بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
آیت نمبر 1 تا 8 ترجمہ : شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے اے نبی اللہ سے ڈرتے رہئے یعنی اس کے تقویٰ پر قائم رہئے اور کافروں اور منافقوں کی وہ باتیں نہ مانئے جو آپ کی شریعت کے خلاف ہوں اللہ تعالیٰ ہونے والی شئ کا اس کے ہونے سے پہلے علم رکھتے ہیں اور جو چیز پیدا فرماتے ہیں اس کے بارے میں حکیم ہیں اور آپ کے پروردگار کی طرف سے جو حکم اپ کی طرف بذریعہ وحی یعنی بذریعہ قرآن بھیجا جاتا ہے آپ اس پر چلتے رہئے بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے پوری طرح باخبر ہے ایک قراءت میں تائے فو قانیہ کے ساتھ ہے اور آپ اپنے معاملہ میں اللہ ہی پر توکل رکھئے اور اللہ کارسازی کے اعتبار سے کافی ہے آپ کا محافظ ہے، اور آپ کی امت کی ان تمام امور میں آپ کے تابع ہے اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے یہ رد ہے بعض کفار کے اس قول کا کہ فلاں شخص کے سینے میں دو دل ہیں وہ دونوں دلوں سے محمد ﷺ سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے اور اپنی جن بیبیوں سے تم ظہار کر بیٹھے ہو (یعنی حرمت کی نیت سے ماں کہہ بیٹھتے ہو) انہیں اللہ نے تمہاری (حقیقی) ماں نہیں بنایا اللَّائی ہمزہ اور ی اور بغیر ی دونوں قراءتیں ہیں تظھرون ھا سے پہلے الف اور بغیر الف دونوں صورتیں ہیں اور تاء ثانیہ اصل میں ظا میں مدعم ہے، کسی نے اپنی بیوی سے مثلاً (انتِ علیَّ کظھرِ امی) کہا یعنی ظہار کی وجہ سے حرمت میں (حقیقی) ماں کے مثل نہیں ہے ظہار کو جاہلیت میں طلاق شمار کرنے کی وجہ سے اور بلاشبیہ ظہار کی وجہ سے کفارہ اس کی شرط کے ساتھ واجب ہوتا ہے جیسا کہ سورة مجادلہ میں ذکر کیا گیا ہے اور نہ تمہارے متبنّاؤں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، اَدْعِیَاء دَعِئٌّ کی جمع ہے، اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ابن ہونے کی نسبت اس کے باپ کے بجائے غیر کی جانب کی گئی ہو اے یہود اور منافقو ! یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں، جب نبی ﷺ نے اپنے متبنیٰ زید بن حارثہ کی بیوی زینب بنت حجش سے نکاح کرلیا تو (یہود و منافق) نے کہا تھا کہ محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بارے میں تکذیب فرمائی اور اللہ اس معاملہ میں حق بات کہتا ہے اور وہ راہ (حق) کی جانب رہنمائی کرتا ہے لیکن تم متبنّاؤں کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارا کرو اللہ کے نزدیک صحیح بات یہی ہے اور اگر تم کو ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے چچا زاد بھائی ہیں اور اگر تم سے اس معاملہ میں بھول چوک ہوجائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں، البتہ گناہ وہ ہے کہ ممانعت کے بعد تم قصداً کرو اور ممانعت سے پہلے تم جو کچھ کہہ چکے ہو اللہ تعالیٰ برا ہی بخشنے والا ہے اور اس بارے میں تم پر مہربان ہے نبی مومنین پر خود کے نفسوں سے بھی زیادہ مشفق (مہربان) ہے ان چیزوں میں جن کی طرف وہ بلاتے ہیں اور ان کے نفوس اس کے خلاف کی بلاتے ہیں اور ان کی ازواج ان کی مائیں ہیں ان کے نکاح کے حرام ہونے میں اور ذوی الارحام یعنی قریبی رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے آپس میں زیادہ حقدار ہیں میراث کے معاملہ میں یعنی ایمان اور ہجرت کی وجہ سے ارث سے جو ابتداء اسلام میں تھی پھر منسوخ کردی گئی مگر یہ کہ اپنے دوستوں کے ساتھ وصیت کے ذریعہ کچھ سلوک کرنا چاہو تو جائز ہے اور یہ یعنی ایمان ایمان و