Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 90
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : اپنے ایمان ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا : بڑھتے گئے كُفْرًا : کفر میں لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز نہ قبول کی جائے گی تَوْبَتُھُمْ : ان کی توبہ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ ھُمُ : وہ الضَّآلُّوْنَ : گمراہ
جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ایسوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی اور یہ لوگ گمراہ ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ ثُّمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا (الآیۃ) مطلب یہ ہے کہ مرتد ہونے کے بعد اس ارتداد پر اڑے رہے اور توبہ نہ کی اور اسی حالت میں غرغرہ کی حالت آگئی تو ان کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرا پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا ” ہاں “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، مگر تو شرک سے باز نہیں آیا۔ (مسند احمد، ھکذا اخرجہ البخاری ومسلم، ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لیے دائمی عذاب ہے اس دنیا میں اگر کچھ کار خیر بھی کیے ہوں گے تو وہ بھی کفر کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے۔ جیسا کہ حدیچ شریف میں ہے کہ عبد اللہ بن جدعان کے بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا کیا یہ اعمال اسے نفع دیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، کیوں کہ اس نے ایک دن بھی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی۔ (مسلم)
Top