Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: ایمان والو
اذْكُرُوْا
: یاد کرو
نِعْمَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی نعمت
عَلَيْكُمْ
: اپنے اوپر
اِذْ جَآءَتْكُمْ
: جب تم پر (چڑھ) آئے
جُنُوْدٌ
: لشکر (جمع)
فَاَرْسَلْنَا
: ہم نے بھیجی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
رِيْحًا
: آندھی
وَّجُنُوْدًا
: اور لشکر
لَّمْ تَرَوْهَا ۭ
: تم نے انہیں نہ دیکھا
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِمَا
: اسے جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
بَصِيْرًا
: دیکھنے والا
مومنو ! خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جو (اس نے) تم پر (اس وقت کی) جب فوجیں تم پر حملہ کرنے کو) آئیں تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل) کئے جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان کو دیکھ رہا ہے
آیت نمبر 9 تا 20 ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ کے انعام کو یاد کرو جبکہ تم پر کفار کے بہت سے لشکر خندق کھودنے کے ایام میں (متحدہ محاذ) بنا کر چڑھ آئے تھے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور فرشتوں کی ایسی فوج بھیجی کہ جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے خندق وغیرہ کھودنے کے عمل کو دیکھ رہا تھا (تعلمون) میں تا اور یاء کے ساتھ اور مشرکین کی گروہ بندی (متحدہ محاذ) کو دیکھ رہا تھا، جبکہ (دشمن) تمہارے اوپر یعنی وادی کے اوپر کی جانب سے اور نیچے کی جانب سے چڑھ آئے تھے یعنی مشرق و مغرب کی جانب سے اور جبکہ آنکھیں پھٹی رہ گئی تھیں (یعنی) ہر طرف سے چڑھ آنے والے اپنے دشمن کی طرف لگی ہوئی تھیں اور شدت خوف کی وجہ سے کلیجے منہ کو آنے لگے تھے (حناجر) حنجرۃ کی جمع ہے حنجرۃ حلق کے آخری حصہ کو کہتے ہیں اور تم اللہ کی نسبت مدد اور ناامیدی کے طرح طرح کے گمان کررہے تھے اس موقع پر مومنوں کو ازمایا گیا تاکہ مخلص غیر مخلص سے ممتاز ہوجائے اور شدید خوف کے شدید زلزلے میں ڈالے گئے اور اس وقت کے رسول نے نصرت کا محض دھوکے کا وعدہ کیا ہے اور جبکہ ان میں یعنی منافقوں میں سے ایک جماعت نے کہا اے یثرب والو ! یہ مدینہ کے علاقہ کا نام ہے علمیت اور وزن فعل کی وجہ سے غیر منصرف ہے کہ تمہارے لئے ٹھہرنے کا موقع نہیں (مقام) میں میم کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ نہ ٹھہرنے کا مقام اپنے گھروں یعنی مدینہ لوٹ چلو اور یہ لوگ آپ ﷺ کے ساتھ جہاد کے لئے مدینہ سے باہر جبل سلع تک تھے، اور ان میں سے بعض لوگ نبی سے یہ کہہ کر واپس لوٹنے کی اجازت طلب کررہے تھے کہ ہمارے گھر خالی (یعنی) غیر محفوظ ہیں ہمیں اپنے گھروں کے بارے میں (دشمن) کا اندیشہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں، ان کا ارادہ قتال سے بھاگ کھڑے ہونے ہی کا تھا اور اگر مدینہ میں ان کے اوپر اطراف (مدنیہ) سے لشکر چڑھا دیئے جائیں پھر ان سے داخل ہونے والے فتنہ شرک کا مطالبہ کریں تو یہ اس کو منظور کرلیں (لآتوھا) میں مد اور قصر دونوں ہیں یعنی اس کو منظور کرلیں اور کر گذریں اور گھر میں بہت ہی کم ٹھہریں حالانکہ لوگ پہلے اللہ سے عہد کرچکے ہیں کہ پیٹھ نہ پھریں گے اللہ سے جو عہد کیا جاتا ہے اس کی وفا کے بارے میں باز پرس ہوگی، آپ فرما دیجئے کہ تم کو بھاگنا کچھ فائدہ نہ دے گا اگر تم موت سے یا قتل سے بھاگتے ہو اور اگر تم بھاگے تو فرار کے بعد دنیا میں بجز تھوڑے دنوں کے یعنی بجز بقیہ مدت حیات کے مستفید نہیں ہوسکتے اور یہ بھی فرمادیجئے کہ وہ کون ہے جو تم کو اللہ سے بچا سکے اگر وہ تمہارے ساتھ برائی یعنی ہلاکت یا ہزیمت کا ارادہ کرے یا وہ کون ہے جو تم کو تکلیف پہنچاسکے اگر اللہ تمہارے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا چاہیے ؟ اور نہ خدا کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائیں گے کہ ان کو نفع پہنچاسکے اور نہ مددگار کہ ان سے ضرر کو دفع کرسکے اللہ تعالیٰ تم میں سے ان کو جانتا ہے جو دوسروں کو روکنے والے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ، اور لڑائی میں شریک نہیں ہوتے مگر بہت کم دکھانے اور سنانے (ریاکاری) کے لئے، معاونت کے بارے میں تمہارے حق میں پورے بخیل ہیں اَشِحَّۃٌ شحیحٌ کی جمع ہے، اور وہ یاتون کی ضمیر سے حال ہے اور جب خوف کا موقع آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھنے لگتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چکرا جاتی ہیں، اس شخص کی نظر کے مانند یا اس شخص کے چکر انے کے مانند کہ جس پر نزع کی بیہوشی چھاگئی ہو اور جب خوف جاتا رہتا ہے اور اموال غنیمت جمع کئے جاتے ہیں تو تم کو تیز تیز زبانوں سے ایزاء پہنچاتے ہیں طعنے دیتے ہیں اور مال غنیمت پر بڑے حریص ہیں اس کا مطالبہ کرتے ہیں یہ لوگ حقیقت میں ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال بیکار کردیئے اور یہ بیکار کرنا اللہ کے لئے اس کی مشیئت سے بہت آسان ہے ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کافروں کی یہ جماعتیں ابھی مکہ مکرمہ گئی نہیں ہیں ان سے خوف زدہ ہونے کی وجہ سے اور اگر (بالفرض) یہ جماعتیں پھر لوٹ آئیں تو یہ اس بات کو پسند کریں کہ کاش ہم دیہاتوں میں باہر جا رہیں یعنی دیہاتوں میں سکونت اختیار کرلیں، اور کافروں کے ساتھ تمہاری لڑائی کی خبریں معلوم کرتے رہیں اور اگر اس مرتبہ بھی تمہارے ساتھ ہوتے تو بھی بہت کم لڑتے ریا کاری کے طور پر طور اور عار کے خوف سے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسری فوائد قولہ : جُبُوْدٌ جمع جُنْدٍ بمعنی لشکر، قریش، غطفان، اور یہود بنی نضیر وغیرہ کے لشکر مراد ہیں۔ قولہ : اِذ جاءَ تْکُمْ ۔ نِعْمَۃَاللہ سے بدل ہے، اس میں عامل اُذکُرُوْا ہے۔ قولہ : مُتَحَزِّبُوْنَ ای مُجْتَمِعُوْنَ . متحدہ محاذ۔ قولہ : اِذْ جاء وکمْ یہ اِذْ جَاءَ نْکُمْ سے بدل ہے، ظُنُوْنَا میں نافع اور ابن عامر اور ابوبکر نے مصحف امام (یعنی مصحف عثمانی) کی رعایت کرتے ہوئے وقفًا وو صْلاً الف کے ساتھ پڑھا ہے اور ابو عمر و حمزہ نے دونوں حالتوں میں حذف الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ قولہ : بالنصْرِوالیاسِ نصرت کی امید رکھنے والے مومنین مخلصین تھے اور ناامید ہونے والے منافقین تھے۔ قولہ : زِلْزَالاً زا کے کسرہ کے ساتھ یہ عام قراءت ہے اور بعض حضرات نے زا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اس لئے کہ فِعْلاَلٌ کے مصدر آتے ہیں جیسے زِلْذَالٌ، قِلْقَالٌ، وصِلْصَالٌ کبھی زَالزَالٌ بالفتحہ اسم فاعل کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسے زَلْزَال بمعنی مُزَلْزِلٌ۔ قولہ : اِذقالت طائفۃ قائل منافق اوس بن قیظِیْ اور اس کے اصحاب ہیں لاَ مُقَامَ قراءت حفص میں میم کے ضمہ کے ساتھ ہے اور بقیہ حضرات کے نزدیک فتحہ کے ساتھ ہے، قول الشارح لاَ اِقَامَۃَ بمعنی ٹھہرنا مُقَامٌ بالضمہ کی تفسیر ہے اور لاَ مَکَانَۃَ بمعنی قیام یہ مقام بالفتح کی تفسیر ہے۔ قولہ : یَثْرِبَ حدیث شریف میں مدینہ کو یثرب کہنے سے منع کیا گیا ہے اس لئے کہ یہ ثِرْبٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ملامت اور تعَفُّف کے ہیں، کہا گیا کہ قوم عمالقہ کا ایک شخص جس کا نام یَثْرِبْ تھا وہ اس جگہ سب سے پہلے فرد کش ہوا تھا، اسی وجہ سے اس مقام کا نام یثرب ہوگیا، آپ ﷺ نے اس کا نام طَیْبَۃ، طابۃ، قُبَّۃَ الا سلام اور دارالھجرت رکھا۔ (اعراب القرآن للدرویش ملخصًا) قولہ : سَلَعٌ مدینہ کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے اور شارح کا قول جبلٍ خارجِ المدینۃ سَلَعٌ کی تفسیر ہے۔ قولہ : فارجعوا میں فافصیحہ ہے ای ان سمِعْتم سُصْحِی فارْ جِعُوْا یعنی اگر تم نے میری نصیحت سن لی تو لوٹ جاؤ اور وَیَسْتَاذِن کا عطف قالَتْ پر ہے، حکایت حال ماضیہ کے طور پر مضارع کا صیغہ لایا گیا ہے یقولون جملہ حالیہ یا مفسرہ ہے جو یَسْتأذِنُ کی تفسیر کررہا ہے۔ قولہ : وَلَوْ دُخِلَتِ المَدینۃ ای لَوْ دَخَلَتِ الا حزاب المدینۃَ ثم سُئِلُوْ ا ای المنافقون . قولہ : الْفِتْنَۃَ ای الکُفْرَ وَالّردۃَ ۔ قولہ : لاَ تَوْھَا میں لام جواب قسم پر داخل ہے یعنی کفر وردۃ کو فوراً تاخیر بلاتا خیر منظور کرلیں اور بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کفروردۃ کا مطالبہ پورا کرنے کے بعد مدینہ میں زیادہ وقت نہ ٹھہرسکیں گے فوراً ہی نکالدیئے جائیں تا قتل کردیئے جائیں گے۔ (بیضاوی، جمل) قولہ : لاَیُوَلُّوْنَ یہ جواب قسم ہے اس لئے کہ عَاھَدُوْا معنی اَقْسَمُوْا کے ہے۔ قولہ : اِنْ فررتم شرط ہے اس کا جواب لن ینفعکم مقدم ہے یا ماقبل کی دلالت کی وجہ سے محذوف بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : اَلمُعَوِّقِیْنَ یہ مُعَوِّقٌ اسم فاعل کی جمع ہے اس کے معنی ہیں روکنے والے۔ قولہ : ھَلُمَّ ای تَعَالَوْا ھَلُمَّ نبی تمیم اور حجازیین کے نزدیک فعل امر ہے مگر فرق یہ ہے کہ بنو تمیم کے نزدیک اس پر علامات تثنیہ و جمع و تذکیر و تانیث لاحق ہوتی ہیں یعنی ھَلُمُّوا ھَلُمّتْ وغیرہ کہہ سکتے ہیں، اور حجازیین کے نزدیک اسکا صرف واحد مذکر ہی کا صیغہ آتا ہے، شارح (رح) تعالیٰ نے ھَلُمَّ کی تفسیر تعالوا سے کرکے اس بات کیطرف اشارہ کردیا کہ وہ ھَلُمَّ کے بارے میں حجازی مذہب کے قائل ہیں۔ قولہ : اَشِحَّۃً یہ شحیحٌ کی جمع ہے اس کے معنی ہیں حریص مع البخل، اَشِحَّۃً ، منصوب بالذم ہے یا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے بعض حضرات نے ھم مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع بھی پڑھا ہے۔ قولہ : رأیتَھُمْ الَیْکَ یہ منافقین کی بزدلی اور ان کے خوف کی کیفیت کا بیان ہے، بزدلی اور خوف کی دو وجہیں تھیں، اول مشرکین کے ساتھ کا خوف دوسرے آنحضرت ﷺ کے غالب ہوجانے کا خوف، یَنْظرونَ اِلَیْکَ خوفًا من القتال کا تعلق پہلی صورت سے ہے اور تَدُوْرُ اَعْیُنُھُمْ کا تعلق دوسری صورت سے ہے۔ قولہ : ینظرون جملہ حالیہ ہے اس لئے کہ مراد رویت بصریہ ہے۔ قولہ : کنظرٍ او دَوْرانٍ شارح کا مقصد اس عبارت سے یہ بتانا ہے کہ کا لَّذِیْ یُغْشیٰ علیہ میں دو صورتیں ہیں اول یہ کہ یہ یَنْظُرُوْنَ کے مصدر محذوف کی صفت ہو ای منظُرُوْنَ الَیْکَ نظرًا کنظر الَّذِیْ یُغشیٰ علیہ دوسرے یہ کہ تدُوْرُ کے مصدر محذوف کی صفت ہو ای تَدُورُ دَوْرانًا کدوران عین الَّذِیْ یُغشیٰ علیہ . قولہ : سلَقَ (ض) سلقا زبان سے تیزبات سلَقَہٗ بالکلام اس کو تیز بات کہی، طعنہ دیا۔ قولہ : بادُوْنَ یہ بادٍ کی جمع ہے، دیہاتی، دیہات کا باشندہ، یعنی کاش وہ دیہات کے باشندے ہوتے یَسئلُوْنَ جملہ ہو کر بادُوْنَ کی خبر ہے۔ تفسیر وتشریح غزوۂ احزاب اور اس کا پس منظر : سابقہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت شان اور مسلمانوں کو آپ کی مکمل اتباع و اطاعت کی ہدایت تھی، اسی کی مناسبت سے یہ پورے دو رکوع قرآن کے غزوۂ احزاب کے واقعہ سے متعلق نازل ہوئے ہیں، جس میں کفار و مشرکین کی بہت سی جماعتوں کا مسلمانوں پر یکبارگی متحدہ محاذ کی شکل آور ہونے اور سخت نرغہ کے بعد مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور رسول ﷺ کے متعدد معجزات کا ذکر ہے۔ غزوۂ احزاب کی تفصیل : ان آیات میں غزوۂ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو شوال 4 ھ تا 5 ھ مطابق 627 ء میں پیش آیا، امام بخاری (رح) تعالیٰ کے علاوہ جمہور مؤرخین اور مفسرین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ 5 ھ میں واقع ہوا، تمام ائمہ مغازی اور علماء تاریخ و سر کا اسی پر اتفاق ہے، حافظ ذہبی اور حافظ ابن قیم فرماتے ہیں، یہی قول قابل اعتماد اور صحیح ہے۔ (سیرت المصطفیٰ ) غزوۂ احزاب اور اس کا سبب : اس غزوۂ احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس غزوہ میں تمام اسلام دشمن جماعتیں متحدہ محاذ بنا کر مسلمانوں کے مرکز مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئی تھیں، احزاب حزبٌ کی جمع ہے بمعنی گروہ، اسی غزوۂ کو غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینہ کے اطراف میں حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینہ میں داخل نہ ہوسکے۔ غزوۂ احزاب کا باعث اور سبب یہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کے قبیلہ بنو نضیر کو ان کی مسلسل بدعہدیوں اور آپ ﷺ کے قتل کی سازش کی وجہ سے جلاوطن کردیا تھا، یہ مدینہ سے نکل کر خیبر میں جا کر آباد ہوگیا تھا، یہودی اسلام اور مسلمانوں سے نہایت ہی بغض و عداوت رکھتے تھے، چناچہ بنو نضیر کے سر کردہ لوگوں کا ایک وفد جو کہ بیس افراد پر مشتمل تھا ان کے سردار حیی بن اخطب کی سر کردگی میں مشرکین مکہ کو آپ ﷺ سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے روانہ ہوا، مکہ پہنچ کر قریشی سرداروں سے ملاقات کرکے انکو مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کیا، قریشی سردار سمجھے تھے کہ جس طرح مسلمان ہماری بت پرستی کو کفر کہتے ہیں اور اسیلئے ہمارے مذہب کو برا سمجھتے ہیں، یہود کا بھی یہی خیال ہے، تو انسے موافقت اور اتحاد کی کیا توقع رکھی جائے ؟ اسلئے ان لوگوں نے یہود سے سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے اور محمد ﷺ کے درمیان دین و مذہب کا اختلاف ہے اور آپ لوگ اہل کتاب اور اہل علم ہیں، پہلے یہ بتلایئے کہ آپ لوگوں کے نزدیک ہمارا دین بہتر ہے یا مسلمانوں کا ؟ سیاست میں جھوٹ کوئی نئی چیز نہیں : ان یہودیوں نے اپنے علم اور ضمیر کے بالکل برخلاف ان کو یہ جواب دیا کہ تمہارا دین محمد ﷺ کے دین سے بہتر ہے، اس پر یہ لوگ کچھ مطمئن ہوئے، مگر اس پر یہ طے ہوا کہ آنے والے یہ بیس آدمی اور پچاس آدمی قریشی مع سرداروں کے مسجد حرام میں جا کر بیت اللہ کی دیواروں پر بھی سینہ لگا کر اللہ کے سامنے یہ عہد کریں کہ ہم میں جب تک ایک فرد بھی زندہ رہے گا محمد ﷺ کے خلاف جنگ کرتا رہے گا۔ یہ یہودی قریش مکہ سے معاہدہ کرنے کے بعد عرب کے بڑے جنگ جو عرب کے ایک بڑے جنگ جو قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ ہم اور قریش مکہ اس پر متفق ہوگئے ہیں کہ اس نئے دین (اسلام) کے پھیلانے والوں کا ایک مرتبہ سب مل کر استیصال کردیں، آپ لوگ بھی اس پر ہم سے معاہدہ کریں، اور ان کو یہ رشوت بھی پیش کی کہ خیبر میں جس قدر کھجوروں کی پیداوار ہوگی اس کا نصف آپ کو ہر سال دیا کریں گے، قبیلہ بنو غطفان کے سردار نے جو کہ عیینہ بن حصن فزاری تھا اس پیش کش کو قبول کرلیا اور جنگ میں شریک ہونا منظور کرلیا، یہود کے وفد نے پورے جزیرۃ العرب کا ہنگامی دورہ کرکے بنو اسد، قبیلہ اشجع اور بنو کنانہ اور فزارہ وغیرہ دیگر قبائل کو بھی جنگ کرلیا، اس طرح یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کا متحدہ محاذ بنا کر مدینہ پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے، حملہ آور اتحاد یوں کی تعداد دس اور بارہ ہزار کے درمیانی تھی ایک روایت میں پندرہ ہزار بھی مذکورہ ہے (معارف القرآن) جبکہ مسلمانوں کی تعداد کل تین ہزار تھی اور وہ بھی بےسروسامانی کے ساتھ جن میں صرف چھتیس گھوڑے تھے، مشرکین مکہ کی جن کی تعداد تقریباً چار ہزار تھی، قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور قبیلہ غطفان کی قیادت عیینہ بن حصن فزاری کے سپرد تھی۔ آنحضرت ﷺ کو متحدہ محاذ کے حرکت میں آنے کی اطلاع : رسول اللہ ﷺ کو جب متحدہ محاذ کے حرکت میں آنے کی اطلاع ملی تو سب سے پہلا کلمہ جو آپ ﷺ کی زبان مبارک پر آیا وہ حَسْبُنَااللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ تھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے مہاجرین و انصار کے اہل حل و عقد کو جمع کرکے ان سے مشورہ لیا، اگرچہ وحی کو حقیقت میں مشورہ کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ براہ راست اللہ کے اذن و اجازت سے کام کرتے ہیں مگر مشورہ میں دو فائدے تھے ایک تو امت کے لئے مشورہ کی سنت جاری کرنا، دوسرے قلوب مومنین میں باہمی ربط و اتحاد کی تجدید اور تعاون و تناصر کا جذبہ بیدار کرنا، اس کے بعد جنگ کے مادی وسائل پر غور ہوا، مجلس مشورہ میں حضرت فارسی بھی شریک تھے، جو ابھی حال ہی میں ایک یہودی کی غلامی سے نجات حاصل کرکے اسلامی خدمات کے لئے تیار ہوئے تھے، انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمارے فلاں فارس کے بادشاہ ایسے حالات میں دشمن کا حملہ روکنے کے لئے خندق کھود کر ان کا راستہ روک دیتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرما کر خندق کھودنے کا حکم دیدیا، اور اپنے دست مبارک سے خندق کے نشانات لگا کر اور بنفس نفیس خود بھی کھدائی کے کام میں شریک ہوگئے۔ خندق کا طول وعرض : یہ خندق سلع کے پیچھے اس پورے راستہ کی لمبائی پر کھودنا طے ہوا جس سے مدینہ کے شمال کی طرف سے دشمن آسکتا تھا، اس خندق کے طول و عرض کا خط خود رسول اللہ ﷺ نے کھینچا یہ خندق شیخین سے شروع ہو کر جبل سلع کے مغربی کنارے تک آئی اور بعد میں اس میں اور اضافہ کرکے وادئ بطحان اور وادی رانونا کے مقام اتصال تک پہنچادیا گیا، اس خندق کی کل لمبائی ساڑھے تین میل یعنی تقریباً چھ کلو میٹر تھی، اور چوڑائی اس قدر کہ آسانی سے گھوڑسوار عبور نہ کرسکے، ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چوڑائی پانچ گز تھی، ابن سعد فرماتے ہیں کہ چھ دن میں خندق کھودنے سے فراغت ہوئی، موسیٰ بن عقبہ فرماتے ہیں کہ بیس دن میں فارغ ہوئے، علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ چھ دن کی روایت صحیح ہے بیس دن حصار کی مدت ہے، غزوۂ خندق میں شریک مجاہرین کی کل تعداد تین ہزار بتائی گئی ہے ہر دس افراد کی جماعت کو بقول جمل و صاوی و معارف چالیس گز خندق کھودنے کا کام سپرد کیا گیا، مگر مصطفیٰ ادریسی میں ہر دس افراد کو دس گز سپرد کی گئی تھی، پہلے قول کے مطابق خندق کی لبائی بارہ ہزار گز ہوتی ہے، دوسرے قول کے مطابق تین ہزار ہوتی ہے، شرعی میل دو سو گز کا ہوتا ہے۔ غرضیکہ دشمن اس خندق کی وجہ سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہوسکا، تاہم مسلمان اس محاصرہ اور دشمن کی یلغار سے سخت خوف زدہ تھے، کم و بیش یہ محاصرہ ایک ماہ تک قائم رہا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردۂ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی، مذکورہ آیات میں ان ہی سراسیمہ کردینے والے حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ نابالغ بچوں کی شرکت اور ان کی واپسی : چونکہ اس غزوۂ میں پورا جزیرۃ العرب متحدہ محاذ کی شکل میں مدینہ طیبہ پر حملہ آور ہوا تھا کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، گویا اس غزوہ کے نتیجہ پر اسلام کی بقاء و فناء کا بظاہر دارومدار تھا، جس کی وجہ سے ہر مسلمان حتی کہ نابالغ بچے بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان بچوں کو واپس فرمادیا جن کی عمر پندرہ سال سے کم تھی، مگر پندرا سالہ نوجوانوں کو شرکت کی اجازت دیدی گئی، جن میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی تھے، جن کو کم عمری کی وجہ سے غزوۂ احد میں واپس کردیا گیا تھا، ان کے علاوہ زیدبن ثابت، ابوسعید خدری، براء بن عازب ؓ شامل ہیں، جس وقت یہ اسلامی لشکر مقابلہ کے لئے روانہ ہونے لگا تو جو منافقین مسلمانوں میں رلے ملے رہتے تھے انہوں نے سرکنا شروع کردیا کچھ تو چھپ کر نکل گئے، اور کچھ نے چھوٹے اعذار پیش کرکے رسول اللہ ﷺ سے واپسی کی اجازت لینی چاہی، یہ اپنے اندر ایک نئی آفت پھوٹی، مذکورۃ الصدر آیات میں انہیں منافقین کے متعلق چند آیات نازل ہوئی ہیں۔ (قرطبی) ایک عظیم معجزہ : حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ اس حصہ میں جو حضرت سلمان فارسی اور ان کے رفقاء کے سپرد تھا اس میں ایک سخت چٹان نکل آئی، حضرت سلمان کے ساتھی عمر وبن عوف فرماتے ہیں کہ اس چٹان نے ہمارے اوزار توڑ دیئے اور ہم اس کے کاٹنے سے عاجز ہوگئے، تو میں نے سلمان ؓ سے کہا کہ اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس جگہ سے ہٹ کر خندق کھودیں اور ذرا سی کجی کے ساتھ اس کو اصل خندق کے ساتھ ملادیں، مگر رسول اللہ ﷺ کے کھنچے ہوئے خط سے انحراف ہمیں اپنی رائے سے نہیں کرنا چاہیے، آپ آنحضرت ﷺ سے یہ واقعہ بیان کرکے حکم حاصل کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ حضرت سلمان فارسی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر صورت واقعہ بیان کی، آپ ﷺ خود بھی اپنے حصہ کی خندق میں کام کررہے تھے خندق کی مٹی کو اس جگہ سے منتقل کرنے میں مصروف تھے، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم مبارک کو غبار نے ڈھانپ لیا تھا کہ پیٹ اور پیٹھ کی جلد نظر نہ آتی تھی، حضرت سلمان فارسی ؓ کو کوئی حکم یا ہدایت دینے کے بجائے آپ خود ان کے ہمراہ موقع پر تشریف لائے اور خود خندق میں اترے اور کدال اپنے ہاتھ میں لیکر اس چٹان پر ایک ضرب لگائی اور یہ آیت پڑھی تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا اس ایک ہی ضرب سے چٹان کا ایک تہائی حصہ کٹ گیا اور اس پتھر سے ایک روشنی نکلی، اور اسی کے بعد دوسری ضرب لگائی اور آیت مذکورہ آخر تک پوری پڑھی، اس دوسری ضرب سے ایک تہائی چٹان اور کٹ گئی اور اسی طرح پتھر سے ایک روشنی نکلی، تیسری مرتبہ پھر وہی آیت پڑھ کر ضرب لگائی تو باقی چٹان بھی کٹ کر ختم ہوگئی (مسند احمد و نسائی) اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آپ نے پہلی کدال ماری تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر ! مجھ کو شام کی کنجیاں عطا کی گئیں، خدا کی قسم میں شام کے سرخ محلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، پھر جب آپ نے دوسری کدال ماری تو دوسرا تہائی ٹکڑا ٹوٹ کر گرا تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر ! فارس کی کنجیاں مجھے عطا کی گئیں، خدا کی قسم مدائن کے قصرا بیض کو اس وقت میں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، جب تیسری مرتبہ آپ نے کدال ماری اور چٹان کا بقیہ حصہ بھی ٹوٹ گیا تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر ! یمن کی کنجیاں مجھ کو عطا کی گئیں، خدا کی قسم صنعاء کے دروازوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، حافظ عسقلانی فرماتے ہیں اس روایت کی سند حسن ہے۔ (ملخصًا) منافقین کی طعنہ زنی اور مسلمانوں کا بےنظیر یقین ایمانی : خندق کی کھدائی میں جو منافقین مرے دل سے شامل تھے وہ کہنے لگے کہ تہیں محمد ﷺ کی بات پر حیرت اور تعجب نہیں ہوتا، وہ تمہیں کیسے باطل اور بےبنیاد وعدے سنا رہے ہیں، کہ یثرب میں خندق کی گہرائی میں انہیں حیرہ اور مدائنِ کسریٰ کے محلات نظر آرہے ہیں، ذرا اپنے حال کو تو دیکھو کہ تمہیں اپنے تن بدن کا تا ہوش نہیں قضائے حاجت کی مہلت نہیں، کیا تم ایسی حالت میں کسریٰ وغیرہ کے ملک کو فتح کرو گے ؟ اس واقعہ پر مذکورۃ الصدر آیات نازل ہوئیں ” اِذْ یَقُوْلُ المُنَافِقُوْنَ اَالَّذِیْنَ فِی قُلُوْ بِھِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اِلَّا غُرُوْا “ آپ غور کیجئے کہ ظاہری حالات کے بالکل ناموافق ہونے کے باوجود مسلمانوں کا آپ ﷺ کی خبر پر کس قدر یقین کامل تھا، ہر طرف سے کفار کے نرغہ اور خطرے میں ہیں نہایت سخت سردی نے سب کو پریشان کردکھا ہے، ہر طرف خوف ہی خوف ہے بھوک کی شدت نے ہر شخص کو نڈھال کر رکھا ہے بھوک کی شدت کو کم کرنے کے لئے پیٹوں پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، بظاہر اپنے بچاؤ کی بھی کوئی صورت نہیں ہے، ایسی حالت میں دنیا کی عظیم سلطنت روم وفارس کی فتوحات کی خوشخبری پر یقین کس طرح ہو، مگر ایمان کی قیمت سب اعمال سے زیادہ اسی وجہ سے ہے کہ اسباب و حالات کے سراسر خلاف ہونے کے باوجود ان کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد میں کوئی شک و شبہ پیدا نہ ہوا۔ حضرت جابر ؓ کی دعوت اور ایک کھلا معجزہ : اسی خندق کی کھدائی کے دوران ایک مشہور واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک روز حضرت جابر ؓ نے آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ آپ بھوک سے متاثر ہو رہے ہیں، اپنی اہلیہ سے جا کر کہا تمہارے پاس کچھ ہو تو پکالو، حضور ﷺ پر بھوک کا اثر دیکھا نہیں جاتا، اہلیہ نے بتلایا کہ ہمارے گھر میں ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین سیر) جو رکھے ہیں میں ان کو پیستی ہوں، اہلیہ پیسنے پکانے میں لگیں، گھر میں ایک بکری کا بچہ تھا، حضرت جابر نے اس کو ذبح کرکے گوشت تیار کیا اور آنحضرت ﷺ کو بلانے کے لئے چلے، تو اہلیہ نے پکار کر کہا، دیکھئے حضور کے ساتھ صحابہ کا بہت برا مجمع ہے، صرف حضور کو کسی طرح تنہا بلائیں، مجھے رسوانہ کیجئے کہ کہیں صحابہ کا بڑا مجمع چلا آئے، حضرت جابر ؓ نے پوری صورت حال عرض کردی اور کہہ دیا کہ صرف اتنا کھانا ہے، مگر آپ نے پورے لشکر میں اعلان فرما دیا کہ چلو جابر کے گھر دعوت ہے، حضرت جابر ؓ خیران تھے، گھر پہنچے تو اہلیہ نے سخت پریشانی کا اظہار کیا، اور پوچھا کہ آپ نے آنحضرت کو پوری صورت حال اور کھانے کی مقدار بتلادی تھی ؟ جابر ؓ نے فرمایا ہاں ! میں بتلا چکا ہوں، تو محترمہ مطمئن ہوئیں کہ پھر ہمیں کچھ فکر نہیں، حضور مالک ہیں جس طرح چاہیں کریں۔ واقعہ کی مزید تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں، بس اتنا معلوم کرلینا کافی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے روٹی اور سالن سب کو دینے اور کھلانے کا اہتمام فرمایا اور پورے مجمع نے خوف شکم سیر ہو کو کھایا، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ مجمع کی فراغت کے بعد بھی سالن اور روٹیاں اسی قدر موجود تھیں جتنی کہ شروع میں تھیں، بعد میں گھر والوں نے بھی کھایا اور پڑوسیوں میں بھی تقسیم کردیا۔ خندق کھودنے سے فراغت اور لشکر قریش کی آمد : ادھر خندق کھودنے سے فراغت ہوئی ادھر قریش کا لشکر آگیا اس بارہ ہزار کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا، جب قریش نے دیکھا تو کہنے لگے، یہ وہ مکر ہے کہ اس سے پہلے عرب اس سے واقف نہیں تھے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلمان ؓ کے مشورہ سے خندق کا طریقہ اختیار فرمایا تھا، عرب اس طریقہ سے واقف نہیں تھے، اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے طریقۂ جنگ کو اختیار کرنا درست ہے، اسی طرح کفار کے ایجاد کردہ آلات حرب کا استعمال بھی درست ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے غزوۂ طائف میں منجنیق کا استعمال فرمایا، دونوں لشکر آمنے سامنے کھڑے ہوگئے دونوں کے درمیان خندق حائل تھی سَلَع مسلمانوں کے پس پشت تھا اور خندق سامنے، آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو ایک قلعہ میں محفوظ ہوجانے کا حکم دیا اور حسان بن ثابت ؓ کو ان کا نگران مقرر فرمادیا، بنو قریظہ کے ساتھ چونکہ آپ ﷺ نے معاہدہ کررکھا تھا اس وقت تک تو بنی قریظہ متحدہ محاذ سے الگ تھے مگر حیی بن اخطب بنو نصیر کا سردار بنی قریظہ کو اپنے ساتھ ملانے کی پوری کوشش کررہا تھا، یہاں تک حیی بن اخطب خود بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا، کعب بن اے حیی بن اخطب کو آتے دیکھ کر قلعہ کا دروازہ بند کرلیا، حیی بن اخطب نے آواز دی کہ دروازہ کھولو، کعب نے جواب دیا ” افسوس اے حیی بلاشبہ تو منحوس آدمی ہے، محمد ﷺ سے معاہدہ کرچکا ہوں میں اب اس عہد کو نہ توڑوں گا کیونکہ میں نے محمد ﷺ سے سوائے سچائی اور ایفائے عہد کے کچھ نہیں دیکھا “ حیی نے جواب دیا، میں تمہارے لئے دائمی عزت لے کر آیا ہوں، قریش اور غطفان کی فوج کو میں نے یہاں لاکر اتارا ہے، ہم سب نے یہ عہد کیا ہے کہ جب تک محمد اور ان کے ساتھیوں کا استیصال اور قلع قمع نہ کردیں گے اس وقت تک یہاں سے ہرگز نہ ٹلیں گے۔ کعب نے کہا خدا کی قسم تو ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی لے کر آیا ہے، میں محمد ﷺ سے کبھی عہد نہ توڑوں گا، حییّ برابر اصرار کرتا رہا، یہاں تک کہ اس کو عہد شکنی پر آمادہ کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب یہ خبر معلوم ہوئی تو سعد بن معاذ ؓ اور سعد بن عبادہ ؓ اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ کو تحقیق حال کے لئے روانہ فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اگر یہ خبر صحیح نکلے تو وہاں سے واپس آکر اس خبر کو ایسے مبہم الفاظ میں بیان کرنا کہ لوگ سمجھ نہ سکیں اور اگر خبر غلط ہو تو پھر الاعلان بیان کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں، یہ لوگ کعب بن اسد کے پاس گئے اور اس کو معاہدہ یاد دلایا، کعب نے کہا کیسا معاہدہ اور کون محمد ؟ ﷺ میرا ان سے کوئی معاہدہ نہیں، جب یہ واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، عضلٌ وقارۃ یعنی جس طرح عضل وقارۃ نے اصحاب رجیع یعنی خبیب ؓ کے ساتھ غدر کیا تھا اسی طرح انہوں نے بھی غداری کی (سیرت ابن ہشام) آپ ﷺ سمجھ گئے کہ بنی قریظہ کی غداری کی خبر صحیح ہے، مسلمانوں کے لئے یہ وقت بڑے ابتلاو آزنائش کا تھا، ابتلاء کی کسوٹی پر نفاق و اخلاص کسا جارہا تھا، اس کسوٹی نے کھرا اور کھوٹا الگ کردکھایا، چناچہ منافقین نے حیلے بہانے شروع کئے، اور عرض کیا یا رسول ہمارے گھر پست دیوار ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں، بچوں اور عورتوں کی حفاظت ضروری ہے، اس لئے ہم اجارت چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسی صورت حال کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا۔ (احزاب آیت 13) منافقین کہتے ہیں کہ ہمارے گھر خالی ہیں حالانکہ وہ خالی نہیں فرار مقصد ہے اس لئے یہ حیلے بہانے کررہے ہیں۔ اور مسلمان جن کے قلوب اخلاص و ایقان سے لبریز تھے ان کی ایمانی کیفیت کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا : وَلَمّارَأی الْمُؤْمنُوْنَ الْاَحزَابَ قَالُوا ھٰذا ما وعدنا اللہ ورسولُہ وَصَدَقَ اللہ ورسولُہ ومَا زَادَھُمْ اِلَّا اِیْمانًا و تسلِیمًا . (سورۂ احزاب : آیت 22) اور اہل ایمان نے جب کافروں کی فوجیں دیکھیں تو فوراً یہ کہا کہ یہ وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے، اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے، اور اس سے ان کے یقین اور ایمان میں اور زیادتی ہوگئی۔ غرض یہ کہ یہود و منافقین سب ہی نے اس لڑائی میں بد عہدی کی، اور مسلمان اندرونی و بیرونی دشمنوں کے محاصرہ اور نرغہ میں آگئے۔ محاصرہ کی شدت اور سختی سے رسول اللہ ﷺ کو یہ خیال ہوا کہ مسلمان بمقتضائے بشریت کہیں گھبرا نہ جائیں، اس لئے یہ ارادہ فرمایا کہ عیینہ بن حٰصن فزاری اور حارث بن عوف سے (جو قبیلہ غطفان کے سردار اور قائد تھے) مدینہ کے نخلستان کے تہائی پھل دیکر ان سے صلح کرلی تاکہ یہ لوگ ابوسفیان کی مدد سے کنارہ کش ہوجائیں اور مسلمانوں کو اس حصار سے نجات ملے، چناچہ آپ نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا، ان دونوں حضرات نے عرض کیا، یارسول اللہ کیا اللہ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہم اس کی تعمیل کے لئے حاضر ہیں، یا محض آپ ازراہ شفقت ورافت ایسا قصد فرما رہے ہیں، آپ نے فرمایا اللہ کا کوئی حکم نہیں، محض تمہاری خاطر میں نے ایسا ارادہ کیا ہے، اس لئے کہ عرب نے متحدہ ہو کر کمان سے تم پر تیر باری شروع کی ہے، اس طریقہ سے میں ان کی شوکت اور اجتماعی قوت کو توڑنا چاہتا ہوں۔ سعد بن معاذ نے عرض کیا کہ جب ہم اور یہ کافر و مشرک تھے، بتوں کو پوجتے تھے، اللہ عزوجل کو جانتے بھی نہ تھے اس وقت بھی ان کی یہ مجال نہ تھی کہ ہم سے ایک خرما بھی کے سکیں، الایہ کہ مہمانی کے طور پر یا خرید کر اور اب جب کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت لازوال اور نعمت بےمثال سے مالا مال فرمایا اور اسلام سے ہم کو عزت بخشی تو اپنا مال ہم ان کو دیدیں یہ ناممکن ہے، واللہ انہیں اپنا مال دینے کی ہمیں کوئی حاجت نہیں، خدا کی قسم ہم انکو سوائے تلوار کے کچھ نہ دیں گے، اور انسے جو ہوسکتا ہے وہ کرلیں۔ دو ہفتے اسی طرح گذر گئے مگر دست بدست لڑائی اور مقابلہ کی نوبت نہیں آئی، طرفین سے صرف تیر اندازی رہی، بالآخر عمرو بن عبدودّ ، عکرمہ بن ابی جہل، ہبیرہ بن ابی وہب، ضرار بن خطاب، نوفل بن عبداللہ، مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے نکلے، ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی وہاں سے پھاند کر اس طرف پہنچے اور مسلمانوں کو مقابلہ کے لئے آواز دی، عمرو بن عبدودّ جو کہ سرتاپا غرق آہن تھا میدان میں آیا اور مبارزۃ کے لئے آواز دی، شیر خدا حضرت علی ؓ اس کے مقابلہ کے لئے پڑھے اور فرمایا اے عمرو ! میں تجھ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاتا ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں، عمرو نے کہا تم کم سن ہو اپنے سے بڑے کو میرے مقابلہ کے لئے بھیجو، میں تمہارے قتل کو پسند نہیں کرتا، حضرت علی ؓ نے فرمایا میں تمہارے قتل کو پسند کرتا ہوں یہ سن کر عمرو کو طیش آگیا اور گھوڑی سے نیچے اتر آیا، اور آگے بڑھ کر حضرت علی پروار کیا، جس کو حضرت علی نے سپر سے روکا لیکن پیشانی پر زخم آیا بعد ازاں حضرت علی نے اس پروار کیا جس نے اس کا کام تمام کردیا۔ حضرت علی نے اللہ اکبر ! کا نعرہ لگایا جس سے مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی، نوفل بن عبداللہ رسول اللہ ﷺ کے قتل کے ارادے سے آگے پڑھا، گھوڑے پر سوار تھا خندق عبور کرتے ہوئے خندق میں گرپڑا اور گردن ٹوٹ گئی اور مرگیا مشرکین نے دس ہزار درہم آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے کہ اس کی لاش ہمارے حوالہ کردیں، آپ نے ارشاد فرمایا وہ بھی خبیث اور ناپاک تھا اور اس کی دیت بھی خبیث اور ناپاک ہے، غرضیکہ لاش بلا عوض سپرد کردی۔ حضرت سعد بن معاذ شہ رگ پر تیر لگنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے تھے، حضرت سعد بن معاذ نے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ ! اگر قریش کے ساتھ ابھی لڑائی کو ختم کردیا تو تو اس زخم کو میرے لئے شہادت کا ذریعہ بنا۔ آپ ﷺ کی چار نمازیں قضاء : حملے کا یہ دن نہایت ہی سخت تھا پورا دن تیراندازی اور سنگ باری میں گذرا، اسی میں رسول اللہ ﷺ کی چار نمازیں قضاء ہوئیں۔ آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو ایک قلعہ میں محفوظ کردیا تھا، حضرت حسان بن ثابت اس قلعہ کی نگرانی پر مامور تھے، آپ ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ ؓ نے دیکھا کہ ایک یہودی قلعہ کے چاروں طرف چکر لگا رہا ہے اندیشہ ہوا کہ کہیں جاسوس نہ ہو، حضرت صفیہ نے حضرت حسان سے کہا کہ اس کو قتل کردو ایسا نہ ہو کہ کہیں دشمنوں سے ہماری مخبری کردے، حضرت حسان نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں اس کام کا آدمی نہیں حضرت صفیہ نے خیمہ کی ایک لکڑی لیکر اس یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا، اور حضرت حسان سے فرمایا یہ مرد ہے اور میں عورت ہوں اس لئے میں تو ہاتھ نہ لگاؤں گی تم اس کے ہتھیار اتار لاؤ حضرت حسان نے کہا مجھے اس کے ہتھیار اور سامان کی ضرورت نہیں (ابن ہشام) مَنْ قَتَلَ قتیلاً فَلَہٗ سَلْبہٗ. ایک جنگی تدبیر : اثناء محاصرہ میں نعیم بن مسعود اشجعی غطفان کے ایک رئیس آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لایا ہوں، میری قوم کو ابھی میرے اسلام لانے کا علم نہیں، اگر اجازت ہو تو میں کوئی تدبیر کروں جس سے یہ حصار ختم ہو، آپ نے فرمایا ہاں تم ایک تجربہ کار آدمی ہو اگر کوئی ایسی تدبیر ہوسکے تو کر گذرو۔ فان۔۔ خدعۃ اس لئے کہ لڑائی نام ہی اصل میں حیلہ و تدبیر کا ہے، نعیم بن مسعود ایک ذہین اور سمجھ دار آدمی تھے، ایک منصوبہ دل میں بنا لیا اور آنحضرت ﷺ سے اس کی اجازت چاہی کہ میں ان لوگوں میں جا کر جو مصلحت دیکھوں کہوں، آپ ﷺ نے اجازت دیدی، نعیم بن مسعود، بنی قریظہ کے پاس گئے جن کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں قدیم تعلقات تھے، ان سے کہا اے بنو قریظہ ! تم جانتے ہو کہ میں تمہارا قدیم دوست ہوں، انہوں نے اقرار کیا کہ ہمیں آپ کی دوستی میں کوئی شبہ نہیں، اس کے بعد بنو قریظہ کے سرداروں سے خیر خواہانہ میں سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ قریش مکہ ہوں یا ہمارا قبیلہ غطفان، یا دوسرے قبائل یہود وغیرہ ان کا یہاں وطن نہیں، یہ اگر شکست کھا کر بھاگ جائیں تو ان کا کوئی نقصان نہیں، تمہارا معاملہ اس سے مختلف ہے، مدینہ تمہارا وطن ہے، تمہاری عورتیں اور اموال سب یہاں ہیں اگر تم نے ان کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور خدا نخواستہ ان کو شکست ہوئی اور یہ بھاگ گئے تو تمہارا کیا بنے گا ؟ کیا تم تنہا مسلمانوں کا مقابلہ کرسکو گے ؟ اس لئے میں تم کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم لوگ ان کے ساتھ اس وقت تک جنگ میں شریک نہ ہو، جب تک یہ لوگ اپنے خاص سرداروں کی ایک تعداد تمہارے پاس رہن نہ رکھ دیں کہ یہ تم کو مسلمانوں کے حوالہ کرکے نہ بھاگ جائیں، بنو قریظہ کو ان کا یہ مشورہ بہت اچھا معلوم ہوا، اس کی قدر کی اور کہا تم نے اچھا مشورہ دیا۔ اس کے بعد نعیم بن مسعود، قریش سرداروں کے پاس تشریف لے گئے، اور ان سے کہا تم لوگ جانتے ہو کہ میں تمہارا دوست ہوں، اور محمد ﷺ سے بری ہوں، مجھے ایک خبر ملی ہے تمہاری خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ میں وہ خبر تمہیں پہنچا دوں، بشرطیکہ آپ لوگ میرے نام کا اظہار نہ کریں، وہ خبر یہ ہے کہ یہود بنی قریظہ تمہارے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد نادم ہوئے اور اس کی اطلاع محمد ﷺ کے پاس یہ کہہ کر بھیج دی ہے کہ کیا آپ ہم سے اس شرط پر راضی ہوسکتے ہیں کہ ہم قریش اور عطفان کے چند سرداروں کو آپ کے حوالہ کردیں کہ آپ ان کی گردن ماردیں پھر ہم آپ کے ساتھ مل کر ان کے ساتھ جنگ کریں، محمد ﷺ نے اس بات کو قبول کرلیا ہے، اب بنو قریظہ تم سے بطور رہن کے تمہارے کچھ سرداروں کا مطالبہ کریں گے اب آپ لوگ اپنے معاملہ کو سوچ لیں، اس کے بعد نعیم اپنے قبیلہ غطفان میں گئے اور ان کو بھی یہی خبر سنائی، ادھر یہ ہوا کہ ابو سفیان نے جو کہ متحدہ محاذ کی فوج کے اعلیٰ کمانڈر تھے قریش کی طرف سے عکرمہ بن ابی جہل کو اور غطفان کی طرف سے ورقہ کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ وہ بنو قریظہ سے جا کر کہیں کہ اب ہمارا سامان جنگ ختم ہورہا ہے اور ہمارے آدمی بھی مسلسل جنگ سے تھک رہے ہیں ہم آپ کے معاہدہ کے مطابق آپ کی شرکت اور امداد کے منتظر ہیں، بنو قریظہ نے اپنی قرار داد کے مطابق یہ جواز دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جنگ میں اس وقت تک شریک نہیں ہوسکتے جب تک تم اپنے چند سردار ہمارے پاس بطور رہن نہ بھیج دو ، عکرمہ اور ورقہ نے یہ خبر ابوسفیان کو پہنچادی، قریش اور غطفان کے سرداروں نے یقین کرلیا کہ نعیم بن مسعود نے جو خبر دی تھی، وہ صحیح ہے، اور بنی قریظہ سے کہلا بھیجا کہ ہم اپنا ایک آدمی بھی تم کو نہیں دیں گے پھر آپ کا دل چاہے تو ہمارے ساتھ جنگ میں شرکت کریں اور نہ چاہے تو نہ کریں، بنو قریظہ کو بھی یہ صورت حال دیکھ کر اور قریش و غطفان کا جواب سن کر نعیم کی بات کا اور زیادہ یقین ہوگیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے دشمن کے متحدہ محاذ میں ایک شخص کے ذریعہ پھوٹ ڈالدی اور دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے۔ خدا کی غیبی مدد : حضرت نعیم بن مسعود کی تدبیر کے علاوہ دوسری آفتاد ان پر آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور ٹھنڈی ہوا ان پر مسلط کردی، سخت جاڑوں کا موسم تھا، ہوا نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے، ہانڈیاں چولہوں سے الٹ دیں، یہ تو ظاہری اسباب اللہ تعالیٰ نے دشمن کے پاؤں اکھاڑنے کے لئے پیدا فرمادیئے تھے، اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج دیئے تاکہ باطنی طور پر ان کے دلوں پر رعب طاری کردیں، ان دونوں کا ذکر آیات مذکورہ میں اس طرح فرمایا گیا ہے، فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْجًا وَّ جُنُوْ دًا لَّمْ ترَوْھَا یعنی ہم نے ان کے اوپر ایک تندو تیز ہوا بھیج دی اور فرشتوں کے لشکر بھیج دیئے، جن کو تم نہیں دیکھ رہے تھے، غزوۂ احزاب میں فرشتوں نے اگرچہ عملی حصہ نہیں لیا تھا بلکہ مشرکین کے لشکر کو مرغوب اور خوف زدہ کیا تھا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اب ان کے لئے بھاگ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ حضرت حذیفہ ؓ کا دشمن کے لشکر کی خبر لینے کے لئے جانا : حضرت نعیم بن مسعود کی کار گذاری اور احزاب کے درمیان پھوٹ کے واقعات کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ کوئی آدمی جاکر دشمن کے لشکر اور ان کے ارادوں کی خبر لائے، مگر سخت برفانی ہوا جو دشمن پر بھیجی گئی تھی اس کا اثر مدینہ پر بھی تھا، رسول اللہ ﷺ نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کون ہے ؟ کو کھڑا ہو اور دشمن کے لشکر میں جا کر ان کی خبر لائے ؟ آنحضرت ﷺ نے یہ بات تین بار فرمائی مگر پورے مجمع میں دن بھر کی تکان اور سخت سردی کی وجہ سے کوئی ہمت نہ کرسکا، آخر میں آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ ؓ کا نام لیکر فرمایا اے حذیفہ تم جاؤ، حذیفہ فرماتے ہیں میری حالت بھی دوسروں سے مختلف نہیں تھی مگر جب آپ نے نام لیکر فرمایا، اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، میں کھڑا ہوگیا، سردی سے میرا بدن کانپ رہا تھا، آپ نے اپنا دست مبارک میرے سر اور چہرے پر پھیرا، اور فرمایا کہ دشمن کے لشکر میں جاؤ اور مجھے خبر لادو اور میرے پاس واپس آنے سے پہلے کوئی کام نہ کرو اور پھر آپ نے میری حفاظت کے لئے دعا فرمائی، میں اپنی تیر کمان اٹھا کر ان کی طرف روانہ ہوگیا، حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں یہاں سے روانہ ہوا تو عجیب ماجرا یہ دیکھا کہ خیمے کے اندر بیٹھے ہوئے سردی سے جو کپکپی طاری تھی وہ ختم ہوگئی جب میں لشکر میں پہنچا تو دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے تھے اور ہانڈیاں الٹ دی تھیں، ایک موقع ایسا آیا کہ ابو سفیان میرے تیر کی زد میں تھا میں نے چاہا کہ اس پر تیر چلاؤں مگر پھر آپ ﷺ کا فرمان یاد آیا جس کی وجہ سے میں نے ارادہ ملتوی کردیا۔ ابوسفیان واپسی کا اعلان کرنا چاہتے تھے مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ دیگر ذمہ داروں سے مشورہ کریں رات کی تاریکی اور سناٹے میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں کوئی جاسوس موجود نہ ہو اور وہ ہمارے راز کی بات سن لے، اس لئے ابوسفیان نے یہ ہوشیاری کی کہ بات کرنے سے پہلے سارے مجمع سے کہا کہ ہر شخص اپنے برابر والے شخص کو پہچان لے تاکہ کوئی غیر آدمی ہماری بات نہ سن سکے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے خطرہ ہوا کہ میرے برابر کا آدمی جب مجھ سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ تو میرا راز کھل جائے گا، انہوں نے بڑی ہوشیاری اور دلیری سے خود سبقت کرکے اپنے برابر والے آدمی کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا تعجب ہے تم مجھے نہیں جانتے، میں فلاں ابن فلاں ہوں، وہ قبیلہ ہوازن کا آدمی تھا، اس طرح حذیفہ کو اللہ تعالیٰ نے گرفتاری سے بچالیا، ابوسفیان نے یہ اطمینان کرلیا کہ مجمع اپنا ہی ہے یہاں کوئی غیر نہیں تو اس نے پریشان حالات اور بنو قریظہ کی بدعہدی اور سامان جنگ ختم ہوجانے کے واقعات سنا کر کہا میری رائے یہ ہے کہ اب آپ سب واپس چلیں اور میں بھی واپس جارہا ہوں، اسی وقت لشکر میں بھگدڑ مچ گئی، اور سب واپس جانے لگے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ جب میں واپس آیا تو آپ ﷺ نماز میں مشغول تھے، جب آپ نے سلام پھیرا تو میں نے پورے واقعہ کی روداد سنائی، رسول اللہ ﷺ اس خبر مسرت سے خوش ہو کر ہنسنے لگے حتی کہ رات کی تاریکی میں آپ کے دندان مبارک چمکنے لگے، آپ نے میرے اوپر اپنی چادر کا ایک حصہ ڈال دیا، یہاں تک کہ میں سوگیا، جب صبح ہوئی تو آپ نے ہی مجھے یہ کہہ کر بیدار کیا کہ قُمْ یا نومان کھڑا ہو اے بہت سونے والے ! صحیح بخاری میں سلیمان بن صرد کی روایت ہے کہ اخزاب کے واپس جانے کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اَلْآن نَعْزوھم وَلَا یَغزونَنَا نحن نسیر الیھم یعنی اب وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے اور ہم ان کے ملک پر چڑھائی کریں گے۔ (مظھری) اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ (الآیۃ) یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کر لڑنے میں بڑے بخیل ہیں۔ فاذا۔۔۔ رأیتھم (الآیۃ) یہ منافقین کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے، یعنی یہ لوگ اپنی شجاعت و مردانگی کے بارے میں ڈینگیں مارتے ہیں کو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں (یا) مال غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی اور طراری سے لوگوں کو متاثر کرکے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بڑا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ کر بھاگ جانے والے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ دل سے ایمان لائے ہی نہیں ہیں، منافقوں کے اعمال کو حبط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ کافر اور مشرک ہی ہیں اور کافر و مشرک کے اعمال باطل ہیں، یہ مطلب نہیں کہ اولاً ان کے اعمال قابل اجر وثواب تھے بعد ان کو حبط کردیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اَحْبط، اظْھر کے معنی میں ہو یعنی ان کے اعمال کے بطلان کو ظاہر کردیا۔ یحسبون۔۔۔ یذھبوا (الآیۃ) یعنی ان منافقین کی بزدلی اور دون ہمتی اور خوف و دہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام ونامراد واپس جاچکے ہیں لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں، اور بالفرض اگر کفار کی جماعت دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائے تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ کے اندر رہنے کے بجائے باہر صحرا میں بادنشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں ؟ یا لشکر کفار ناکام رہا یا کامیاب ؟
Top