ہجرت ایمان و ہجرت کی وجہ سے میراث کا حکم ذوی الارحام کے ذریعہ منسوخ ہونا کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے کتاب سے دونوں جگہ لوح محفوظ مراد ہے اور یاد کرو ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا جب کہ ان کو آدم (علیہ السلام) کی پشت سے چھوٹی چیونٹیوں کے مانند نکالا گیا تھا ذُرٌّ ذُرَّۃٌ کی جمع ہے نہایت چھوٹی چیونٹی کو کہتے ہیں، اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح (علیہ السلام) سے اور ابراہیم (علیہ السلام) سے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) سے (عہد لیا تھا) یہ کہ اللہ کی بندگی کریں گے اور لوگوں کو اس کی بندگی کی طرف دعوت دیں گے اور تخصیص کے طور پر ان پانچ ۃ انبیاء) کا ذکر عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے اور ہم نے ان سے ذمہ داری کو پورا کرنے کا نہایت پختہ عہد لیا تھا اور وہ (میثاق) اللہ تعالیٰ کی قسم تھی تاکہ اللہ تعالیٰ ان سچوں سے تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں سچ کے بارے میں دریافت کرے ان کے منکرین کو لاجواب کرنے کے لئے اور کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے یعنی تکلیف دہ، اس کا عطف اخذنا پر ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : یٰا یُّھَا النبی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو دیگر انبیاء کی مانند خطاب نہیں فرمایا، دیگر انبیاء کو خطاب فرمایا یا موسیٰ یا عیسیٰ یا داؤد، اس لئے کہ آپ ﷺ بلاشبہ افضل الخلق وعلی الاطلاق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تعظیم و اکرام کے الفاظ سے خطاب فرمایا ہے مثلاً فرماتا۔ یٰایھا النبی، یٰایُّھا الرَّسول اور اگر کہیں صراحۃ آپ سے نام کے بیان کرنے کی ضرورت پیش آئی تو معاً اس کے بعد کوئی کلمہ ذکر فرمایا جو تعظیم پر دلالت کرتا ہو، مثلاً فرمایا محمد رسول اللہ۔ وما محمد اِلَّا رسول وغیر ذٰلک۔ قولہ : دُمْ علی تقواہُ اس اضافہ کا مقصد تحصیل حاصل کے شبہ کا جواب ہے، اس لئے کہ آپ تو تقویٰ پر پہلے ہی سے تھے پھر آپ کو تقویٰ کا حکم دینا یہ تحصیل حاصل ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ مقصد تقویٰ پر قائم رہنے کا حکم ہے نہ کہ انشاء تقویٰ کا حکم اگرچہ آپ کو ہے مگر مراد امت ہے۔ قولہ : کَفیٰ بِاللہِ میں اللہ کفیٰ کا فاعل ہونے کی وجہ سے محل میں رفع کے ہے فاعل پر زائدہ ہے، وکیلاً تمیز ہے یا حال ہے۔ قولہ : وَمَا جَعَل اَدْعِیَاءَ کُمْ یہ آیت حضرت زیدبن شرحبیل کے بارے میں نازل ہوئی، دَعِیٌّ بمعنی مدّعُوٌّ یعنی مَفْعُوْلٌ دَعِیٌّ اصل میں دَعِیْوٌ تھا واؤ اور یا ایک جگہ جمع ہوئے یا ساکن ہے واؤ کو یا کیا اور یا کو یا میں ادغام کردیا دَعِیٌّ ہوگیا لیکن دَعیٌّ کی جمع اَدْعیاء خلاف قیاس ہے اس لئے کہ فَعِیْلٌ معتل لام کی جمع اَفعِلاءُ اس وقت آتی ہے فاعل کے معنی میں ہو جیسے تَقِیٌّ کی جمع اَتْقیاءُ اور غنِیٌّ کی جمع اغنیاءُ دَعِیٌّ اگرچہ معتل لام ہے مگر بمعنی مفعول لہٰذا قیاس یہ تھا کہ اس کی جمع اَدْعٰی برودن فَعْلیٰ ہو جیسے قتیلٌ کی جمع قَتْلیٰ اور جَریح کی جمع جرحی آتی ہے، لہٰذا یہ شاذ ہے۔ قولہ : بَنُوْ عَسِّکُمْ ۔ مَوَالیکم کی تفسیر بنو عمکم سے کرنے کا مقصد معنی کی تعیین ہے اس لئے کہ مولیٰ کے بہت سے معنی آتے ہیں، منجملہ ان کے ابن عم بھی ہیں، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا تھا انی خِفْتُ المَوَالِیَ منْ ورَانی یہاں مَوَالِی سے بنو عم مراد ہیں۔ قولہ : مَا تَعَمّدَتْ میں ما یا تو دابق ما پر عطف کی وجہ سے محلا مجرور ہے یا ابتداء کی وجہ سے مرفوع ہے اور خبر محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی ولٰکن ما تعمدت تُواخَذُوْنَ بہ اَرْحامٌ جمع رَحْمٍ بمعنی قرابت اوْلیٰ بِبَعْضٍ ای بِاِرْثِ بعضٍ شارح نے فی الارث کا اضافہ حذف مضاف کی طرف اشارہ کرنے کے لے کیا ہے فی کتاب اللہ اَوْلیٰ سے متعلق ہے ای ھذہ الا ولویۃ ثابت فی کتاب اللہ من المؤمنین کا تعلق بھی اَوْلیٰ کے ساتھ ہے یعنی قرابت دار مومنین اجانب مہاجرین سے ارث کے زیادہ مستحق ہیں اِلّا اَنْ تَفْعَلُوْاشارح (رح) تعالیٰ نے اِلاَّ لہ تفسیر لکن سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ قولہ : اَنّ تفعّلُوْا بتاویل مصدر ہو کر مبتداء ہے اور اس کی خبر محذوف ہے شارح (رح) تعالیٰ نے فجائزٌ مقدر مان کر حذف خبر کی جانب اشارہ کردیا، تَفْعَلوا چونکہ تَوَصَّلُوْا کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا اس کا صلہ الیٰ لانا درست ہے۔ قولہ : باِرْثِ ذَوی الارحام یہ نسخٌ سے متعلق ہے۔ قولہ : وَاِذْا اَخَذْنَا یہ اذکر محذوف کی وجہ سے محلا منصوب بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ فی الکتاب کے محل پر عطف ہو تو اس وقت عامل مسطورًا ہوگا ای کان ھٰذا الحکم مسطورًا فی الکتاب وقت اَخْذنا . قولہ : واَعَدَّ اس کا عطف اَخَذْنَا پر ہے۔ تفسیر وتشریح سورة احزاب بالاتفاق مدنی ہے اس میں تہتر آیتیں ہیں، اس سورت میں چونکہ واقعۂ غزوۂ احزاب مذکور ہے اس لئے اس کا نام سورة احزاب رکھا گیا، اس کے بیشتر مضامین نبی کریم ﷺ اور صحابہ کی مدح نیز منافقین کی مذمت و شاعت پر مشتمل ہیں، یہ سورة سورة بقرہ کے برابر تھی اور اسی میں آیت رجم الشیخُ والشیٰخۃُ اِذَا زَنَیَا فارْ جُمو ھما البتۃ نکَالاً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ تھی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے موجودہ مقدار کے علاوہ بقیہ کو اٹھالیا، روافض کہتے ہیں کہ سورة احزاب کا کچھ حصہ ایک صحیفہ پر مکتوب تھا جو حضرت عائشہ (صدیقہ) کے گھر میں تھا اس کو بکری کھا گئی، یہ قول روافض اور زنادقہ کی تصنیف ہے، آیت رجم کے الفاظ اگرچہ منسوخ ہوگئے مگر حکم باقی ہے۔ (جمل) شان نزول : اس سورت کے شان نزول میں چند واقعات منقول ہیں : (1) پہلا واقعہ : یہ کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف فرمائے، تو مدینہ کے آس پاس یہود کے قبائل بنو قریظہ، بنو نضیر، بنو قینقاع وغیرہ آباد تھے، آپ ﷺ کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ کسی طرح یہ لوگ مسلمان ہوجائیں، اتفاقاً ان یہودیوں میں سے چند آدمی آپ کی خدمت میں آنے لگے، اور منافقانہ طور پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگے، آپ ﷺ نے اس کو غنیمت سمجھا کہ کچھ لوگ اگر مسلمان ہوجائیں تو دوسروں کو دعوت دینا آسان ہوجائے گا، اس لئے آپ ان کے ساتھ خاص مدارات کا معاملہ فرماتے تھے اور ان کے آنے والے ہر چھوٹے بڑے کا اکرام فرماتے اور ان کی بعض غلطیوں کو نظر انداز بھی فرماتے، اس واقعہ پر سورة احزاب کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی) (2) دوسرا واقعہ : ابن جریر نے حضرت عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ بن ربیعہ مدینہ طیبہ آئے اور آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ ہم فریش مکہ کے نصف اموال آپ کو دیدیں گے اگر آپ اپنے دعوے کو چھوڑ دیں، اور مدینہ طیبہ کے منافقین اور یہود نے آپ ﷺ کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر آپ نے اپنے دعوائے نبوت سے رجوع نہ کیا تو ہم آپ کو قتل کردیں گے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (روح) (3) تیسرا واقعہ : روایت کیا گیا ہے کہ ابوسفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل اور ابوالاعور سلمی اس زمانہ میں جبکہ صلح حدیبہ کی وجہ سے آپس میں ناجنگ معاہدہ ہوچکا تھا، مدینہ طیبہ آئے اور عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین کے یہاں اترے، اور آپ ﷺ نے ان کو ملاقات کرنے اور گفتگو کرنے کی اجازت دیدی، ان کے ساتھ عبداللہ بن ابی سرح اور طعمہ بن ابیرق بھی آئے حضرت عمر ؓ اس وقت آپ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے، ان حضرات نے گفتگو کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ ہمارے معبودوں کا برائی سے ذکر کرنا چھوڑ دیں اور صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ بت بھی اپنے عابدین کی شفاعت کریں گے، اگر آپ اتنا کریں تو ہم آپ کو اور آپ کے رب کو چھوڑ دیں گے، جھگڑا ختم ہوجائے گا، یہ بات آپ کو اور مسلمانوں کو سخت ناگوار ہوئی، حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ اجازت دیجئے میں ان کو قتل کردوں، آپ نے فرمایا میں ان سے معاہدۂ امن کرچکا ہوں، اس لئے ایسا نہیں ہوسکتا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (روح و اعراب القرآن للدرویش ملخصاً ) یہ روایات اگرچہ مختلف ہیں مگر ان میں کوئی تضاد نہیں یہ واقعات بھی نزول کا سبب ہوسکتے ہیں۔ ان آیتوں میں رسول اللہ ﷺ کو دو حکم دیئے گئے ہیں : (1) اِتَّقِ اللہَ یعنی اللہ سے ڈرتے رہو، (2) لاَتُطِعِ الکافرینَ یعنی کافروں کا کہنا نہ مانو، اللہ سے ڈرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا قتل عہد شکنی ہے جو حرام ہے، اور کفار کی بات نہ ماننے کا حکم اس لئے کہ ان تمام واقعات میں کفار کی جو فرمائشیں ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں، مذکورہ دونوں حکموں پر اگرچہ آپ پہلے ہی سے عامل تھے اس کے باوجود حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ کی طرح آئندہ بھی پابندرہئے۔ (روح ) بعخض مفسرین نے فرمایا کہ مذکورہ آیات میں اگرچہ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے مگر مراد امت ہے آپ تو معصوم تھے آپ سے احکام الہٰیہ کی خلاف ورزی کا کوئی احتمال نہیں تھا، مگر قانوں پوری امت کے لئے ہے۔ ابن کثر (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ اس آیت میں کفار و مشرکین کی اطاعت سے منع کرنے کا مقصد آپ کو ان سے مشورہ کرنے اور ان کو اہمیت دینے ان کو زیادہ مجالست کا موقع فراہم کرنے سے منع کیا گیا ہے اس لئے کہ بعض اوقات ایسے مشورے اور باہمی روابط بات ماننے کا سبب بن جایا کرتے ہیں اگرچہ آپ ﷺ سے ان کی بات مان لینے کا کوئی احتمال نہیں تھا مگر ان کو اپنے مشوروں میں شریک کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے، تو یہاں درحقیقت آپ کو اسباب اطاعت سے منع کیا گیا ہے نفس اطاعت کا تو آپ سے احتمال ہی نہ تھا۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ امور دین میں کفار سے مشورہ لینا بھی جائز نہیں دیگر امور جن کا تعلق تجربے یا مہارت وغیرہ سے ہو تو ان میں مشورہ لینے میں کوئی مضائفہ نہیں۔ (واللہ وعلم) ۔ ما۔۔۔ جوفہٖ سابقہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کو کفار و منافقین کے مشوروں پر عمل کرنے اور ان کو مشوروں میں شریک کرنے سے منع فرمایا تھا، آیات مذکورہ میں کفار میں چلی ہوئی رسموں اور باطل خیالات کی تردید ہے، پہلی بات یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ ایسے شخص کے بارے میں جو غیر معمولی ذہین ہو کر کہا کرتے تھے کہ اس کے سینے میں دو دل ہیں، چناچہ ابو معر جمیل بن اسد الفہری جو کہ نہایت ذہین شخص تھا اس کے بارے میں عرب کا یہی خیال تھا، اس کا لقب ہی ذوالقلبین پڑگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ منافقین کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ کے سینے میں دو قلب ہیں ایک ہمارے ساتھ ہے اور ایک مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے اس باطل خیال کی مذکورہ آیت میں تردید فرمائی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عرب میں یہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلیتا یعنی اس کو اپنی محرمات ابدیہ جیسا کہ ماں، بہن وغیرہ کے ساتھ تشبیہ دیدیتا تو اس کو ہمیشہ کے لئے حرام سمجھا جاتا تھا۔ تیسری بات یہ کہ عرب میں متبنیٰ کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا اور منہ بولا بیٹا تمام احکام میں حقیقی بیٹے کے مانند ہوتا تھا، مثلاً میراث میں حقیقی بیٹے کے مانند شریک ہوتا تھا، اور جس طرح نسبی رشتے بیٹے کے لئے حرام ہوتے ہیں اسی طرح متبنیٰ کے لئے بھی ان سے نکاح کرنا حرام سمجھا جاتا تھام جس طرح بیٹے کی بیوی سے طلاق دینے کے باوجود نکاح حرام ہے، اسی طرح متبنیٰ کی بیوی سے بھی نکاح حرام سمجھا جاتا تھا۔ زمانۂ جاہلیت کے یہ تین باطل خیالات اور رسوم تھیں جن میں سے پہلی بات کا تعلق مذہبی عقدے سے نہیں ہے یہ تو محض طبی اور فنی مسئلہ ہے کہ ایک شخص کے دو دل ہوسکتے ہیں یا نہیں اس کی تردید کی بھی چنداں ضرورت نہیں تھی، مگر اس کی تردید بقیہ دو مسئلوں کی تمہید و تائید کے طور پر کی گئی ہے، یعنی جس طرح اہل جاہلیت کا یہ کہنا باطل ہے کہ کسی شخص کے سینے میں دو دل ہوسکتے ہیں اور اس کے بطلان کو خاص و عام سب ہی جانتے ہیں، اسی طرح ظہار اور متبّٰنی کے مسائل میں بھی ان کے خیالات باطل ہیں، باقی دو مسئلے یعنی ظہار اور متبنیٰ کے احکام یہ ان معاشرتی اور عائلی مسائل میں سے ہیں جن کی اسلام میں خاص اہمیت ہے، حتی کہ ان کی جزئیات بھی حق تعالیٰ نے قرآن میں خود ہی بیان فرمائی ہیں۔ وما۔۔۔ امھاتکم یعنی یہ تمہارا خیال غلط ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو (حرمت کی نیت سے) ماں کے برابر یا مثل کہہ دیا تو وہ ماں کے برابر مثل کہہ دیا تو وہ ماں کی طرح اس کے واسطے ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی تمہارے کہنے سے بیوی حقیقی ماں نہیں ہوجاتی، تمہاری حقیقی ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے تم پیدا ہوئے ہو، اس آیت نے اہل جاہلیت کے اس خیال کو باطل کردیا کہ ظہار سے حرمت مؤبدہ ثابت ہوجاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ متبنی بیٹے کا ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی انسان کے دو دل نہیں ہوتے اور جس طرح بیوی ماں کہنے سے ماں نہیں بن جاتی اسی طرح متبنی بھی تمہارا حقیقی بیٹا ہوسکتا، یعنی متبنّٰی دوسرے حقیقی بیٹوں کیساتھ نہ میراث میں شریک ہوگا اور نہ حرمت نکاح کے سائل میں۔ چونکہ اس آخری معاملہ کا اثر بہت سے معاملات پر پڑتا ہے اسلئے یہ حکم نافذ کردیا گیا کہ متبنیّٰ بیٹے کو جب پکارو تو اصلی باپ کیطرف منسوب کرکے پکارو، کیونکہ اس سے بہت معاملات میں اشتباہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ہم نے زید بن حادثہ کو زید بن محمد کہنا چھوڑ دیا۔ النبی۔۔ بالمؤمنین (الآیۃ) نبی ﷺ مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہنچاتا ہے، اور کبھی نقصان، بخلاف رسول اللہ ﷺ کے کہ آپ کی تعلیم نفع ہی نفع ہے اور خیر ہی خیر ہے، اس لئے کہ اپنے نفس کو تو خیر و شر اور منفعت و مضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور نفس کو مصالح و مضار کا پورا علم نہیں، بخلاف رسول اللہ ﷺ کے کہ آپ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ ہی نہیں، جب نفع رسانی میں رسول اللہ ﷺ ہماری جان اور نفس سے بھی زیادہ ہیں تو ان کا حق بھی ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپ ﷺ کی تکریم و تعظیم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں، اپنی ذات سے بھی زیادہ ان پر شفیق و مہربان ہیں، اسی مناسبت سے آپ کی ازواج مطہرات کو کہ امت کی راحانی مائیں ہیں، یعنی ان کی تکریم و تعظیم اپنی حقیقی ماؤں کی طرح ہے۔ اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو امت کا روحانی باپ اور آپ کی ازواج کو امت کی مائیں قرار دیا ہے تو اس سے بھی اسی طرح کا التباس اور اشتباہ ہوسکتا تھا جس طرح کا اشتباہ متبنیّٰ کو اس کے غیر حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنے میں ہوتا تھا جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا کہ امت کے مسلمان سب آپس میں بھائی بہن ہوجائیں جس کی وجہ سے آپس میں نکاح کا تعلق حرام ہوجائے، اور میراث کے احکام میں بھی ہر مسلمان دوسرے کا وارث قرار دیا جائے، اس التباس کو دور کرنے کے لئے آیت کے آخر میں فرمایا وَاُولُوا الْاَرْحام بَعْضُھُمْ اولی ببعض (الآیۃ) کتاب اللہ یعنی حکم شرعی میں ایک دوسرے سے میراث کا بہ نسبت دیگر مومنین و مہاجرین کے زیادہ تعلق رکھتے ہیں، ابتداء ہجرت میں ایمانی اخوت کی بناء پر مہاجرین کو انصار کی میراث کا حق دار بنادیا گیا تھا مگر بالا آخر تقسیم میراث رشتہ داری اور ارحام کی بناء پر رہے گی، البتہ حسن سلوک رفیقوں اور دوستوں سے وصیت کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ یہ وصیت تہائی متروکہ مال سے زیادہ نہ ہو۔ (الآیۃ) میثاقِ انبیاء : واذ۔۔۔ میثاقھم . آیت مذکورہ میں جو انبیاء (علیہم السلام) سے عہد وقرار لینے کا ذکر ہے وہ اس اقرار عام کے علاوہ ہے جو تمام مخلوق سے لیا گیا تھا، جیسا کہ مشکوٰۃ میں بروایت امام احمد مرفوعاً آیا ہے، کہ خُصُّوْا بمیثاق الرسالۃ والنُّبوَّۃ وھو قولہ تعالیٰ واِذْ اَخذنا من النبیین میثاقَھم . (الآیۃ) یہ عہد انبیاء (علیہم السلام) سے نبوت و رسالت کے فرائض ادا کرنے اور باہم ایک دوسرے کی تصدیق اور مدد کرنے کا عہد تھا، جیسا کہ ابن جریروابن حاتم وغیرہ نے حضرت قتادہ سے روایت کیا ہے، اور ایک روایت میں اس عہد نامہ میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ سب اس کا بھی اعلان کریں کہ محمد رسول اللہ لا بنی بعدہٗ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، اور یہ میثاق انبیاء بھی ازل میں اسی وقت لیا گیا تھا، جب کی عام مخلوق سے الست بربکم کا عہد لیا گیا تھا (روح، مظہری) انبیاء (علیہم السلام) کے عام ذکر کے بعد ان میں پانچ انبیاء کا خصوصی ذکر ان کے اس خاص امتیاز و شرف کی بناء پر کیا گیا جو ان کو زمرۂ انبیاء میں حاصل ہے اور ان میں بھی آنحضرت ﷺ کو مقدم کیا گیا حالانکہ آپ کی بعثت سب کے بعد ہے اس کی وجہ خود حدیث میں بیان کی گئی ہے، کنتُ اول الناس فی الخلق و آخر ھم فی البعث دوسری وجہ یہ کہ آپ تمام انبیاء میں افضل ہیں اس لئے ذکراً بھی آپ کو مقدم کردیا۔
Top