Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی !
اتَّقِ اللّٰهَ
: آپ اللہ سے ڈرتے رہیں
وَلَا تُطِعِ
: اور کہا نہ مانیں
الْكٰفِرِيْنَ
: کافروں
وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ
: اور منافقوں
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
آیت نمبر 1 تا 8 ترجمہ : شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے اے نبی اللہ سے ڈرتے رہئے یعنی اس کے تقویٰ پر قائم رہئے اور کافروں اور منافقوں کی وہ باتیں نہ مانئے جو آپ کی شریعت کے خلاف ہوں اللہ تعالیٰ ہونے والی شئ کا اس کے ہونے سے پہلے علم رکھتے ہیں اور جو چیز پیدا فرماتے ہیں اس کے بارے میں حکیم ہیں اور آپ کے پروردگار کی طرف سے جو حکم اپ کی طرف بذریعہ وحی یعنی بذریعہ قرآن بھیجا جاتا ہے آپ اس پر چلتے رہئے بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے پوری طرح باخبر ہے ایک قراءت میں تائے فو قانیہ کے ساتھ ہے اور آپ اپنے معاملہ میں اللہ ہی پر توکل رکھئے اور اللہ کارسازی کے اعتبار سے کافی ہے آپ کا محافظ ہے، اور آپ کی امت کی ان تمام امور میں آپ کے تابع ہے اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے یہ رد ہے بعض کفار کے اس قول کا کہ فلاں شخص کے سینے میں دو دل ہیں وہ دونوں دلوں سے محمد ﷺ سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے اور اپنی جن بیبیوں سے تم ظہار کر بیٹھے ہو (یعنی حرمت کی نیت سے ماں کہہ بیٹھتے ہو) انہیں اللہ نے تمہاری (حقیقی) ماں نہیں بنایا اللَّائی ہمزہ اور ی اور بغیر ی دونوں قراءتیں ہیں تظھرون ھا سے پہلے الف اور بغیر الف دونوں صورتیں ہیں اور تاء ثانیہ اصل میں ظا میں مدعم ہے، کسی نے اپنی بیوی سے مثلاً (انتِ علیَّ کظھرِ امی) کہا یعنی ظہار کی وجہ سے حرمت میں (حقیقی) ماں کے مثل نہیں ہے ظہار کو جاہلیت میں طلاق شمار کرنے کی وجہ سے اور بلاشبیہ ظہار کی وجہ سے کفارہ اس کی شرط کے ساتھ واجب ہوتا ہے جیسا کہ سورة مجادلہ میں ذکر کیا گیا ہے اور نہ تمہارے متبنّاؤں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، اَدْعِیَاء دَعِئٌّ کی جمع ہے، اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ابن ہونے کی نسبت اس کے باپ کے بجائے غیر کی جانب کی گئی ہو اے یہود اور منافقو ! یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں، جب نبی ﷺ نے اپنے متبنیٰ زید بن حارثہ کی بیوی زینب بنت حجش سے نکاح کرلیا تو (یہود و منافق) نے کہا تھا کہ محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بارے میں تکذیب فرمائی اور اللہ اس معاملہ میں حق بات کہتا ہے اور وہ راہ (حق) کی جانب رہنمائی کرتا ہے لیکن تم متبنّاؤں کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارا کرو اللہ کے نزدیک صحیح بات یہی ہے اور اگر تم کو ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے چچا زاد بھائی ہیں اور اگر تم سے اس معاملہ میں بھول چوک ہوجائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں، البتہ گناہ وہ ہے کہ ممانعت کے بعد تم قصداً کرو اور ممانعت سے پہلے تم جو کچھ کہہ چکے ہو اللہ تعالیٰ برا ہی بخشنے والا ہے اور اس بارے میں تم پر مہربان ہے نبی مومنین پر خود کے نفسوں سے بھی زیادہ مشفق (مہربان) ہے ان چیزوں میں جن کی طرف وہ بلاتے ہیں اور ان کے نفوس اس کے خلاف کی بلاتے ہیں اور ان کی ازواج ان کی مائیں ہیں ان کے نکاح کے حرام ہونے میں اور ذوی الارحام یعنی قریبی رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے آپس میں زیادہ حقدار ہیں میراث کے معاملہ میں