کی تفسیر مُبْعِدُک سے کرکے اشارہ کردیا کہ ملزوم بول کر لازم مراد ہے اس لیے کہ تطہیر کے لیے ابعاد نجاست مستلزم ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی دفع ہوگیا کہ تطہیر کے لیے تلویث لازم ہے اور وہ یہاں مقصود نہیں، جواب کا حاصل یہ کہ مُطِھرک بمعنیٰ مُبْعِدُکَ ہے۔ قولہ : ذَالِکَ نَتْلُوْہُ ، ذالک مبتداء نتلوہ علیک یا محمد ﷺ اس کی خبر مِن الآیات، نَتْلوہ کی ضمیر سے حال ہے، اور اس کا عامل ذالک کے معنی یعنی اُشِیْرُ ہے۔ قولہ : فکان سے اشارہ کردیا کہ یکون، کان کے معنی میں ہے۔ قولہ : فَوَادِعُوْا ای صالحوا، یعنی مباہلہ مت کرو بلکہ ان سے صلح کرلو۔ قولہ : فَأتوہ تو وہ لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح کی۔ قولہ : وضع الظاھر موضع المضمر، یعنی اللہ علیم بھِمْ کے بجائے اللہ علیم بالمفسدین فرمایا۔ تاکہ ان کی صفت فساد کی صراحت ہوجائے قولہ : نَبْتَھِلْ از (اِبْتِھَالْ ) ہم گڑا گڑا کر دعاء کریں گے۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ بَھْلَۃ کی اصل دعاء لعنت ہے، پھر مطلقاً دعاء کے معنی ٰ میں استعمال ہونے لگا۔ (لغات القرآن) قولہ : القصص، اسم بمعنی مصدری استعمال ہوتا ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ التقدیم والتاخیر : اِنّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ۔ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے جو کہ فن بلاغت کا ایک جزء ہے۔ اصل تقدیر اِنّی رافِعُکَ اِلیّ وَمُتَوَقّیْکَ بمعنی بد ذالک۔ قولہ : حَاجَّکَ ، ای خَاصَمَکَ وَجَادَلَک (إفاعلۃ) لا تَقَعُ اِلَّا مِن اثنَیْنِ فَصَاعدًا۔ قولہ : تَعَالوْا امر جمع مذکر حاضر، تم آؤ، اس کا مطلب ہے بلند مقام کی طرف بلانا مطلق بلانے کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا ہے۔ اب مطلقاً ھَلُمَّ کے معنیٰ میں ہے۔ تفسیر و تشریح اِذْ قَالَ اللہ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ، لفظ مُتَوَفِّیْکَ ، کی تحقیق سابق میں گزر چکی ہے، روح قبض کرنا اس کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنی۔ یہاں یہ لفظ انگریزی لفظ Dorecall، کے معنی میں مستعمل ہے، یعنی کسی عہدے دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا چونکہ بنی اسرائیل صدیوں سے مسلسل نافرمانی کر رہے تھے اور بار بار کی تنبیہوں اور فہمائشوں کے باوجود ان کی قومی روش بگڑتی ہی چلی جا رہی تھی پے در پے کئی انبیاء کو قتل کرچکے تھے، ہر اس بندہ صالح کے خون کے پیاسے ہوجاتے تھے جو نیکی اور راستی کی طرف ان کو دعوت دیتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ایک آخری موقع دینے کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) جیسے دو جلیل القدر پیغمبروں کو بیک وقت مبعوث کیا، جن کے ساتھ مامور من اللہ ہونے کی ایسی کھلی کھلی نشانیاں تھیں کہ ان سے انکار صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو حق و صداقت سے انتہا درجہ کا عناد رکھتے ہوں اور حق کے مقابلہ میں جن کی جسارت و بےباکی حد کو پہنچ چکی ہو، مگر بنی اسرائیل نے اس آخری موقع کو بھی ہاتھ سے کھو دیا، اور صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ ان دونوں پیغمبروں کی دعوت رد کردی بلکہ ان کے ایک رئیس نے علی الاعلام حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جیسے بلند پایہ انسان کا سر ایک رقاصہ کی فرمائش پر قلم کرا دیا، اور ان کے علماء اور فقہاء نے سازش کرکے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رومی سلطنت سے سزائے موت دلانے کی کوشش کی، اس لیے بنی اسرائیل کی فہمائش پر مزید اور قوت صرف کرنا بالکل فضول تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو واپس بلا لیا اور اعلان کرا دیا کہ اب بنی اسرائیل کی سرداری اور ریاست کا دور ختم ہو کر بنی اسماعیل کا دور شروع ہونے والا ہے، اور قیامت تک کے لیے بنی اسرائیل پر ذلت کی زندگی کا فیصلہ لکھ دیا۔ واقعات اور حالات کی رفتار کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا یہ انجام صاف نظر آرہا تھا کہ یہود انہیں گرفتار کئے اور ان پر مقدمہ چلائے بغیر نہ رہیں گے، اور پھر رومیوں کی عدالت میں لے جا کر سزائے موت دلوائیں گے، یہ ارشاد الہیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تسکین کے لیے اسی گرفتاری کے موقع پر ہو رہا ہے۔ لفظ مُتَوَفِّیْکَ ، سے یہ لازم نہیں آتا کہ موت اسی وقت اور فی الفور واقع ہوگی ہمارے اکابر مفسرین اسی طرف گئے ہیں بلکہ امام رازی نے اسی کو بہتر تفسیر قرار دیا ہے۔ یعنی تمہاری موت تو وقت مقررہ پر جب ہوگی، ہوگی، تمہارے دشمن تمہاری ہلاکت کے منصوبہ میں ہرگز کامیان نہیں ہوسکتے۔ سردست اس کا انتظام یوں کیا جارہا ہے کہ تمہیں ان کے درمیان سے اٹھالیا جائے گا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع جسمانی کی صراحت گو قرآن مجید میں موجود نہیں ہے لیکن قریب بصراحت ہونے کے یہ عقیدہ قرآن مجید کی اسی آیت میں موجود ہے اور احادیث نے اسے صاف اور مؤکد کردیا ہے، ابن جریر کی عبارت میں ” لتواتر الاخبار عن رسول اللہ “ کے الفاظ خاص طور پر قابل غور ہیں اس لیے اب جمہور اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی جب پیدائش عام انسانی قاعدہ تو الد وتناسل سے الگ یعنی بغیر باپ کے توسط کے محج نفخہ جبرائیل سے ہوگئی تو اب رفع جسمانی میں آخر اس قدر استبعاد کیا ہے ؟ بلکہ یہ تو بالکل قرین قیاس ہے کہ آپ کا انجام ظاہری بھی معمول عام سے ہٹ کر ہوا ہے۔ اور یہ دلیل تو بالکل ہی بودی ہے کہ رفع آسمانی سے آپ کی افضیلت خصوصاً سید الانبیاء پر لازم آتی ہے، آخر خدا کو معلوم کتنے فرشتے رات دن آسمان پر جاتے رہتے ہیں تو کیا اس بنا پر وہ سب سید الانبیاء سے افضل ہوگئے ؟ ایک مسیحی یورپین فاضل۔ EBUNSEN ڈی بنسن نے پچھلی صدی عیسوی میں ایک مختصر لیکن فاضلانہ کتاب ” اسلام یا حقیقی مسیحیت “ کے نام سے لکھی تھی اس نے اس کے ص : 143، کے حاشیہ پر اس سے قدیم مسیحی فرقوں میں سے متعدد کے نام کے لے کر لکھا ہے کہ فلاں فلاں فرقہ کا عقیدہ مسیح کے رفع جسمانی کا تھا نہ کہ وفات مسیح کا جس پر اب عیسائی صدیوں سے جمے چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح سیل Sale نے بھی اپنے انگریزی ترجمہ کے حاشیہ پر اس عقیدہ کے مسیحی فرقوں کے نام گنائے ہیں۔ حیرت ہے کہ کلمہ گویوں کے ایک جدید فرقہ نے وفات مسیح کا عقیدہ مسیحیوں سے لے لیا ہے اور اسے اپنی خوش فہمی سے ” روشن خیالی “ سمجھ رہا ہے۔ (ماجدی) مسئلہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) : دنیا میں صرف یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول اور مصلوب ہو کر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے۔ ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورة نساء میں واضح کردی ہے۔ اور اس آیت ” وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ “ میں بھی اس کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے دشمنوں کے کید اور تدبیر کو خود انہیں کی طرف لوٹا دیا کہ جو یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے لیے مکان کے اندر گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان ہی میں سے ایک شخص کی شکل و صورت تبدیل کرکے بالکل عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں ڈھال دی، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا آیت کے الفاظ یہ ہیں، وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ نہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا لیکن تدبیر حق نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوش ہولیے۔ نصاریٰ کا یہ کہنا تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول مصلوب تو ہوگئے تھے مگر پھر دوبارہ زندہ کرکے آسمانوں پر اٹھا لیے گئے، مذکورہ آیت نے ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کردی اور بتلا دیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوشیاں منا رہے تھے اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کو بھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اس لیے شَبِّہ لھم کے مصداق یہود کی طرح نصاریٰ بھی ہوگئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت و صراحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کیلئے آسمان پر زندہ اٹھا لیا نہ ان کو قتل کیا جاسکا نہ سولی چڑھایا جاسکا۔ وہ زندہ آسمانوں پر موجود ہیں اور قرب قیامت میں آسمان سے نزول فرما کر یہودیوں پر فتح حاصل کریں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے۔ اسی پر تمام امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر ص : 319، میں یہ اجماع نقل کیا ہے، قرآن مجید کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے یہ عقیدہ اور اس پر اجماع امت سے ثابت ہے۔ (معارف القرآن)
Top