Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - As-Saaffaat : 114
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ
وَلَقَدْ
: اور البتہ تحقیق
مَنَنَّا
: ہم نے احسان کیا
عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ
: موسیٰ پر اور ہارون پر
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کئے
آیت نمبر 114 تا 138 ترجمہ : اور یقیناً ہم نے موسیٰ و ہارون پر نبوت دے کر بڑا احسان کیا اور ان دونوں کو اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو بڑے غم (مصیبت) سے نجات دی، یعنی فرعون کے ان کو غلام بنانے سے، اور ہم نے قبطیوں کے مقابلہ میں ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے اور ہم نے ان کو احکام و حدود وغیرہ میں جو اس میں بیان ہوئے ہیں واضح البیان کتاب عطا کی اور وہ تورات ہے اور ہم نے ان دونوں کو راہ مستقیم کی ہدایت دی اور ہم نے ان کیلئے بعد والوں میں ذکر خیر باقی رکھا، اور ہم اسی طرح جس طرح ان کو صلہ دیا نیک کام کرنے والوں کو صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے اور بلاشبہ الیاس (علیہ السلام) (بھی) مرسلین میں سے ہیں، اس کے شروع میں ہمزہ اور بدون ہمزہ (دونوں ہیں) کہا گیا ہے کہ الیاس موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون کے بھتیجے تھے بَعْلَبَکَّ اور اس کے اطراف کی قوم کی جانب مبعوث ہوئے تھے، اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ (الیاس (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو، بعل ان کے ایک سہزی بت کا نام ہے، اور اسی کے نام پر (بعلبک) شہر کا نام رکھا گیا بَکَّ کی جانب اضافت کرکے یعنی تم اس کی بندگی کرتے ہو اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو، کہ اس کی بندگی نہیں کرتے (وہ) اللہ ہے جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا رب ہے ھُوَ محذوف ماننے کی صورت میں تینوں کے رفع کے ساتھ اور ان کے نصب کے ساتھ اَحْسَنَ سے بدل کی صورت میں، مگر قوم نے اس کو جھٹلا دیا وہ لوگ آگ میں حاضر کئے جائیں گے، سوائے اللہ تعالیٰ کے مخلص یعنی ان میں سے مومن بندوں کے وہ آگ سے نجات پائیں گے، اور ہم نے الیاس (علیہ السلام) کا بعد والوں میں بھی ذکر باقی رکھا، الیاسین پر ہماری طرف سے سلام ہو یہ وہی الیاس ہیں جن کا ذکر سابق میں ہوا ہے، اور کہا گیا ہے کہ الیاس (علیہ السلام) اور وہ جو ان پر ایمان لائے تھے (مراد ہیں) لہٰذا ان کے ساتھ تغلیباً جمع لائی گئی ہے، جیسا کہ مُھَلَّبْ اور اس کی قوم کو (جمع کے طور پر) مُھَلَّبُوْنَ کہتے ہیں، اور ایک قراءت میں آل یٰسین مد کے ساتھ ہے یعنی ان کے اہل اس سے الیاس مراد ہیں ہم اسی طرح جیسا کہ ان کو صلہ دیا نیکو کاروں کا صلہ دیتے ہیں بیشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں، اور بیشک لوط (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے انکو اور ان کے سب اہل خانہ کو نجات دی، سوائے ایک بڑھیا کے جو عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں باقی رہ گئی پھر ہم نے دوسروں (یعنی) اس کی قوم کے کافروں کو ہلاک کردیا اور تم تو ان پر یعنی اپنے اسفار کے دوران ان کے نشانات (خرابات) اور مکانات پر سے صبح کے وقت یعنی دن میں اور (کبھی) رات میں گزرتے ہو پھر بھی تم اے اہل مکہ نہیں سمجھتے کہ ان پر کیا (قیامت) گزری ؟ کہ تم اس سے عبرت حاصل کرو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ولقد مننا یہ جملہ مستانفہ ہے مقصد یہاں سے تیسرے قصہ کا بیان ہے، اس صورت میں واؤ استینافیہ ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عطف قصہ علی القصہ ہو اس صورت میں واؤ عاطفہ ہوگا، لام جواب قسم کیلئے ہے، قسم محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وعزَّتِنَا وجَلالِنا لَقَدْ مَننَّا۔ قولہ : ونصرنا ھُمْ ۔ ھم ضمیر کا مرجع موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اور ان کی قوم ہے۔ قولہ : فکانُوْا ھُمْ الغَالِبُوْنَ ، ھم ضمیر فصل ہے اس کا کوئی محل اعراب نہیں ہے اور الغالبون کانوا کی خبر ہے، اور بعض نے ھم کو کانوا کے واؤ کی تاکید یا بدل بھی قرار دیا ہے۔ (اعراب القرآن) قولہ ؛ سَلاَمٌ علیٰ موسیٰ وھَارُوْنَ ، سلامٌ مبتداء ہے، تنوین تعظیم کے لئے لہٰذا نکرہ کا مبتداء واقع ہونا صحیح ہے، خبر محذوف ہے اور وہ مِنَّا ہے اور علیٰ موسیٰ وھارون، سلامٌ کے متعلق ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیٰ موسیٰ وھارون کائنٌ کے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر ہو قولہ : وَاِنَّ الیاس واؤ استینافیہ ہے اور عاطفہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں عطف قصہ علی القصہ ہوگا۔ قولہ ؛ بالھمز اوَّلہٖ وترکہٖ یعنی ہمزۂ وصل وقطع دونوں درست ہیں، دونوں صورتوں کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ الیاس عجمی کلمہ ہے عربی میں استعمال ہونے لگا ہے، اس لئے ہمزہ کے قطعی یا وصلی ہونے کو متعین نہ کرسکے، اسی وجہ سے دونوں قراءتیں جائز ہیں۔ قولہ ؛ اِلاَّ عِبَادَ اللہِ المُخلَصِینَ فاِنِّھم نجوا منھا سے اشارہ کیا کہ اِلاَّ عبادَ اللہِ الخ محضرون کے واؤ سے مستثنیٰ ہے، یعنی جن لوگوں نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی تکذیب کی ان کو جہنم میں حاضر کیا جائے گا، البتہ جنہوں نے تکذیب سے توبہ کرلی ان کو جہنم میں حاضر نہ کیا جائے گا، صاحب لغات القرآن نے کہا ہے کہ کذّبوا کی ضمیر سے مستثنیٰ متصل ہے، اور مخلصین، عِبادَ اللہ کی صفت ہے، جلالین کے محشی لکھتے ہیں کہ اِلاَّ عباد اللہ المخلصین بظاہر مُحْضَرُوْنَ سے استثناء ہے، مگر یہ درست نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ کذّبوا کے واؤ سے استثناء ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے تکذیب نہیں کی، اسی وجہ سے اِلاَّ عباد اللہ سے استثناء کردیا اور مُحْضَرُونَ سے استثناء اس لئے درست نہیں کہ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ مکذبین میں سے بعض کو مخلص بندوں میں سے ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں کیا جائے گا، اور یہ ظاہر الفساد ہے، اور مستثنیٰ منقطع درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جن کو حاضر نہیں کیا جائے گا وہ قوم الیاس میں سے نہیں ہیں، اس میں فساد نظم کلام ظاہر ہے۔ تفسیر و تشریح ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبح سے نجات اور ان پر احسان کے بیان سے فراغت کے بعد اب ان انعامات کا ذکر فرما رہے ہیں، جو حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) پر فرمائے، ان نعمتوں میں جو اللہ تعالیٰ نے ان حضرات پر فرمائیں سب سے زیادہ اہم اور افضل نبوت ہے، اس کے بعد فرعون کے ذلت آمیز غلامی سے نجات کا ذکر ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ متعدد مقامات پر تفصیل و اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے، یہاں واقعہ کی طرف صرف اشارہ ہے، یہاں اس واقعہ کو ذکر کرنے سے اصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص برگزیدہ اور اطاعت شعار بندوں کی کس طرح مدد فرماتے ہیں، اور انہیں کیسے کیسے انعامات سے نوازتے ہیں، انعامات کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک مثبت انعامات یعنی فائدہ پہنچانا وَلَقَدْ مَنَنَّا علیٰ موسیٰ وھارونَ میں اسی انعام کی طرف اشارہ ہے، دوسری قسم منفی انعامات، یعنی نقصان سے بچانا، اگلی آیت میں اسی کی تفصیل ہے۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) : وَاِنَّ الیاس لمن المُرْسَلِیْنَ اس سورت میں مذکور قصوں میں