Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
آیت نمبر 11 تا 14 ترجمہ : اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں (آئندہ) مذکور کا حکم دیتا ہے اولاد میں سے ایک لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے جبکہ دو لڑکیاں ایک لڑکے کے ساتھ ہوں، لڑکے کیلئے مال (متروکہ) کا نصف ہے اور دونوں لڑکیوں کے لئے نصف (اور) اگر ایک لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی ہو تو لڑکی کیلئے ایک ثلث اور لڑکے کیلئے دو ثلث اور اگر لڑکا تنہا ہو تو پورا مال لے لیگا۔ اور اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں، دو سے زیادہ تو ان کیلئے میت کے متروکہ مال کا دو ثلث ہے اور اسی طرح جبکہ لڑکیاں صرف دو ہوں اسلئے کہ دو تہائی دو بہنوں کیلئے ہے اللہ تعالیٰ کے قول : فَلَھُمَا الثُّلُثَانِ مِمّا تَرَکَ ، کی وجہ سے، لہٰذا دو لڑکیاں اس کی بطریق اولیٰ مستحق ہونگی۔ اور اس لئے کہ لڑکی لڑکے کے ساتھ ایک تہائی کی مستحق ہوتی ہے تو مؤنث کے ساتھ بطریق اولیٰ مستحق ہوگی۔ اور لفظ فوق، کہا گیا ہے کہ صلہ یعنی (زائد ہے اور کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کی تعداد کے زیادہ ہونے کی صورت میں حصہ کے زیادہ ہونے کے وہم کو دفع کرنے کے لئے ہے کہ دو لڑکیوں کا دو ثلث کا مستحق ہونا لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی ہونے کی صورت میں ایک ثلث سے سمجھا گیا، اور اگر اولاد میں فقط ایک لڑکی ہو تو لڑکی کو (ترکہ) کا نصف ہے، اور ایک قراءت میں (واحدۃٌ) رفع کے ساتھ ہے، تو اس صورت میں ’ کَانَ ‘ تامہ ہوگا اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے متروکہ مال سے چھٹا حصہ ہے اگر میت کی اولاد ہو، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، اور (لِکُلِّ وَاحدٍ ) اَبْوَیْہِ سے بدل ہے، اور بدل میں نکتہ یہ ہے کہ اس بات کا فائدہ ہوگیا کہ دونوں ایک سدس میں شریک نہ ہوں گے، (بلکہ ہر ایک کو سدس) ملے گا، اور ولد کے ساتھ ولد الابن اور اب کے ساتھ جد بھی شامل کردیا گیا ہے اور اگر (میت) کے اولاد نہ ہو اور وارث فقط اس کے والدین ہی ہوں یا مرنے والے کا زوج بھی ہو (بیوی یا شوہر) تو (میت) کی والدہ کیلئے کل مال کا ایک تہائی ہے یا زوج کو دینے کے بعد مابقیہ کا ایک تہائی ہے، اور باقی والدہ کیلئے ہے۔ (فَلُامِّہٖ ) کا ہمزہ ضمہ کے ساتھ، اور کسرہ کے ساتھ بھی ہے، ضمہ سے کسرہ کی طرف انتقال سے بچنے کے لئے اس کے ثقیل ہونے کی وجہ سے دونوں جگہوں میں، اور اگر میت کے دو یا دو سے زیادہ بھائی یا بہن تو میت کی والدہ کے لئے ایک سدس ہے اور باقی والد کے لئے ہے، اور بھائی بہنوں کے لئے کچھ نہیں ہے اور مذکورین کے لئے مذکورہ حصے میت کی وصیت کو نافذ کرنے یا قرض ادا کرنے کے بعد ہیں (یُوْصِیٰ ) معروف و مجہول دونوں طریقہ پر ہے اور وصیت کی دین پر تقدیم اس کے اہتمام کی وجہ سے ہے اگرچہ اداء میں مؤخر ہے تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا و آخرت میں تم کو فائدہ پہنچانے میں تمہارے کون زیادہ قریب ہے ؟ (آبَاؤُکُمْ وَاَبْنَآءُکُمْ ) مبتداء ہے اور لَاتَدْرُوْنَ ، اس کی خبر ہے، یہ گمان کرنے والا کہ اس کا بیٹا اس کے لئے زیادہ مفید ہے تو اس کو میراث دیدیتا ہے حالانکہ اس کا باپ اس کیلئے زیادہ نافع ہوتا ہے اور اس کا عکس بھی ہوسکتا ہے اس کا جاننے والا تو درحقیقت اللہ ہی ہے جس وجہ سے اس نے تمہارے لئے میراث (کے حصے) مقرر کر دئیے، یہ حصے اللہ کی جانب سے مقرر کردہ ہیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر ہے اور اس میں با حکمت ہے، جو اس نے ان کے لئے مقرر کیا ہے یعنی وہ اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اس کا تمہارے لئے نصف ہے اگر ان کے تم سے یا دوسرے شوہر سے اولاد ہو تو متروکہ مال میں تمہارے لئے چوتھائی ہے ان کی وصیت کو نافذ کرنے یا ان کے قرض کو ادا کرنے کے بعد، اور اس حکم میں بیٹے کے ساتھ پوتا بالا جماع ملایا گیا ہے، اور بیویوں کیلئے متعدد ہوں یا نہ ہوں تمہارے متروکہ مال کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو خواہ ان سے ہو یا دوسری بیویوں سے، تو ان کے لئے تمہارے متروکہ مال میں سے آٹھواں حصہ ہے ان کی وصیت کو نافذ اور قرض کو ادا کرنے کے بعد، اور پوتا اس حکم میں بالاجماع بیٹے کی مانند ہے، اور مورث مرد ہو یا عورت کَلٰلَۃ ہو یعنی نہ اس کے بیٹا ہو اور نہ باپ (یورث) رجلٌ کی صفت ہے اور کَلٰلَۃً ، کَانَ کی خبر ہے اور اگر عورت، مورث کَلٰلَۃ ہو اور مورث کلٰلہ کے ماں شریک بھائی یا بہن ہو، اور یہ قراءت ابن مسعود وغیرہ کی ہے، تو متروکہ مال میں سے ان میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے اور اگر ماں شریک بھائی اور بہن ایک سے زائد ہوں تو یہ سب کے سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، اور مذکر اور مؤنث اس میں برابر ہوں گے، وصیت کے نافذ کرنے اور قرض کے ادا کرنے کے بعد، جبکہ دوسروں کا نقصان نہ ہو (غیرَ مضارّ ) یوصٰی، کی ضمیر سے حال ہے یعنی ورثاء کو ضرر پہنچانے والا نہ ہو، اس طریقہ سے کہ ثلث سے زیادہ کی وصیت کرے یہ حکم اللہ کا مقرر کیا ہوا ہے وصیۃ، یوصیکم کی تاکید کیلئے ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی حکمت خوب جانتا ہے جو فرائض اس نے اپنی مخلوق کے لئے مقرر کئے ہیں اور ان احکام کی مخالفت کرنے والے سے سزا مؤخر کرنے میں بردبار ہے اور سنت رسول نے مذکورہ توریث اس وارث کے لئے خاص کی ہے جس میں (وراثت سے) کوئی مانع نہ ہو مثلاً قتل یا اختلاف دِیْن یا رِقَیت یتیموں کا معاملہ اور اس کے بعد کے یہ احکام مذکورہ، اللہ کی حدود ہیں یعنی اس کے احکام ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر فرمایا ہے تاکہ اس پر عمل کریں اور ان سے تجاوز نہ کریں اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مذکورہ احکام میں اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا (یُدْخلہ، نُدْخلہ) دونوں طریقوں سے ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا ایسوں کیلئے رسوا کن عذاب ہے یعنی اہانت آمیز اور دونوں آیتوں کی ضمیروں میں لفظ مَنْ ، کی رعایت کی گئی ہے اور خلدین، میں معنی کی۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : یُوْصِیْ (ایصاءً ) مضارع واحد مذکر غائب معروف، وہ وصیت کرتا ہے وہ حکم دیتا ہے۔ وصیت کے اصل معنی ہیں انتقال کے وقت وصیت و نصیحت وغیرہ کرنا۔ قولہ : یَأمُرُکُمْ ، وصیت کے حقیقی معنی چونکہ ذات باری تعالیٰ کیلئے محال ہیں اسلئے مفسر علام نے یوصی کی تفسیر یأمُرُ سے کی ہے۔ قولہ : شان۔ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اَوْلاد، یأمُرُ ، کا ظرف ہے حالانکہ اولاد کا ظرف بننا صحیح نہیں ہے اسلئے کہ اولاد میں ظرف بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جواب : شان کی تقدیر صحت ظرفیت ہی کو بیان کرنے کے لئے ہے۔ قولہ : مِنْھم۔ سوال : مفسر علام نے مِنْھُمْ ، کس فائدہ کے لئے محذوف مانا ہے۔ جواب : لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ، یہ وصیت کی تشریح ہے لہٰذا ضمیر عائد کا ہونا ضروری ہے جو اولاد کی طرف راجع ہو، مگر عائس اس کے ظہور پر اعتماد کرتے ہوئے حذف کردیا گیا ہے، جیسا کہ ” اَلسَّمنُ مَنْوَانِ بِدرْھَمٍ “ میں مِنْہٗ کو ظاہر سے مفہہوم ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔ قولہ : فَاِنْ کُنَّ ای اَلْاَوْلَادُ ۔ سوال : کُنَّ ، کی تفسیر مفسر علام نے، اَوْلَاْدٌ سے کی ہے جو کہ مذکر ہے تو پھر کُنَّ ، مؤنث کی ضمیر کیوں لائے ہیں ؟ جواب : کُنَّ کی خبر نسآءٌ چونکہ مؤنث ہے لہٰذا خبر کی رعایت کرنے کی وجہ سے ضمیر کو مؤنث لائے ہیں۔ قولہ ؛ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ، اِنْ حرف شرط کُنَّ فعل ناقص، شرط، اس کے اندر ضمیر ھُنَّ وہ اس کا اسم نِسَاءً موصوف اور فَوْقَ اثْنَتَیْنِ صفت، موصوف صفت سے مل کر کُنَّ کی خبر کُنَّ اپنے اسم و خبر سے مل کر شرط، فَلَھُنَّ جواب شرط۔ قولہ : وفوق صلۃ وقیل لدفع تو ھم زیادۃ النصیب بزیادۃ العدد اس عبارت کے اضافہ کا مقصد حضرت ابن عباس ؓ کے تفرد کا جواب دینا ہے۔ اس عبارت میں دو جوابوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ابن عباس ؓ کا تفرّدیہ ہے کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ دو ثلث، لڑکیوں کو اس وقت ملے گا کہ جب لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں حالانکہ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ لڑکیاں اگر دو بھی ہوں تب بھی ان کو دو ثلث ملیں گے، اس تفرد کے دو جواب دئیے ہیں، اول جواب کا حاصل یہ ہے کہ لفظ فوق زائد محض صلہ کے لئے ہے، جیسے فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ ، میں لفظ فوق زائد، محض صلہ ہے وقیل لدفع توھم الخ، یہ دوسرا جواب ہے اس کا مقصد اس وہم کو دفع کرنا ہے کہ لفظ فوق سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ لڑکیوں کے عدد کے بڑھنے سے انکا حصہ بھی بڑھے گا، اسلئے کہ جب ایک لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ ہو تو ایک تہائی حصہ ہے اور دو ہوں تو دو تہائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی تعداد جس قدر بڑھتی رہے گی ان کے حصوں میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے اور یہ شبہ پیدا ہوا ہے لفظ فوق سے لہٰذا یہ کہہ کر کہ لفظ فوق زائد برائے صلہ ہے شبہ اس کو دفع کردیا۔ قولہ : وَیُبْدَلُ مِنْھَا، یہ ایک شبہ کا جواب ہے شبہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ وَلِاَبَوَیْہِ السُّدس، السدس مبتداءٌ مؤخرٌ اور لابویہ خبر مقدم فرماتے تو مختصر بھی ہوتا اور دال برمقصود بھی مبتداء اور خبر کے درمیان لِکلّ واحدٍ منھما، کا فصل کس مصلحت سے فرمایا۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ عدم فصل کی صورت میں یہ شبہ ہوتا کہ ایک سدس میں اب اور ام دونوں شریک سمجھے جاتے حالانکہ ہر ایک سدس کا مستحق ہے۔ اسلئے لِکل واحدٍ مِنھُمَا کو اَبَویْہِ سے بدل قرار دیا اور بدل مبدل منہ سے مل کر خبر مقدم اور السدس مبتداء مؤخر، اس طرح شرکت کا شبہ ختم ہوگیا۔ قولہ : فقط او مع زوج، زوج کا اطلاق زوج اور زوجہ دونوں پر ہوتا ہے۔ سوال : مفسر علام کے فقط اور مع زوج، کے اضافہ کا کیا مقصد ہے ؟ جواب : اس کا مقصد ابوین کی میراث کے بارے میں جمہور اور حضرت ابن عباس ؓ کے مسلک کے درمیان فرق کو واضح کرنا ہے۔ جمہور کے نزدیک اگر میت لا ولدہو اور اس کے وارث صرف اسکے والدین ہوں تو والدہ کو ثلث کل ملے گا اور مَا بَقِیَ دو ثلث والد کو ملے گا، اور اگر مرنے والے کے والدین کے ساتھ ساتھ زوج یا زوجہ بھی ہو تو اس صورت میں زوج یا زوجہ کو اقل مخرج میں سے دینے کے بعد مابقی کا ثلث ملے گا اور باقی دو ثلث والد کو ملیں گے۔ مگر حضرت ابن عباس ؓ کے مسلک کے مطابق دونوں صورتوں میں ماں کو ثلث کل ہی ملے گا، مفسر علام نے فَقَطْ اَوْمَع زَوْجٍٍٍ ، کہہ کر جمہور کے مسلک کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : بضم الھمزۃ وبکسر ھا فرارًا من الانتقال من ضمّۃ الی کسرۃ لِثِقْلَہٖ ، بضم الھمذۃ الخ سے فلِاُمِّہٖ میں دو قراءتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اور فَلِاُمِّہٖ ، کے ہمزرہ کے کسرہ کی علت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، مشہور قراءت ہمزہ کے جمہ کے ساتھ ہے یعنی فلِاُمِّہٖ ، اور دوسری قراءت میں ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ فَلِامَّہٖ ، ہے مفسر علام نے اس قراءت کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ فَلِاْمِّہٖ ، کی صورت میں ضمہ سے کسرہ کی طرف انتقال لازم آتا ہے جو کہ ثقیل ہے اسلئے ہمزہ کو بھی کسرہ دیدیا۔ قولہ : وَاِرْثُ مَنْ ذُکِرَ مَا ذُکِرَ یعنی مذکورین کی وراثت، بیان کردہ اصول کے مطابق ہوگی۔ قولہ : من بعد وصیۃ ما قبل میں بیان کردہ تقسیم، میراث کے اصول سے ہے مطلب یہ ہے کہ سابق میں ترکہ کے تقسیم کے اصول کے مطابق تقسیم، وصیت کے نفاذ اور اداء قرض کے بعد ہوگی، اگر میت نے وصیت کی ہو، اور مقروض ہو تو وصیت اور دین میں سے دین کو مقدم کیا جائے گا۔ قولہ : فَفَرَض لکم المیراث، یہ عبارت مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ فریضۃٌ فعل محذوف کا مصدر (مفعول مطلق) ہے نہ کہ یُوْصِیْکم اللہ کا مصدر۔ قولہ : یورَث صفۃ، یعنی یورث رجلٌ کی صفت ہے لہٰذا رَجَلٌ کا مبتداء بننا درست ہے اور کلالَۃ مبتداء کی خبر ہے۔ قولہ ؛ المَوْرُوْث، بروزن مفعول ثلاثی مجرد سے ای المیت۔ قولہ : وَرُوْعِیَ فِی الضمائر فی الْاَیتَیْنِ لفظُ مِنْ وفی خٰلِدِین مَعْنَاھَا، دونوں جگہ یُدْخِلْہٗ کی ضمیر کو مفرد مذکر مَنْ کے لفظ کی رعایت سے لایا گیا ہے اور خٰلِدِین کو جمع مذکر مَنْ ، کے معنی کی رعایت سے لایا گیا ہے۔ تفسیر و تشریح یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ (الآیۃ) اگر ورثاء میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں خواہ بالغ ہوں یا نابالغ حتی کہ اگر رحم مادر میں جنین کی صورت میں ہوں تب بھی لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ کے اصول کے مطابق میراث تقسیم ہوگی اور جنین کو لڑکا فرض کر کے اس کا حصۃ رکھا جائے گا، لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں زائد مال پھر ورثاء میں بحصہ رسد تقسیم کردیا جائیگا۔ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ، اور اگر لڑکا کوئی نہ ہو اور لڑکیاں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو مال کا دو تہائی لڑکیوں کو دیا جائے گا، لفظ، فوق جمہور کے نزدیک محض صلہ کے طور پر ہے، حضرت ابن عباس ؓ کا مسلک یہ ہے کہ دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی دیا جائیگا مگر جمہور کے نزدیک جو حکم دو سے زیادہ لڑکیوں کا ہے، دو کا بھی وہی حکم ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ سعد بن ربیع ؓ احد میں شہید ہوگئے تھے ان کی دو لڑکیاں تھیں، سعد کے بھائی نے تمام مام پر قبضہ کرلیا لڑکیوں کی ماں نے آپ ﷺ سے اس معاملہ کی شکایت کی تو آپ نے ان لڑکیوں کو دو تہائی مال دلوایا، واقعہ کی تفصیل سابق میں گزر چکی ہے۔ (ترمذی ابو داؤد، ابن ماجہ کتاب الفرائض) ۔ علاوہ ازیں سورة نساء کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کے وارث صرف دہ بہنیں ہوں تو اس کے لئے بھی دو تہائی حصہ ہے لہٰذا جب وہ بہنیں دو تہائی کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے، اسی طرح یہاں بھی ہوگا۔ وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً (الآیۃ) ماں باپ کے حصوں کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ (1) اگر مرنے والئ کی اولاد بھی ہو خواہ لڑکی ہو یا لڑکا تو مت باپ میں سے ہر ایک کو ایک ایک سدس ملے گا یعنی باقی چار سدس اولاد پر تقسیم ہوگا البتہ اگر میت کی اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو اس میں سے چونکہ تین سدس یعنی نصف مال بیٹی کا ہوگا، اور ایک سدس ماں کو اور ایک سدس باپ کو دینے کے بعد ایک سدس باقی بچ جائیگا اس لئے بچا ہوا یہ سدس بطور عصبہ باپ کے حصہ میں جائیگا۔ اس طرح باپ کے حصہ میں دو سدس آئیں گے ایک ذوالفرض ہونے کی حیثیت سے اور ایک عصبہ ہونے کی حیثیت سے۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہ ہو اور اولاد میں پوتے پوتیاں بھی شامل ہیں، اس صورت میں ماں کیلئے کل مال کا تیسرا حصہ ہے، باقی دو حصے باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو جمہور کے مذہب پر بیوی یا شوہر کا حصہ نکال کر باقی ماندہ مال سے ماں کے لئے ایک تہائی اور باقی باپ کیلئے ہوگا۔ (3) تیسری صورت یہ ہے کہ اگر ماں باپ کے ساتھ، مرنے والے کے بھائی بہن حیات ہیں وہ بھائی خواہ سگے ہوں یا اخیافی (ماں شریک) یا علاتی (باب شریک) اگرچہ یہ بھائی بہن میت کے باپ کی موجودگی میں وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے لیکن ماں کے لئے حجب نقصان کا سبب بن جائیں گے، یعنی جب ایک بھائی سے زیادہ ہوں گے تو ماں کے ثلث یعنی تیسرے حصہ کو چھٹے حصہ میں تبدیل کردیں گے باقی ماندہ ما، باپ کے حصہ میں جائیگا بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گا وہ سدس میں تبدیل نہ ہوگا۔ (تفسیر ابن کثیر) آبَآءُکُمْ وَاَبْنَآءُکُمْ لَاتَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلیْمًا حَکِیْمًا، حصص مقررہ بیان فرمانے کے بعد، متوجہ کیا گیا کہ تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم کرو، اسلئے ہوسکتا ہے کہ جس کو تم نافع سمجھ کر زیادہ حصہ دے رہے ہو وہ تمہارے لئے نافع نہ ہو اور جس کو تم غیر نافع سمجھ کر کم حصہ دے رہے ہو وہ تمہارے لیے نافع ہو اس حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لہٰذا اس نے جس کا حصہ مقرر کیا ہے اس میں ردوبدل نہ کرو اور تمہیں پورے اطمینان قلبی کے ساتھ اس کو قبول کرنا چاہیے، تمہارے خالق ومالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔
Top