Tafseer-e-Jalalain - An-Naml : 39
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
کہو کہ اے اہل کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں کفر کرتے ہو ؟ اور خدا تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے
قُلْ یَآاَھْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِآیَاتِ اللہِ ۔ سابق میں اہل کتاب کے عقائد فاسدہ کا بیان چل رہا تھا۔ درمیان میں حج کا ذکر آگیا، اب پھر سابق عنوان کی طرف عود کیا اس آیت میں اہل کتاب سے خطاب ہے اور اس کا تعلق ایک واقعہ سے ہے۔ ابن اسحاق نے اور زید بن اسلم سے ایک جماعت نے بیان کیا کہ ایک یہودی جس کا نام شماس بن قیس تھا جو اسلام اور مسلمانوں سے نہایت بغض اور کینہ رکھتا تھا ایک روز اس کا گزر ایک مجلس پر ہوا جس میں انصار کے دو قبیلہ اوس اور خزرج ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے شماس نے جب ان کی محبت اور الفت کو دیکھا تو حسد کی آگ سے جل بھن گیا، زمانہ جاہلیت میں ان دونوں قبیلوں میں شدید عداوت اور دشمنی رہتی تھی جنگ بعاث جو عرب کی مشہور لڑائی ہوئی ہے وہ انہی دونوں قبیلوں کے درمیان ہوئی تھی اور اس جنگ میں کامیابی اوس کو حاصل ہوئی تھی شماس بن قیس کو اوس اور خزرج کی محبت اور یگانگت ایک آنکھ نہ بھائی اور ان میں تفریق ڈالنے کی فکر میں لگا، آخر یہ تجویز کی کہ ان کے درمیان جنگ بعاث کا ذکر چھیڑا جائے اور اس موقع پر جو اشعار دونوں طرف سے اپنی اپنی مدح اور ثانی فریق کی ہجو میں پڑھے گئے تھے ان کو پڑھا جائے، چناچہ ایک یہودی نوجوان جو اس کے ساتھ تھا اس سے کہا تو جاکر ان کے پاس بیٹھ جا پھر ان میں جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے، چناچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اس موقع پر جو اشعار پڑھے گئے تھے وہ پڑھے، ان اشعار کا پڑھنا تھا کہ ایک آگ سی بھڑک اٹھی، اور تو تو میں میں سے بات بڑھ کر ہا تھا پائی اور پھر لاٹھی ڈنڈوں تک نوبت پہنچ گئی، حتیٰ کہ دونوں قبیلوں میں سے ایک ایک شخص میدان میں مبارزت کرتے ہوئے اتر پڑے، اوس بن قیظی بنی حارثہ کا ایک نوجوان اوس کی جانب سے اور ہبار بن صخر بی سلمہ کا ایک نوجوان خزرج کی جانب سے، دونوں قبیلوں کے دیگر افراد بھی شامل ہوگئے یہاں تک کہ لڑائی کا وقت اور محل طے ہوگیا، آنحضرت ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ تشریف لائے اور فرمایا : کیا اندھیر ہے میرے رہتے ہوئے، اور مسلمان ہونے اور آپس میں میل ملاپ اور محبت کے بعد یہ کیا جہالت ہے کیا تم اسی حالت میں کفر کی طرف عود کرنا چاہتے ہو، تب سب متنبہ ہوئئے اور سمجھ گئے یہ سب شیطانی حرکت تھی، آپس میں ایک دوسرے کو گلے لگ کر بہت روئے اور توبہ کی اسی واقعہ میں مذکورہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (روح المعانی)
Top