سے یہ چوتھا قصہ ہے، حضرت الیاس (علیہ السلام) کا قرآن کریم میں صرف دو جگہ ذکر آیا ہے، ایک سورة انعام میں اور دوسرے سورة صافات کی انہیں آیتوں میں، سورة انعام میں تو صرف انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست میں آپ کا اسم گرامی شمار کرایا گیا ہے، اور کوئی واقعہ ذکر نہیں کیا گیا، البتہ یہاں نہایت اختصار کے ساتھ آپ کی دعوت و تبلیغ کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔ چونکہ قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کے حالات تفصیل سے مذکور نہیں ہیں، اور نہ مستند احادیث میں آپ کے حالات کا تذکرہ ہے، روایات میں جس قدر بھی آپ کے حالات ملتے ہیں ان میں سے بیشتر اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہیں، مفسرین میں سے ایک مختصر جماعت کا کہنا یہ ہے کہ الیاس، حضرت ادریس (علیہ السلام) ہی کا دوسرا نام ہے، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ الیاس اور خضر (علیہ السلام) ایک ہی ہیں۔ (درمنثور) لیکن محققین نے ان اقوال کی تردید کی ہے، حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ زمانہ بعثت اور مقام : قرآن و حدیث سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ آپ کہاں اور کب مبعوث ہوئے تھے ؟ لیکن تاریخی اور اسرائیلی روایات اس پر تقریباً متفق ہیں کہ آپ حضرت حزقیل (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت یسع (علیہ السلام) سے پہلے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جانشینوں کی بدکاری کی وجہ سے بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک حصہ ” یہودیہ “ کہلاتا تھا، اس کا مرکز بیت المقدس تھا، اور دوسرا حصہ ” اسرائیل “ کہلاتا تھا، اور اس کا پایہ تخت سامرہ، موجودہ نابلس تھا، حضرت الیاس (علیہ السلام) اردن کے علاقہ جلعاد میں پیدا ہوئے تھے، اس وقت اسرائیل کے ملک میں جو بادشاہ حکمراں تھا اس کا نام بائبل میں اخی اب اور عربی تاریخ و تفاسیر میں اجب یا اخب مذکور ہے، اس کی بیوی ایزیل، بعل نامی ایک بت کی پرستار تھی، اور اس نے اسرائیل میں بعل کے نام پر ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کرکے تمام بنی اسرائیل کو بت پرستی کے راستہ پر لگا دیا تھا، حضرت الیاس (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ اس خطہ میں جا کر توحید کی تعلیم دیں، اور اسرائیلیوں کو بت پرستی سے روکیں۔ (تفسیر ابن جریر، وابن کثیر، مظھری اور بائبل کی کتاب سلاطین، معارف) قوم کے ساتھ کشمکش : دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی اپنی قوم کے ساتھ شدید کشمکش سے دو چار ہونا پڑا، قرآن کریم چونکہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اس لئے اس نے اس کشمکش کا مفصل حال بیان کرنے کے بجائے صرف اتنی بات بیان فرمائی جو عبرت اور موعظت کیلئے ضروری تھی، یعنی یہ کہ ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور چند مخلص بندوں کے سوا کسی نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی بات نہ مانی، اس لئے آخرت میں انہیں ہولناک انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔ بعض مفسرین نے یہاں اس کشمکش کے مفصل حالات بیان فرمائے ہیں، مروجہ تفاسیر میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا سب سے زیادہ مفصل تذکرہ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے، اس میں جو واقعات مذکور ہیں وہ تقریباً تمام تر بائبل سے ماخوذ ہیں، دوسری تفسیروں میں بھی ان واقعات کے بعض اجزاء حضرت وہب بن منبہ اور کعب الاحبار وغیرہ کے حوالہ سے بیان ہوئے ہیں، جو اکثر اسرائیلی روایات سے نقل کرتے ہیں۔ (معارف) ان تمام روایات سے خلاصہ کے طور پر جو بات قدر مشترک نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کی رعایا کو بعل نامی بت کی پرستش سے روک کر توحید کی دعوت دی، مگر چند حق پسندوں کے سوا کسی نے آپ کی دعوت قبول نہیں کی، بلکہ آپ کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اخی اب اور اس کی بیوی ایزیل نے آپ کے قتل کے منصوبے بنائے، آپ نے ایک دور افتادہ غار میں پناہ لی، اور عرصہ دراز تک وہیں مقیم رہے، اسکے بعد آپ نے دعا فرمائی کہ اسرائیلی قحط کا شکار ہوجائیں تاکہ اس قحط سالی کو دور کرنے کیلئے آپ ان کو معجزات دکھائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں، چناچہ انہیں شدید قحط میں مبتلا کردیا گیا۔ اسکے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب سے ملے اور اس سے کہا یہ عذاب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اگر تم اب بھی باز آجاؤ تو عذاب دور ہوسکتا ہے، میری صداقت کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے، تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمہارے معبود بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن سب کو میرے سامنے جمع کرلو، وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں، اور میں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ جلا دے اس کا دین سچا ہوگا، سب نے اس تجویز کو منظور کرلیا، چناچہ کوہ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا، بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی اور صبح سے دوپہر تک بعل سے التجا کرتے رہے مگر کوئی جواب نہ ایا، اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اپنی قربانی پیش کی، اس پر آسمانی آگ نازل ہوئی اور اس کو جلا کر خاکستر کردیا، یہ دیکھ کر سب لوگ سجدے میں گرگئے اور ان پر حق واضح ہوگیا، لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے اس لئے حضرت الیاس نے ان کو وادئ قیسون میں قتل کرا دیا۔ (معارف) اس واقعہ کے بعد زوردار بارش ہوئی اور قحط ختم ہوگیا مگر اخی اب کی بیوی ایزیل کی اب بھی آنکھ نہ کھلی، اور بجائے اس کے کہ ایمان لاتی، حضرت الیاس کے قتل کی تیاری شروع کردی، حضرت الیاس یہ سن کر پھر سامریہ سے روپوش ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد اسرائیل کے دوسرے ملک یہودیہ میں تبلیغ شروع کردی چند سال بعد آپ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کے لڑکے اختر یاہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی مگر وہ بدستور اپنی بد اعمالیوں میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ انہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنادیا گیا، اس کے بعد اللہ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔ کیا حضرت الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں ؟ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی موت وحیات کا مسئلہ اہل علم کے نزدیک مختلف فیہ ہے تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کرکے آسمان کی طرف اٹھالیا گیا، اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح زندہ ہیں، چار انبیاء ایسے ہیں جو زندہ ہیں، دو زمین پر ہیں حضرت خضر اور حضرت الیاس، اور دو آسمانوں میں حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس (در منثور، ص 285/286، ج 5) لیکن حافظ ابن کثیر جیسے محقق علماء نے ان روایات کو صحیح قرار نہیں دیا، حافظ ابن کثیر ان جیسی روایات کے بارے میں لکھتے ہیں : وَھُوَ منَ الإسرَائیلیَاتِ الَّتی لاتصدق ولا تُکذَّبُ بل الظَّاھِرْ انَّ صحَّتھَا بعیدۃٌ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہے، جن کی نہ تصدیق کی جاسکتی ہے نہ تکذیب، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی صحت بعید ہے۔ (البدایۃ والنھایۃ، ص 338، ج 1) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہر تھے، یہی روایتیں مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہوں گی جن سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی کا نظریہ بعض مسلمانوں میں بھی پھیل گیا، ورنہ قران و حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، جس سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی یا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو، صرف ایک روایت میں مستدرک حاکم میں ملتی ہے، جس میں مذکور ہے کہ تبوک کے راستہ میں آنحضرت ﷺ کی ملاقات حضرت الیاس (علیہ السلام) سے ہوئی، لیکن یہ روایت بتصریح محدیثین موضوع ہے، حافظ ذہبی فرماتے ہیں بل ھُوَ موضوعٌ قبَّحَ اللہُ من وضعہٗ وما کنت احسب ولا اجوزُ ان الجھل یبلُغُ بالحاکم الی ان یُصِححَّ ھٰذا۔ بلکہ یہ حدیث موضوع ہے خدا برا کرے اس شخص کا جس نے یہ حدیث وضع کی، اس سے پہلے میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ امام حاکم کی بت خبری اس حد تک پہنچ سکتی ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیں۔ (درمنثور، ص 286، ج 5) اتدعون۔۔۔۔ الخالقین ” بعل “ لغت میں شوہر اور مالک وغیرہ کو کہتے ہیں، لیکن یہاں وہ بت مراد ہے جس کو حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اپنا معبود بنا رکھا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی شام کے علاقہ میں اس بت کی پرستش ہوتی تھی، شام کا مشہور شہر بعلبک بھی اسی نام سے موسوم ہوا، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل حجاز کا مشہور بت ہبل بھی یہی بعل ہے۔ (قصص القرآن، ص 28، ج 2، معارف) آیت میں خالق سے مراد صانع ہے، احسن الخالقین ” سب سے اچھا خالق “ کا مطلب یہ نہیں کہ معاذ اللہ کوئی دوسرا بھی خالق ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن جھوٹے معبودوں کو تم نے خالق قرار دیا ہوا ہے، وہ ان سب میں بہتر صانع اور بنانے والا ہے، اس لئے کہ دیگر صانعین صرف اتنا ہی تو کرتے ہیں کہ مختلف اجزاء کو جوڑ توڑ کر اور حل و ترکیب کرکے کوئی چیز تیار کرتے ہیں، مادہ کو پیدا کرکے کسی شئ کو عدم سے وجود میں لانا ان کے بس کی بات نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ معدوم ایشاء کو وجود بخشنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ (بیان القرآن ملخصاً ) سلام علی ال یاسینَ نافع اور ابن عامر اور یعقوب وغیرہ نے آل یاسین اضافت کے ساتھ پڑھا ہے، اور مصحف عثمانی میں منفصلاً لکھا ہے جس سے اس قراءت کی تائید ہوتی ہے، مشہور یہ ہے کہ الیاسین، الیاس (علیہ السلام) کا نام ہے، عرب عجمی ناموں کو جب عربی میں استعمال کرتے ہیں تو ان میں کافر ردو بدل اور چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے کافی حذف اضافی کرلیتے ہیں، جیسے سیناء سے سینین کرلیا اسی طرح یہاں بھی الیاس کا الیاسین کرلیا یہودیوں کے نزدیک حضرت الیاس ہی ایلیا کے نام سے مشہور و معروف ہیں وان لوطاً لمن المرسلینَ ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سورت میں مذکورہ واقعات میں سے یہ پانچواں واقعہ ہے، یہ واقعہ پیچھے کئی مقامات پر گزر چکا ہے، اس لئے یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں، یہاں اہل مکہ کو خاص طور پر یہ تنبیہ کی گئی ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ اے اہل مکہ تم ملک شام کے تجارتی سفر میں ان تباہ شدہ علاقوں سے آتے جاتے گزرتے ہو، جہاں اب بھی بحیرۂ مردار موجود ہے جو کہ نہایت کریہہ و متعفن اور بدبودار ہے، کیا تم انہیں دیکھ کر یہ بات نہیں سمجھتے کہ تکذیب رسل کی وجہ سے ان کا یہ بد انجام ہوا، تو تمہاری اس روش کا انجام بھی اس سے مختلف کیوں ہوگا ؟ تم بھی وہی کام کر رہے ہو جو انہوں نے کیا، تو پھر تم اللہ کے عذاب سے کیوں محفوظ رہو گے ؟
Top