یعنی ایمان اور ہجرت کی وجہ سے ارث سے جو ابتداء اسلام میں تھی پھر منسوخ کردی گئی مگر یہ کہ اپنے دوستوں کے ساتھ وصیت کے ذریعہ کچھ سلوک کرنا چاہو تو جائز ہے اور یہ یعنی ایمان ایمان و ہجرت ایمان و ہجرت کی وجہ سے میراث کا حکم ذوی الارحام کے ذریعہ منسوخ ہونا کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے کتاب سے دونوں جگہ لوح محفوظ مراد ہے اور یاد کرو ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا جب کہ ان کو آدم (علیہ السلام) کی پشت سے چھوٹی چیونٹیوں کے مانند نکالا گیا تھا ذُرٌّ ذُرَّۃٌ کی جمع ہے نہایت چھوٹی چیونٹی کو کہتے ہیں، اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح (علیہ السلام) سے اور ابراہیم (علیہ السلام) سے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) سے (عہد لیا تھا) یہ کہ اللہ کی بندگی کریں گے اور لوگوں کو اس کی بندگی کی طرف دعوت دیں گے اور تخصیص کے طور پر ان پانچ ۃ انبیاء) کا ذکر عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے اور ہم نے ان سے ذمہ داری کو پورا کرنے کا نہایت پختہ عہد لیا تھا اور وہ (میثاق) اللہ تعالیٰ کی قسم تھی تاکہ اللہ تعالیٰ ان سچوں سے تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں سچ کے بارے میں دریافت کرے ان کے منکرین کو لاجواب کرنے کے لئے اور کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے یعنی تکلیف دہ، اس کا عطف اخذنا پر ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : یٰا یُّھَا النبی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو دیگر انبیاء کی مانند خطاب نہیں فرمایا، دیگر انبیاء کو خطاب فرمایا یا موسیٰ یا عیسیٰ یا داؤد، اس لئے کہ آپ ﷺ بلاشبہ افضل الخلق وعلی الاطلاق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تعظیم و اکرام کے الفاظ سے خطاب فرمایا ہے مثلاً فرماتا۔ یٰایھا النبی، یٰایُّھا الرَّسول اور اگر کہیں صراحۃ آپ سے نام کے بیان کرنے کی ضرورت پیش آئی تو معاً اس کے بعد کوئی کلمہ ذکر فرمایا جو تعظیم پر دلالت کرتا ہو، مثلاً فرمایا محمد رسول اللہ۔ وما محمد اِلَّا رسول وغیر ذٰلک۔ قولہ : دُمْ علی تقواہُ اس اضافہ کا مقصد تحصیل حاصل کے شبہ کا جواب ہے، اس لئے کہ آپ تو تقویٰ پر پہلے ہی سے تھے پھر آپ کو تقویٰ کا حکم دینا یہ تحصیل حاصل ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ مقصد تقویٰ پر قائم رہنے کا حکم ہے نہ کہ انشاء تقویٰ کا حکم اگرچہ آپ کو ہے مگر مراد امت ہے۔ قولہ : کَفیٰ بِاللہِ میں اللہ کفیٰ کا فاعل ہونے کی وجہ سے محل میں رفع کے ہے فاعل پر زائدہ ہے، وکیلاً تمیز ہے یا حال ہے۔ قولہ : وَمَا جَعَل اَدْعِیَاءَ کُمْ یہ آیت حضرت زیدبن شرحبیل کے بارے میں نازل ہوئی، دَعِیٌّ بمعنی مدّعُوٌّ یعنی مَفْعُوْلٌ دَعِیٌّ اصل میں دَعِیْوٌ تھا واؤ اور یا ایک جگہ جمع ہوئے یا ساکن ہے واؤ کو یا کیا اور یا کو یا میں ادغام کردیا دَعِیٌّ ہوگیا لیکن دَعیٌّ کی جمع اَدْعیاء خلاف قیاس ہے اس لئے کہ فَعِیْلٌ معتل لام کی جمع اَفعِلاءُ اس وقت آتی ہے فاعل کے معنی میں ہو جیسے تَقِیٌّ کی جمع اَتْقیاءُ اور غنِیٌّ کی جمع اغنیاءُ دَعِیٌّ اگرچہ معتل لام ہے مگر بمعنی مفعول لہٰذا قیاس یہ تھا کہ اس کی جمع اَدْعٰی برودن فَعْلیٰ ہو جیسے قتیلٌ کی جمع قَتْلیٰ اور جَریح کی جمع جرحی آتی ہے، لہٰذا یہ شاذ ہے۔ قولہ : بَنُوْ عَسِّکُمْ ۔ مَوَالیکم کی تفسیر بنو عمکم سے کرنے کا مقصد معنی کی تعیین ہے اس لئے کہ مولیٰ کے بہت سے معنی آتے ہیں، منجملہ ان کے ابن عم بھی ہیں، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا تھا انی خِفْتُ المَوَالِیَ منْ ورَانی یہاں مَوَالِی سے بنو عم مراد ہیں۔ قولہ : مَا تَعَمّدَتْ میں ما یا تو دابق ما پر عطف کی وجہ سے محلا مجرور ہے یا ابتداء کی وجہ سے مرفوع ہے اور خبر محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی ولٰکن ما تعمدت تُواخَذُوْنَ بہ اَرْحامٌ جمع رَحْمٍ بمعنی قرابت اوْلیٰ بِبَعْضٍ ای بِاِرْثِ بعضٍ شارح نے فی الارث کا اضافہ حذف مضاف کی طرف اشارہ کرنے کے لے کیا ہے فی کتاب اللہ اَوْلیٰ سے متعلق ہے ای ھذہ الا ولویۃ ثابت فی کتاب اللہ من المؤمنین کا تعلق بھی اَوْلیٰ کے ساتھ ہے یعنی قرابت دار مومنین اجانب مہاجرین سے ارث کے زیادہ مستحق ہیں اِلّا اَنْ تَفْعَلُوْاشارح (رح) تعالیٰ نے اِلاَّ لہ تفسیر لکن سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ قولہ : اَنّ تفعّلُوْا بتاویل مصدر ہو کر مبتداء ہے اور اس کی خبر محذوف ہے شارح (رح) تعالیٰ نے فجائزٌ مقدر مان کر حذف خبر کی جانب اشارہ کردیا، تَفْعَلوا چونکہ تَوَصَّلُوْا کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا اس کا صلہ الیٰ لانا درست ہے۔ قولہ : باِرْثِ ذَوی الارحام یہ نسخٌ سے متعلق ہے۔ قولہ : وَاِذْا اَخَذْنَا یہ اذکر محذوف کی وجہ سے محلا منصوب بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ فی الکتاب کے محل پر عطف ہو تو اس وقت عامل مسطورًا ہوگا ای کان ھٰذا الحکم مسطورًا فی الکتاب وقت اَخْذنا . قولہ : واَعَدَّ اس کا عطف اَخَذْنَا پر ہے۔ تفسیر وتشریح سورة احزاب بالاتفاق مدنی ہے اس میں تہتر آیتیں ہیں، اس سورت میں چونکہ واقعۂ غزوۂ احزاب مذکور ہے اس لئے اس کا نام سورة احزاب رکھا گیا، اس کے بیشتر مضامین نبی کریم ﷺ اور صحابہ کی مدح نیز منافقین کی مذمت و شاعت پر مشتمل ہیں، یہ سورة سورة بقرہ کے برابر تھی اور اسی میں آیت رجم الشیخُ والشیٰخۃُ اِذَا زَنَیَا فارْ جُمو ھما البتۃ نکَالاً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ تھی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے موجودہ مقدار کے علاوہ بقیہ کو اٹھالیا، روافض کہتے ہیں کہ سورة احزاب کا کچھ حصہ ایک صحیفہ پر مکتوب تھا جو حضرت عائشہ (صدیقہ) کے گھر میں تھا اس کو بکری کھا گئی، یہ قول روافض اور زنادقہ کی تصنیف ہے، آیت رجم کے الفاظ اگرچہ منسوخ ہوگئے مگر حکم باقی ہے۔ (جمل) شان نزول : اس سورت کے شان نزول میں چند واقعات منقول ہیں : (1) پہلا واقعہ : یہ کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف فرمائے، تو مدینہ کے آس پاس یہود کے قبائل بنو قریظہ، بنو نضیر، بنو قینقاع وغیرہ آباد تھے، آپ ﷺ کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ کسی طرح یہ لوگ مسلمان ہوجائیں، اتفاقاً ان یہودیوں میں سے چند آدمی آپ کی خدمت میں آنے لگے، اور منافقانہ طور پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگے، آپ ﷺ نے اس کو غنیمت سمجھا کہ کچھ لوگ اگر مسلمان ہوجائیں تو دوسروں کو دعوت دینا آسان ہوجائے گا، اس لئے آپ ان کے ساتھ خاص مدارات کا معاملہ فرماتے تھے اور ان کے آنے والے ہر چھوٹے بڑے کا اکرام فرماتے اور ان کی بعض غلطیوں کو نظر انداز بھی فرماتے، اس واقعہ پر سورة احزاب کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی) (2) دوسرا واقعہ : ابن جریر نے حضرت عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ بن ربیعہ مدینہ طیبہ آئے اور آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ ہم فریش مکہ کے نصف اموال آپ کو دیدیں گے