Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 152
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓئِكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں پر وَلَمْ يُفَرِّقُوْا : اور فرق نہیں کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی کے مِّنْهُمْ : ان میں سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ سَوْفَ : عنقریب يُؤْتِيْهِمْ : انہیں دے گا اُجُوْرَهُمْ : ان کے اجر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مانا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں) کے صلے میں عطا فرمائے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
والذین آمنو باللہ ورسولہ ولم یفرقوابین احد منھم (الآیة) اس آیت میں اہل ایمان کا شیوہ بتلایا گیا ہے کہ وہ سب انبیاء کرام پر ایمان رکھتے ہیں جس طرح کہ مسلمان کسی بھی بنی کے منکر نہیں، اس آیت سے وحدت ادیان کے تصور کی نفی ہوتی ہے، جس کے قائلین کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں اور وہ غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان باللہ رکھتے ہیں، لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ ﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے، اگر اس آخری رسالت کا انکار ہوگیا تو اس انکار کے ساتھ ایمان باللہ بھی غیر معتبر اور نامقبول ہوگا۔ مذکورہ آیت میں اصل اشارہ یہود کی جانب ہے جو انبیاء سابقین میں سے اپنے ہی سلسلہ کے بعض انبیاء کے قائل نہیں تھے، مثلاً حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے منکر تھے اور آخری بنی محمد ﷺ کے بھی منکر ہوئے، مگر چونکہ قرآن کے الفاظ عام ہیں جن کے تحت نہ صرف یہ کہ مسیحی آتے ہیں بلکہ آجکل کے آزاد خیال نام نہاد روشن خیال بھی اس ذیل میں آجاتے ہیں یورپ میں ایک فرقہ (Deists) خدا پرستوں کا کہلاتا ہے اور ہندستان میں بھی ایک فرقہ برہموسماج ہے فرقہ توحید کا قائل ہے لیکن عقیدہ وحی و نبوت کا منکر ہے یہ سب ایسی غلط اور نا قص ذہنیت ہے جس کو اسلام ختم کرنا چاہتا ہے، اسلام تو وحدت تعلم انبیاء کا قائل ہے اس میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں کہ فلاں پیغمبر کو مانا جائے اور فلاں پیغمبر کو نہ مانا جائے، اور ایک درمیانی راہ نکالی جائے۔ اس آیت میں ان نام نہاد روشن خیال مسلمانوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جو شریعت میں سے صرف اپنے پسند و مذاق کی چیزیں چن کرلے لینا چاہتے ہیں، جیسے ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر نے کفر و اسلام کو ملا کر ایک دین الہی ایجاد کیا تھا، اور اکبر ہی کی نسل سے تین پشتوں کے بعد ایک شہزادہ دار اشکوہ نے بھی کچھ ایسی ہی کوشش کی تھی۔ اولٰیئک ھم الکٰفرون حقّا، اس آیت میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہے کہ مذکورہ نظریہ رکھنے والوں کا مرتبہ کافروں سے تو بہرحال بہتر ہوگا، نہیں بلکہ یہ لوگ بھی پکے کافر ہیں اولئک ھم الکٰفرون، جملہ کی ترکیب خود ہی زور پیدا کرنے کیلئے کافی ہے، حَقًّا، کے اضافہ نے مزید تاکید کردی۔
Top