Tafseer-e-Jalalain - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
کہہ دو کہ اے نادانو ! تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں غیر خدا کی پرستش کرنے لگوں
آیت نمبر 64 تا 70 ترجمہ : آپ کہہ دیجئے، اے جاہلو ! پھر بھی تم مجھ سے غیر اللہ کی عبادت کرنے کو کہتے ہو غَیْرَ ، تامُرونی کے معمول اَعْبُدُ کے ذریعہ منصوب ہے اَنْ کی تقدیر کے ساتھ ایک نون اور دو نونوں اور ادغام اور بدون ادغام کے یقیناً تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے گزر چکے ہیں یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ واللہ، اگر بالفرض اے محمد ﷺ تو (بھی) شرک کرے گا تو بلاشبہ تیرا عمل (بھی) ضائع ہوجائے گا، اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا بلکہ تو اللہ وحدہٗ کی عبادت کر اور تیرے اوپر اس کے انعام کا شکر کرنے والوں میں سے رہ اور ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی عظمت نہ پہچانی جیسا کہ پہچاننی چاہیے تھی، اس کے ساتھ شرک کرکے نہ اس کے حق کو پہچانا جیسا کہ اس کی معرفت کا حق تھا اور نہ اس کی تعظیم کی جیسی کہ کرنی چاہیے تھے، ساری زمین قیامت کے دن اسکی مٹھی میں ہوگی (جمیعًا) حال ہے یعنی ساتوں زمینیں (اس کی مٹھی میں ہوں گی) یعنی اس کی ملک و تصرف میں ہوں گی اور تمام آسمان لپٹے ہوئے اس کے داہنے ہاتھ (یعنی) اس کی قدرت میں ہوں گے وہ پاک اور برتر ہے اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھہرائیں اور صور پھونک دیا جائے گا، پہلا صور، لہٰذا زمین و آسمانوں میں جو بھی ہے فوت ہوجائے گا جس کو وہ چاہے (مثلاً ) حور اور بچے وغیرہ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو ایک دم وہ تمام مردہ مخلوق اٹھ کھڑی ہوگی اور انتظار کرنے لگے گی کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاتا ہے ؟ اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی، جب وہ مقدمات کے فیصلے کے لئے جلوہ افروز ہوگا، کتاب یعنی نامہ عمل حساب کے لئے (سامنے) رکھ دیا جائے گا، اور انبیاء اور شہداء کو لایا جائے گا یعنی محمد ﷺ اور ان کی امت کو لایا جائے گا، اور یہ لوگ رسولوں کی پیغام رسانی کی گواہی دیں گے اور لوگوں کے درمیان عدل (و انصاف) کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور جو کچھ لوگ کرتے ہیں وہ اس سے بخوبی واقف ہے لہٰذا اس کو گواہ کی ضرورت نہ ہوگی۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : افغیر اللہ تأمُرُونی یہ اصل میں أتامُرُوننی ان اعبد غیُر اللہِ ، اعبدُ کے مفعول غیر اللہ کو تأمُروننی پر جو کہ اعبد کا عامل ہے مقدم کردیا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ صورت ضعیف ہے، (مگر ضعیف کہنا درست نہیں ہے) اس لئے کہ أن لفظوں میں نہیں ہے لہٰذا اس کا عمل باقی نہیں رہے گا۔ دوسری صورت یہ کہ غیر اللہ کو تامرونّی کے ذریعہ منصوب مانا جائے، اور اعبُدَ کو اس سے بدل مانا جائے، تقدیر عبارت یہ ہوگی قل : افتأمُرُونی بعبادۃ غیر اللہ یہ ترکیب بدل الاشتمال کے قبیل سے ہوگی۔ تیسری صورت غَیرَ فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہو اَی افَتَلْزَمُونِی غَیْرَ اللہِ اس صورت میں اس کا مابعد اس کے لئے مفسر ہوگا، اس کے علاوہ بھی ترکیبیں ہوسکتی ہیں (اعراب القرآن دیکھیں) قولہ : تامُرُونی صیغہ جمع مذکر حاضر، تم مجھ کو حکم دیتے ہو، اس میں (ی) ضمیر واحد متکلم ہے اور نون ادغام کی وجہ سے مشدد ہے۔ قولہ : ولقد اوحِیَ الیکَ لام جواب قسم کے لئے ہے ای واللہ لقَدْ ، قَد حرف تحقیق ہے، اوحِیَ فعل ماضی مجہول ہے اور الیک قائم مقام نائب فاعل ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ نائب فاعل سیاق وسباق کے قرینہ کی وجہ سے محذوف ہے، ای اُوحِیَ اِلیکَ التوحید۔ قولہ : فرضًا یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہوتے ہیں، ان سے شرک کا ارتکاب نہیں ہوسکتا، تو پھر لإن اشرکت کیوں کہا گیا ؟ جواب : فرض محال کے طور پر کہا گیا ہے بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ خطاب اگرچہ آپ ﷺ کو ہے مگر مراد امت ہے مگر اب یہ سوال پیدا ہوگا کہ اگر مراد امت ہے لإن اشرکت کے بجائے لان اشرکتُم کہنا چاہیے تھا، اس کا جواب یہ ہے، معنی یہ ہیں اوحِیَ الی کُل واحدٍ منھم لان اشرکت الخ جیسا کہ عرب میں بولا جاتا ہے، کسانا الامیرُ حلَّۃً ای کساکلَّ واحدٍ منا حُلَّۃً ۔ تفسیر و تشریح قل افغیر اللہ تامرونی (الآیۃ) یہ کفار کی اس دعوت کو جواب ہے جو آپ ﷺ کو دیا کرتے تھے کہ اپنے آبائی دین (بت پرستی) کو اختیار کرلیں، اور بتوں کی مذمت چھوڑ دیں، اس لئے کہ اگر ہماری دیوی دیوتاؤں کو غصہ آگیا تو ہلاک کر ڈالیں گے یا پاگل بنادیں گے، لإن اشرکت میں اگرچہ خطاب آپ ﷺ کو ہے مگر مراد امت ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ تو شرک سے پاک تھے ہر نبی معصیت سے پاک ہوتا ہے اور آئندہ کے لئے محفوظ بھی، کیونکہ اللہ کی حفاظت اور عصمت میں ہوتا ہے، ان سے ارتکاب و کبائر کا کوئی امکان نہیں ہوتا مگر چونکہ امت کو سمجھانا مقصود ہے اس لئے آپ کو خطاب فرمایا کہ امت کو یہ تأثر ملے کہ جب شرک سے نبی جیسی برگزیدہ ہستی کے اعمال سلب اور حبط ہوسکتے ہیں تو ماوشما کس شمار و قطار میں ہیں بَلِ اللہ فاعبد، ایاک نعبد کی طرف یہاں بھی اللہ مفعول کو مقدم کرکے حصر کی طرف اشارہ کردیا یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور شرک کے ذریعہ اعمال کے حبط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شرک ہی پر موت آئی ہو اور مرنے سے پہلے شرک سے توبہ کرلی تو یہ حکم نہیں ہے۔ وما قدروا اللہ حق قدرہٖ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت اور حقیقی عظمت جو کہ اس کی شایان شان ہو وہ بندے کیلئے ممکن نہیں اور نہ بندہ اس کا مکلف، البتہ جس قدر معرفت و تعظیم کا مکلف اور مامور ہے، کفار و مشرکین نے وہ بھی نہیں کی، اس لئے کہ اپنے پیغمبروں کے ذریعہ جو دعوت توحید ان کے پاس بھیجی تھی اس کو نہیں مانا، عبادت کو اس کے لئے خالص نہ کرتے ہوئے غیر اللہ کو اس کی ذات وصفات میں شریک کرلیا، مشرکین نے اس کی عظمت و جلال، بزرگی و برتری کو اتنا نہ سمجھا جتنا ایک بندے کو سمجھنا چاہیے تھا، اس کی شان رفیع اور مرتبہ بلند کا اجمالی تصور بھی رکھنے والا، کیا عاجز و محتاج مخلوق، حتی کہ بےجان پتھر اور دھات کی عاجز و مجبور مورتیوں کو اس کا شریک وسہیم تجویز کرسکتا ہے ؟ حاشاو کلا ہرگز نہیں کیا اس سے زیادہ اس مالک کون و مکان خالق زمین و زماں کی ناقدری اور ناحق شناسی ہوسکتی ہے ؟ اگلی آیت میں اس کی بعض شئون عظمت و جلال کا بیان ہے۔ والارض۔۔۔۔ القیامۃ (الآیۃ) القبضۃُ ، ما قُبِضَ علیہ بجمیع الکف علیہ یعنی اس کی عظمت شان کا یہ حال ہے کہ قیامت کے دن کل زمین اس کی مٹھی اور سارے آسمان کاغذ کے مانند لپٹے ہوئے ایک ہاتھ میں ہوں گے۔ کلمات متشابہات : مطویات بیمینہٖ ، یمینٌ وغیرہ الفاظ متشابہات میں سے ہیں جن پر بلا کیف ایمان رکھنا واجب ہے، بعض احادیث میں ہے وکلتا یدیہ یمینٌ کو اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، اس سے تجسم، تحیز اور جہت وغیرہ کی نفی ہوتی ہے۔ (فوائد عثمانی) کلمات متشابہات کے سلسلہ میں اہل حق کا مسلک : کلامی یعنی عقائد کے باب میں اہل حق کی تین جماعتیں ہیں، اشاعرہ، ماتریدیہ، سلفیہ (یا حنابلہ) ۔ (1) اشاعرہ : وہ حضرات ہیں جو شیخ ابو الحسن اشعری (رح) تعالیٰ (260/334 ھ) کی پیروی کرتے ہیں، امام ابو الحسن اشعری چونکہ شافعی تھی، اسلئے یہ مکتب فکر شوافع میں مقبول ہوا، یعنی حضرات شوافع عام طور پر کلامی مسائل میں اشعری ہوتے ہیں (2) ماتریدیہ : وہ حضرات ہیں جو شیخ ابو منصور ما تریدی (رح) تعالیٰ (متوفی 333 ھ) کی پیروی کرتے ہیں، امام تریدی چونکہ حنفی تھے اس لئے یہ مکتب فکر احناف میں مقبول ہوا، احناف عام طور پر کلامی مسائل میں ما تریدی ہوتے ہیں، اشاعرہ اور ما تریدیہ کے درمیان بارہ مسائل میں اختلاف ہے جو فروعی (غیر اہم) مسائل ہیں، بنیادی اختلاف کسی مسئلہ میں نہیں ہے، ان مختلف فیہا بارہ مسائل کو علامہ احمد بن سلیمان معروف بہ ابن کمال پاشا (رح) تعالیٰ (متوفی 940 ھ) نے ایک رسالہ میں جمع کردیا ہے، یہ رسالہ مطبوعہ ہے، مگر عام طور پر علماء اس سے واقف نہیں ہیں، اس رسالہ کو حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب مدظلہ پالنپوری استاذ حدیث دار العلوم دیوبند نے اپنی قابل فخر اور مایۂ ناز تصنیف رحمۃ اللہ الواسعہ کے صفحہ 48 پر علماء کے استفادہ کیلئے نقل کردیا ہے۔ (3) سلفیہ : یہ وہ حضرات ہیں جو صفات خداوندی کی تو ویل کے عدم جواز میں حضرت امام احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ (164/241) کے مسلک پر ہیں، چونکہ صفات کے تعلق سے یہ ذوق اسلاف کرام کا تھا، اس لئے یہ حضرات سلفی کہلائے، اس جماعت کو کتابوں میں حنابلہ بھی لکھا گیا ہے، مگر چونکہ فقہی جنسیت سے اشتباہ ہوتا تھا، اس لئے رفتہ رفتہ یہ اصطلاح متروک ہوگئی، مسئلہ خلق قرآن میں یہی نام سلفیہ کے لئے استعمال ہوا ہے، نیز اس مسلک کو مسلک محدثین بھی کہا جاتا ہے، اس لئے کہ امام مالک، سفیان ثوری وغیرہ حضرات محدثین سے صفات متشابہات کے بارے میں یہی نقطہ نظر مروی ہے، اس زمانہ میں جو سلفیت کو بمعنی ظاہریت یعنی عدم تقلید ائمہ استعمال کیا جاتا ہے وہ رلبیس ہے اور لفظ کا غیر معروف معنی میں استعمال ہے۔ سلفیوں کا اشاعرہ اور ماتریدیہ سے اختلاف : سلفیوں کا اشاعرہ اور ما تریدیہ سے یہ اختلاف صرف ایک معمولی بات میں ہے، اور وہ یہ ہے کہ صفات متشابہات مثلاً استواء علی العرش، یدٌ، وجہٌ وغیرہ کی تاویل جائز ہے یا نہیں ؟ سلفیوں کے یہاں تاویل ناجائز ہے اور باقی دونوں مکاتب فکر کے نزدیک تاویل جائز ہے، چناچہ قرآن کریم کو جو اللہ کی صفت کلام ہے مطقاً بلا تاویل قدیم کہتے ہیں، اور اشاعرہ ما تریدیہ کلام نفسی کی تاویل کرتے ہیں اور اس کو قدیم کہتے ہیں، امام بخاری (رح) تعالیٰ نے مسلک محدثین کے خلاف ” لفظی بالقرآن حادث “ کہہ دیا تھا، تو حنابلہ نے جن کو سرخیل امام ذہلی تھے ایک طوفان کھڑا کردیا تھا۔ ( (رح) الواسعہ) ۔ غرضیکہ علم کلام میں یہی تین جماعتیں برحق ہیں دیگر تمام فرق اسلامیہ جیسے معتزلہ، جہمیہ، کر امیہ وغیرہ گمراہ فرقے ہیں، اور یہی فرقے اہل سنت والجماعت کے مد مقابل ہیں۔ (رحمۃ اللہ الواسعہ) ونفخ فی۔۔۔۔ فی الارض بعض کے نزدیک (نفخہ فرع کے بعد) یہ نفخہ ثانیہ یعنی نفخہ صعق ہے، جس سے سب کی موت واقع ہوجائے گی، بعض کے نزدیک صعق نفخہ اولیٰ ہی ہے، اسی سے اولاً سخت گھبراہٹ ہو کر بےہوشی طاری ہوجائے گی، پھر سب کی موت واقع ہوجائے گی، اور بعض حضرات نے ان نفخات کی ترتیب اس طرح بیان کی ہے (1) نفخۃ فناء (2) نفخۃ البعث (3) نفخۃ الصعق (4) نفخہ القیام لرب العالمین (ایسر التفاسیر) اور بعض کے نزدیک صرف دہ ہی نفخے ہیں، نفخہ موت اور نفخہ بعث۔ الا ماشاء اللہ یعنی نفخۃ فنا کے بعد اللہ جس کو چاہے گا اس کو موت نہیں آئے گی، جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ، میکائل علیہ السلام، اسرافیل (علیہ السلام) اور بعض نے ان میں نگران جنت رضوان اور نگران جہنم مالک، اور حملۃ العرش کو بھی شامل کیا ہے (اور بعض نے حور و غلمان وغیرہ کو بھی) ۔ (فتح القدیر) وجآی بالنبیین والشھداء (الآیۃ) نبیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچا دیا تھا ؟ یا یہ پوچھا جائے گا کہ تمہاری امتوں نے تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا تھا ؟ قبول کیا یا انکار کیا ؟ امت محمدیہ کو بطور گواہ لایا جائے گا، جو اس بات کی گواہی دے گی کہ تیرے پیغمبروں نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچا دیا تھا، جیسا کہ تو نے ہمیں اپنے قرآن کے ذریعہ مطلع فرمایا تھا
Top