اگر آپ اپنے دعوے کو چھوڑ دیں، اور مدینہ طیبہ کے منافقین اور یہود نے آپ ﷺ کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر آپ نے اپنے دعوائے نبوت سے رجوع نہ کیا تو ہم آپ کو قتل کردیں گے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (روح) (3) تیسرا واقعہ : روایت کیا گیا ہے کہ ابوسفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل اور ابوالاعور سلمی اس زمانہ میں جبکہ صلح حدیبہ کی وجہ سے آپس میں ناجنگ معاہدہ ہوچکا تھا، مدینہ طیبہ آئے اور عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین کے یہاں اترے، اور آپ ﷺ نے ان کو ملاقات کرنے اور گفتگو کرنے کی اجازت دیدی، ان کے ساتھ عبداللہ بن ابی سرح اور طعمہ بن ابیرق بھی آئے حضرت عمر ؓ اس وقت آپ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے، ان حضرات نے گفتگو کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ ہمارے معبودوں کا برائی سے ذکر کرنا چھوڑ دیں اور صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ بت بھی اپنے عابدین کی شفاعت کریں گے، اگر آپ اتنا کریں تو ہم آپ کو اور آپ کے رب کو چھوڑ دیں گے، جھگڑا ختم ہوجائے گا، یہ بات آپ کو اور مسلمانوں کو سخت ناگوار ہوئی، حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ اجازت دیجئے میں ان کو قتل کردوں، آپ نے فرمایا میں ان سے معاہدۂ امن کرچکا ہوں، اس لئے ایسا نہیں ہوسکتا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (روح و اعراب القرآن للدرویش ملخصاً ) یہ روایات اگرچہ مختلف ہیں مگر ان میں کوئی تضاد نہیں یہ واقعات بھی نزول کا سبب ہوسکتے ہیں۔ ان آیتوں میں رسول اللہ ﷺ کو دو حکم دیئے گئے ہیں : (1) اِتَّقِ اللہَ یعنی اللہ سے ڈرتے رہو، (2) لاَتُطِعِ الکافرینَ یعنی کافروں کا کہنا نہ مانو، اللہ سے ڈرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا قتل عہد شکنی ہے جو حرام ہے، اور کفار کی بات نہ ماننے کا حکم اس لئے کہ ان تمام واقعات میں کفار کی جو فرمائشیں ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں، مذکورہ دونوں حکموں پر اگرچہ آپ پہلے ہی سے عامل تھے اس کے باوجود حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ کی طرح آئندہ بھی پابندرہئے۔ (روح ) بعخض مفسرین نے فرمایا کہ مذکورہ آیات میں اگرچہ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے مگر مراد امت ہے آپ تو معصوم تھے آپ سے احکام الہٰیہ کی خلاف ورزی کا کوئی احتمال نہیں تھا، مگر قانوں پوری امت کے لئے ہے۔ ابن کثر (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ اس آیت میں کفار و مشرکین کی اطاعت سے منع کرنے کا مقصد آپ کو ان سے مشورہ کرنے اور ان کو اہمیت دینے ان کو زیادہ مجالست کا موقع فراہم کرنے سے منع کیا گیا ہے اس لئے کہ بعض اوقات ایسے مشورے اور باہمی روابط بات ماننے کا سبب بن جایا کرتے ہیں اگرچہ آپ ﷺ سے ان کی بات مان لینے کا کوئی احتمال نہیں تھا مگر ان کو اپنے مشوروں میں شریک کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے، تو یہاں درحقیقت آپ کو اسباب اطاعت سے منع کیا گیا ہے نفس اطاعت کا تو آپ سے احتمال ہی نہ تھا۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ امور دین میں کفار سے مشورہ لینا بھی جائز نہیں دیگر امور جن کا تعلق تجربے یا مہارت وغیرہ سے ہو تو ان میں مشورہ لینے میں کوئی مضائفہ نہیں۔ (واللہ وعلم) ۔ ما۔۔۔ جوفہٖ سابقہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کو کفار و منافقین کے مشوروں پر عمل کرنے اور ان کو مشوروں میں شریک کرنے سے منع فرمایا تھا، آیات مذکورہ میں کفار میں چلی ہوئی رسموں اور باطل خیالات کی تردید ہے، پہلی بات یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ ایسے شخص کے بارے میں جو غیر معمولی ذہین ہو کر کہا کرتے تھے کہ اس کے سینے میں دو دل ہیں، چناچہ ابو معر جمیل بن اسد الفہری جو کہ نہایت ذہین شخص تھا اس کے بارے میں عرب کا یہی خیال تھا، اس کا لقب ہی ذوالقلبین پڑگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ منافقین کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ کے سینے میں دو قلب ہیں ایک ہمارے ساتھ ہے اور ایک مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے اس باطل خیال کی مذکورہ آیت میں تردید فرمائی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عرب میں یہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلیتا یعنی اس کو اپنی محرمات ابدیہ جیسا کہ ماں، بہن وغیرہ کے ساتھ تشبیہ دیدیتا تو اس کو ہمیشہ کے لئے حرام سمجھا جاتا تھا۔ تیسری بات یہ کہ عرب میں متبنیٰ کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا اور منہ بولا بیٹا تمام احکام میں حقیقی بیٹے کے مانند ہوتا تھا، مثلاً میراث میں حقیقی بیٹے کے مانند شریک ہوتا تھا، اور جس طرح نسبی رشتے بیٹے کے لئے حرام ہوتے ہیں اسی طرح متبنیٰ کے لئے بھی ان سے نکاح کرنا حرام سمجھا جاتا تھام جس طرح بیٹے کی بیوی سے طلاق دینے کے باوجود نکاح حرام ہے، اسی طرح متبنیٰ کی بیوی سے بھی نکاح حرام سمجھا جاتا تھا۔ زمانۂ جاہلیت کے یہ تین باطل خیالات اور رسوم تھیں جن میں سے پہلی بات کا تعلق مذہبی عقدے سے نہیں ہے یہ تو محض طبی اور فنی مسئلہ ہے کہ ایک شخص کے دو دل ہوسکتے ہیں یا نہیں اس کی تردید کی بھی چنداں ضرورت نہیں تھی، مگر اس کی تردید بقیہ دو مسئلوں کی تمہید و تائید کے طور پر کی گئی ہے، یعنی جس طرح اہل جاہلیت کا یہ کہنا باطل ہے کہ کسی شخص کے سینے میں دو دل ہوسکتے ہیں اور اس کے بطلان کو خاص و عام سب ہی جانتے ہیں، اسی طرح ظہار اور متبّٰنی کے مسائل میں بھی ان کے خیالات باطل ہیں، باقی دو مسئلے یعنی ظہار اور متبنیٰ کے احکام یہ ان معاشرتی اور عائلی مسائل میں سے ہیں جن کی اسلام میں خاص اہمیت ہے، حتی کہ ان کی جزئیات بھی حق تعالیٰ نے قرآن میں خود ہی بیان فرمائی ہیں۔ وما۔۔۔ امھاتکم یعنی یہ تمہارا خیال غلط ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو (حرمت کی نیت سے) ماں کے برابر یا مثل کہہ دیا تو وہ ماں کے برابر مثل کہہ دیا تو وہ ماں کی طرح اس کے واسطے ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی تمہارے کہنے سے بیوی حقیقی ماں نہیں ہوجاتی، تمہاری حقیقی ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے تم پیدا ہوئے ہو، اس آیت نے اہل جاہلیت کے اس خیال کو باطل کردیا کہ ظہار سے حرمت مؤبدہ ثابت ہوجاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ متبنی بیٹے کا ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی انسان کے دو دل نہیں ہوتے اور جس طرح بیوی ماں کہنے سے ماں نہیں بن جاتی اسی طرح متبنی بھی تمہارا حقیقی بیٹا ہوسکتا، یعنی متبنّٰی دوسرے حقیقی بیٹوں کیساتھ نہ میراث میں شریک ہوگا اور نہ حرمت نکاح کے سائل میں۔ چونکہ اس آخری معاملہ کا اثر بہت سے معاملات پر پڑتا ہے اسلئے یہ حکم نافذ کردیا گیا کہ متبنیّٰ بیٹے کو جب پکارو تو اصلی باپ کیطرف منسوب کرکے پکارو، کیونکہ اس سے بہت معاملات میں اشتباہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ہم نے زید بن حادثہ کو زید بن محمد کہنا چھوڑ دیا۔ النبی۔۔ بالمؤمنین (الآیۃ) نبی ﷺ مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہنچاتا ہے، اور کبھی نقصان، بخلاف رسول اللہ ﷺ کے کہ آپ کی تعلیم نفع ہی نفع ہے اور خیر ہی خیر ہے، اس لئے کہ اپنے نفس کو تو خیر و شر اور منفعت و مضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور نفس کو مصالح و مضار کا پورا علم نہیں، بخلاف رسول اللہ ﷺ کے کہ آپ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ ہی نہیں، جب نفع رسانی میں رسول اللہ ﷺ ہماری جان اور نفس سے بھی زیادہ ہیں تو ان کا حق بھی ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپ ﷺ کی تکریم و تعظیم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں، اپنی ذات سے بھی زیادہ ان پر شفیق و مہربان ہیں، اسی مناسبت سے آپ کی ازواج مطہرات کو کہ امت کی راحانی مائیں ہیں، یعنی ان کی تکریم و تعظیم اپنی حقیقی ماؤں کی طرح ہے۔ اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو امت کا روحانی باپ اور آپ کی ازواج کو امت کی مائیں قرار دیا ہے تو اس سے بھی اسی طرح کا التباس اور اشتباہ ہوسکتا تھا جس طرح کا اشتباہ متبنیّٰ کو اس کے غیر حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنے میں ہوتا تھا جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا کہ امت کے مسلمان سب آپس میں بھائی بہن ہوجائیں جس کی وجہ سے آپس میں نکاح کا تعلق حرام ہوجائے، اور میراث کے احکام میں بھی ہر مسلمان دوسرے کا وارث قرار دیا جائے، اس التباس کو دور کرنے کے لئے آیت کے آخر میں فرمایا وَاُولُوا الْاَرْحام بَعْضُھُمْ اولی ببعض (الآیۃ) کتاب اللہ یعنی حکم شرعی میں ایک دوسرے سے میراث کا بہ نسبت دیگر مومنین و مہاجرین کے زیادہ تعلق رکھتے ہیں، ابتداء ہجرت میں ایمانی اخوت کی بناء پر مہاجرین کو انصار کی میراث کا حق دار بنادیا گیا تھا مگر بالا آخر تقسیم میراث رشتہ داری اور ارحام کی بناء پر رہے گی، البتہ حسن سلوک رفیقوں اور دوستوں سے وصیت کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ یہ وصیت تہائی متروکہ مال سے زیادہ نہ ہو۔ (الآیۃ) میثاقِ انبیاء : واذ۔۔۔ میثاقھم . آیت مذکورہ میں جو انبیاء (علیہم السلام) سے عہد وقرار لینے کا ذکر ہے وہ اس اقرار عام کے علاوہ ہے جو تمام مخلوق سے لیا گیا تھا، جیسا کہ مشکوٰۃ میں بروایت امام احمد مرفوعاً آیا ہے، کہ خُصُّوْا بمیثاق الرسالۃ والنُّبوَّۃ وھو قولہ تعالیٰ واِذْ اَخذنا من النبیین میثاقَھم . (الآیۃ) یہ عہد انبیاء (علیہم السلام) سے نبوت و رسالت کے فرائض ادا کرنے اور باہم ایک دوسرے کی تصدیق اور مدد کرنے کا عہد تھا، جیسا کہ ابن جریروابن حاتم وغیرہ نے حضرت قتادہ سے روایت کیا ہے، اور ایک روایت میں اس عہد نامہ میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ سب اس کا بھی اعلان کریں کہ محمد رسول اللہ لا بنی بعدہٗ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، اور یہ میثاق انبیاء بھی ازل میں اسی وقت لیا گیا تھا، جب کی عام مخلوق سے الست بربکم کا عہد لیا گیا تھا (روح، مظہری) انبیاء (علیہم السلام) کے عام ذکر کے بعد ان میں پانچ انبیاء کا خصوصی ذکر ان کے اس خاص امتیاز و شرف کی بناء پر کیا گیا جو ان کو زمرۂ انبیاء میں حاصل ہے اور ان میں بھی آنحضرت ﷺ کو مقدم کیا گیا حالانکہ آپ کی بعثت سب کے بعد ہے اس کی وجہ خود حدیث میں بیان کی گئی ہے، کنتُ اول الناس فی الخلق و آخر ھم فی البعث دوسری وجہ یہ کہ آپ تمام انبیاء میں افضل ہیں اس لئے ذکراً بھی آپ کو مقدم کردیا۔
Top