Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
(مو منو ! ) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کرسکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
آیت نمبر 92 تا 101 ترجمہ : جب تک اپنے محبوب مالوں کو خرچ نہ کرو گے (صدقہ نہ کروگے) ہرگز نیکی کا اجر جو کہ جنت ہے حاصل نہ کرسکو گے اور جو چیز بھی تم خرچ کرتے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے لہٰذا وہ اس کی جزاء دے گا، اور نازل ہوئی جب یہودیوں نے یہ بات کہی، کہ تم اس بات کا دعویٰ کرتے ہو کہ تم ملت ابراہیمی پر ہو حالانکہ وہ تو اونٹ کا گوشت اور دودھ کھاتے پیتے نہیں تھے۔ (اور تم کھاتے پیتے ہو) ہر کھانا بنی اسرائیل کے لیے حلال تھا بجز اس کے کہ جس کو اسرائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور وہ اونٹ تھا، ایسا اس وقت کیا تھا کہ جب ان کو عرق النساء کا مرض لاحق ہوگیا تھا (نَساء) فتحہ نون کے ساتھ اور قصر الف کے ساتھ (بروزن عصا) ہے، (حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے نذر مانی تھی کہ اگر میں شفاء یاب ہوگیا تو اس کو میں نہ کھاؤں گا، چناچہ انہوں نے اس کو اپنے اوپر ممنوع قرار دے لیا، ایسا تورات نازل ہونے سے قبل کیا تھا اور یہ (واقعہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ہوا، اور یہ حرمت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں نہیں تھی جیسا کہ تم سمجھتے ہو۔ تو آپ ان سے کہئے کہ تورات لاؤ اور اس کو پڑھو تاکہ تمہارے قول کی صداقت ظاہر ہوجائے اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو وہ ہ کے بکے رہ گئے اور تورات نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سو جو شخص اس کے یعنی حجت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی اللہ پر بہتان تراشی کرے کہ تحریم یعقوب (علیہ السلام) کی جانب سے تھی نہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد میں تو یہی لوگ ہیں ظالم (یعنی) حق سے باطل کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں آپ کہدیجئے کہ دیگر باتوں کی طرح اللہ نے یہ بات بھی سچ فرما دی تو تم سیدھی راہ والے ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی جس پر میں ہوں پیروی کرو یعنی ہر دین سے (اعراض کرکے) دین اسلام کی جانب رخ کرکے اور (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے نہ تھے، اور آئندہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب یہود نے کہا تھا کہ ہمارا قبلہ تمہارے قبلے سے قدیم ہے، سب سے پہلا گھر جو معبد کے طور پر لوگوں کے لیے مبارک بنا کر وضع کیا گیا، وہ ہے جو مکہ میں ہے، مکہ، میں ایک لغت بکہ بھی ہے باء کے ساتھ، بکہ کو بکہ اس لیے کہتے ہیں کہ بکہ کے معنی توڑنے، پھوڑنے کے ہیں چونکہ یہ بڑے بڑے حباروں (ظالموں) کی گردنوں کو جو اس کے انہدام کا قصد کریں تو ڑکر رکھ دیتا ہے۔ اس کی تعمیر فرشتوں نے کی تھی اس کے بعد مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے، جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں وارد ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے وقت سطح آب پر سفید جھاگ کی شکل میں جو چیز نمودار ہوئی تھی وہ کعبہ تھا اس کے بعد زمین کو اس کے نیچے سے پھیلایا گیا، (مُبٰرَکاً ) اَلَّذِی سے حال ہے ای ذابرکۃٍ ، اور اہل عالم کے لیے ہدایت والا ہے اس لیے کہ یہ ان کا قبلہ ہے۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ان ہی میں سے مقام ابراہیم (علیہ السلام) ہے یعنی وہ پتھر کہ تعمیر بیت اللہ کے وقت جس پر (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کھڑے ہوتے تھے۔ آپ کے قدموں کے اس میں نشان پڑگئے اور زمانہ دراز کے باوجود لوگوں کے بار بار مس کرنے کے باوجود آج تک باقی ہیں۔ اور ان ہی نشانیوں میں سے اس میں نیکیوں کے اجر کا دوگنا ہونا ہے۔ اور کوئی پرندہ اس کے اوپر سے نہیں گزر سکتا۔ اور جو کوئی اس میں داخل ہوجاتا ہے وہ مامون ہوجاتا ہے قتل و ظلم وغیرہ کے لیے اس سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اور لوگوں پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج واجب ہے (حج) کے مصدر میں جاء کا فتحہ اور کسرہ دو لغت ہیں۔ حَجًّ ، بمعنی قَصَدَ ، اور (مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ) النّاس، سے بدل ہے جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو، (استطاعت) کی تفسیر آپ ﷺ نے زادو راحلہ (سواری اور سفر خرچ) سے فرمائی۔ روایت کیا اس کو حاکم وغیرہ نے اور جو کوئی اللہ کا کفر کرے اور جو اس پر حج فرض کیا ہے (اس کا منکر ہو) تو اللہ تعالیٰ عالم والوں سے یعنی جن و انس اور ملائکہ اور ان کی عبادت سے بےنیاز ہے۔ آپ کہئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ کی آیتوں قرآن کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ دارنحالی کہ اللہ تمہارے اعمال پر شاہد ہے تم کو اس کی جزاء دے گا۔ آپ کہئے اے اہل کتاب تم اس شخص کو جو ایمان لا چکا ہے اللہ کے دین سے نبی ﷺ کی تکذیب اور ان کی علامات کو چھپا کر کیوں روکتے ہو ؟ اس راہ (دین) میں کجی نکالتے ہو (عوَجًا) مصدر ہے مُعَوَّجَۃً ، کے معنی میں ہے، یعنی حق سے انحراف کرکے، حالانکہ تم جانتے ہو کہ پسندیدہ اور صحیح دین اسلام ہی ہے جیسا کہ تمہاری کتاب میں موجود ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کفر و تکذیب وغیرہ تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں ہے اور اس نے تم کو محض ایک وقت تک مہلت دے رکھی ہے پھر تم کو اس کی سزا دے گا (آئندہ آیت اس وقت نازل ہوئی) کہ جب بعض یہودیوں کا گزر اَوْس و خزرج پر ہوا تو ان کی آپسی الفت و محبت نے ان کو غضب ناک کردیا، چناچہ ان یہودیوں نے ان کے زمانہ جاہلیت کی (آپسی) فتنہ کی باتوں کا ذکر چھیڑ دیا جس کی وجہ سے وہ آپس میں جھگڑنے لگے قریب تھا کہ آپس میں خون ریزی ہوجائے۔ اے ایمان والو اگر اہل کتاب کے کسی فریق کی بات مانو گے تو وہ تم کو تمہارے ایمان لانے کے باوجود کافر بنا کر چھوڑیں گے اور تم کس طرح کفر کرسکتے ہو استفہام تعجب اور توبیخ کے لیے ہے، حالانکہ تمہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسول موجود ہے اور جو اللہ کو مضبوط پکڑتا ہے تو وہ سیدھی راہ کی طرف ہدایت کیا جاتا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسیل و تفسیری فوائد قولہ : تَنَالُوْا، تم حاصل کرو گے، تم پاؤ گے (س) مضارع جمع مذکر حاضر، نَالَ یَنَالُ نَیلاً پہنچنا، حاصل کرنا۔ قولہ : ای ثوابہٗ مفسر علام نے مضاف کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے۔ اس لیے کہ نفس بِرّ تو نیک عمل کرنے کو کہتے ہیں جس کا وجود عمل نیک کرنے سے ہوجاتا ہے البتہ عمل نیک کا اجر وثواب محبوب و پسندیدہ چیز خرچ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ قولہ : تَصَدَّقُوْا، تُنْفِقُوْا کی تفسیر تَصَدَّقُوْا سے کرکے اشارہ کردیا کہ مطلق انفاق خواہ اپنی ذات پر ہو یا برے کاموں میں ہو مراد نہیں ہے بلکہ فی سبیل اللہ صدقہ کرنا مراد ہے۔ قولہ : مِمَّا تُحِبُّوْنَ ، مَا تبعیضیہ ہے، اس لیے کہ ایک قراءت میں بَعْضَ مَا تُحِبُّوْنَ ہے۔ قولہ : کُلُّ الطَّعَامِ الف لام عہد کا ہے ای کُلُّ الاطعِمۃ الَّتِی کانَتْ تَدِّعِی الیھودُ حُرْمَتَھَا عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ ۔ قولہ : عِر النَساء، عرق النساء اکثر بائیں سرین سے شروع ہو کر گھٹنے اور بعض اوقات ٹخنے تک اتر آتا ہے اگر یہ مرض زیادہ دنوں تک رہے تو مریض لنگڑا ہوجاتا ہے۔ (شرح موجز، اقرائی) قولہ : اَنا عَلَیْھَا اتباع ابراہیم (علیہ السلام) سے مراد ملت اسلام کی اتباع ہے اس لیے کہ ملت ابراہیمی ملت اسلامی ہی تھی، اور آپ ﷺ بھی اسی ملت ابراہیمی پر تھے۔ قولہ : متَعَبَّدًا، یہ لفظ بڑھا کر اشارہ کردیا کہ اول بیت سے مطلق اول بیت مراد نہیں بلکہ عبادت گاہ کے طور پر اول بیت مراد ہے۔ قولہ : لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ میں لام تاکید ہے اس کو لام مُزْ حَلَقۃ بھی کہتے ہیں۔ دراصل یہ لام مبتداء پر اس کی تاکید کے لیے داخل ہوتا ہے مگر جب مبتدا پر انَّ داخل ہوجاتا ہے تو اِنّ اپنی صدارت کی خاطر اس لام کو خبر کی طرف دھکیل دیتا ہے اس لیے اس لام کا لام مزْ حلقہ کہتے ہیں۔ مکہ اور بکہ بلد حرام کے نام ہیں، یہ دونوں لغت ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بکہ، مقام بیت اللہ کا نام ہے اور مکہ بلد حرام کا نام ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مسجد حرام کا نام بکہ پورے حرم کا نام ہے اور بکّہ کو بکہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ازدحام الناس کے ہیں طواف کے وقت چونکہ ازدحام ہوتا ہے اسی لیے اس کو بکہ کہتے ہیں، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بَکَ کے معنی ’ دَقٌ‘ کے معنی ہیں کاٹنا، توڑنا، مروڑنا، اس لیے کہ جس ظالم و جابر نے بھی اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھا اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس کی گردن مروڑ دی گئی، اور مکہ، تسمیہ کی وجہ سے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ قلت ماء کی وجہ سے مکہ کہا جاتا ہے، عرب بولتے ہیں مکَّ الفصیل ضَرْعَ اُمِّہٖ جب کہ بچہ ماں کا دودھ پی کر ختم کر دے اور قاموس میں ہے چونکہ مکہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور یہ تمک الذنوب سے مشتق ہے ای تمحوھا وتزیلُھا۔ مکہ کے بہت سے نام ہیں : (1) مکہ۔ (2) بکہ۔ (3) البیت العتیق۔ (4) البیت الحرام۔ (5) البلد الامین۔ (6) المامون۔ (7) الم الرحیم۔ (8) امُّ القری۔ (9) صلاح۔ (10) العرش۔ (11) القادس۔ (12) المقدسہ۔ (13) البناسۃ۔ (14) نون اور باء کے ساتھ۔ (15) الحاطمہ۔ (16) الرأس۔ (17) کو ثاء۔ (18) البلدۃ۔ (19) البنیۃ۔ (20) الکعبہ۔ (اعراب القرآن) مجاہد نے کہا کہ، باء میم سے بدل گئی ہے جیسے سَبَدٌ اور سَمَدٌ، اور لازبٌ و لازمٌ میں۔ قولہ : تطلبون السبیل، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ سبیل مذکر ہے لہٰذا تَبْغُوْنَھَا کے بجائے تَبْغُوْنَہٗ ہونا چاہیے۔ جواب : سبیل چونکہ مذکر اور مؤنث دونوں استعمال ہوتا ہے لہٰذا تَبْغُوْنَھا درست ہے۔ قولہ : مصدرٌ بمعنی مُعَوَّجَۃً ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ عِوَجًا، السبیل سے حال ہے حالانکہ اس کا حمل السبیل پر صحیح نہیں ہے۔ جواب : عِوَجًا، مُعَوَّجًا کے معنی میں ہے۔ عِوَج عین کے کسرہ کے ساتھ غیر مجسم اشیاء کی کجی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثل عقل فہم اور عَوَج عین کے فتحہ کے ساتھ مجسم اشیاء مثلاً دیوار وغیرہ کی کجی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ قولہ : حِلًّا، (ض) حِلاَّ و حَلالاً ، دونوں مصدر ہیں، بمعنی حلال ہونا۔ قولہ : بکّۃ، میم اور باء چونکہ قریب المخرج ہیں اس لیے میم کو باء سے بدل دیا جیسا کہ لازم کو لازب کرلیا جاتا ہے۔ قولہ : للذی ببکۃ، یہ لام تاکید مزحلقہ ہے، دراصل یہ انَ کی خبر پر داخل ہونے والا وہ لام ہے جس کو اِنّ نے اپنی صدارت کی وجہ سے اپنی خبر کی طرف دھکیل دیا ہے، مزحلقہ کے معنی ہیں دھکیلا ہوا۔ است خدام : مَنْ دخلہ کان آمنًا میں صنعت است خدام ہے اس لیے کہ مقام ابراہیم سے جائے قدم مراد ہے۔ اور اس کی طرف لوٹنے والی دخلہٗ کی ضمیر سے مطلق حرم مراد ہے، اسی کو است خدام کہتے ہیں کہ مرجع سے ایک معنیٰ مراد ہوں اور اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر سے دوسرے معنیٰ مراد ہوں۔ تفسیر و تشریح ربط : سابق میں صدقہ کافر کا ذکر تھا کہ صدقہ اور کسی بھی کارخیر سے ایمان کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہاں مومن کے صدقہ اور کار خیر کا ذکر ہے۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ (بِرّ ) نیکی، بھلائی، یہاں مطلقاً عمل صالح یا جنت مراد ہے۔ آیت مذکورہ اور صحابہ کرام ؓ تعالیی عنہم کا جذبہ عمل : صحابہ کرام ؓ جو کہ قرآن کریم کے اولین مخاطب تھے اور آپ ﷺ کے بلاوسطہ شاگرد اور احکام قرآنی پر عمل کرنے کے عاشق، اس آیت کے نازل ہونے پر ہر ایک نے اپنی اپنی محبوب چیزوں پر نظر ڈالی اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے درخواست پیش کرنے لگے، انصار مدینہ میں ایک صحابی ابو طلحہ جو کہ باحیثیت تھے مسجد نبوی کے بالکل قریب بالمقابل ایک بہت عمدہ باغ تھا اس میں ایک کنواں بھی تھا جو کہ بیر حاء کے نام سے مشہور تھا اس کا پانی نہایت عمدہ اور نہایت شیریں تھا، اب اس باغ کی جگہ باب مجیدی کے سامنے اصطفیٰ منزل کے نام سے عمارت بنی ہوئی ہے جس میں زائرین مدینہ قیام کرتے ہیں اس کے شمال مشرق کے گوشہ میں یہ بیر حاء اب تک اسی نام سے موجود ہے آپ ﷺ کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیرحاء کا پانی نوش فرماتے، آپ کو اس کنویں کا پانی پسند تھا، حضرت طلحہ کا یہ باغ بڑا قیمتی اور زرخیز اور اپنی جائداد میں سب سے زیادہ محبوب تھا، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابو طلحہ ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرے تمام اموال میں بیرحاء مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو صرف فرما دیں، آپ نے فرمایا وہ تو عظیم الشان منافع کا باغ ہے، میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے اقرباء میں تقسیم کرد و، حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ ﷺ کے اس مشورہ کو قبول فرما کر اپنے اقرباء میں تقسیم کردیا یہ حدیث بخاری اور مسلم میں مذکور ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرات صرف وہ نہیں یہ جو عام فقراء کو دی جائے، اپنے اہل و عیال اور عزیزو اقارب پر خرچ کرنا بھی بڑی خیرات اور موجب ثواب ہے۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ اپنا ایک گھوڑا لیے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا مجھے اپنی املاک میں یہ گھوڑا سب سے زیادہ محبوب ہے اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں آپ ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا۔ لیکن ان سے لے کر ان ہی کے صاحبزادے اسامہ کو دے دیا، حضرت زید اس پر کچھ دلگیر ہوئے کہ میرا صدقہ میرے ہی گھر واپس آگیا تو آپ نے ان کو تسلی کے لیے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ صدقہ قبول فرما لیا۔ (مظہری بحوالہ ابن جریر، معارف) ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ راہ میں جو صدقہ خیرات بھی ہو خواہ فرض خواہ نفل ان سب میں مکمل فضیلت اور ثواب جب ہی ہے کہ اپنی محبوب اور پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ نہیں کہ صدقہ کو تاوان کی طرح سر سے ٹالنے کے لے فالتو اور بےکار یا خراب چیزوں کا انتخاب کرو۔ فالتو اور حاجت سے زائد چیز بھی خرچ کرنے میں ثواب ہے : اگرچہ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خیر کامل اور ثواب عظیم اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیز کو راہ خدا میں صرف کریں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرورت سے زائد اور فالتو مال خرچ کرنے میں کوئی اجر وثواب ہی نہیں ہے بلکہ آیت کے آخر میں جو یہ ارشاد ہے ” وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شِئ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ“ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ خیر کامل اور صف ابرار میں داخلہ محبوب چیز کے خرچ کرنے پر موقوف ہے لیکن مطلق چواب سے کوئی صدقہ خالی نہیں خواہ محبوب چیز خرچ کریں یا زائد اور فالتو ہاں جو چیز مکروہ اور ممنوع ہے وہ یہ کہ کوئی شخص راہ خدا میں خرچ کرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرے کہ جب خرچ کرے فالتو اور ناکارہ چیز کا انتخاب کرے۔
Top