Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بیشک خدا سنتا (اور) دیکھتا ہے
شان نزول : اِنَّ اللہ یأمرکم اَن تؤ دوا الامانات الی اھلھا، اس آیت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے، یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے کعبہ کی خدمت بڑی عزت کی بات سمجھی جاتی تھی، اور بیت اللہ کی مختلف خدمتیں مختلف لوگوں میں تقسیم کی جاتی تھیں، حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کے سپرد تھی، جس کو سقایہ کہا جاتا تھا، اسی طرح بیت اللہ کی کلید برادری کی خدمت عثمان بن طلحہ کے سپرد تھی، اس کو حجابت اور سدانت کہا جاتا تھا، اور یہ خدمت پشتہا پشت سے خاندان بنو طلحہ میں چلی آرہی تھی جب آپ ﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت یہ خدمت عثمان بن طلحہ سے متعلق تھی، اب آگے اس واقعہ کی روداد خود عثمان بن طلحہ کی زبانی سنئے۔ عثمان بن طلحہ کی کہانی خود ان ہی کی زبانی : ہجرت سے قبل ایک روز آپ ﷺ مجھ سے ملے اور مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، میں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا، آپ ﷺ نے میرے جواب پر کچھ نہ فرمایا اور نہ ناگواری کا اظہار فرمایا، میرا یہ دستور تھا کہ پیر اور جمعرات کے دن عام زیارت کے لئے بیت اللہ کو کھولا کرتا تھا، ایک روز کسی موقعہ پر بیت اللہ کھلا ہوا تھا لوگ زیارت کررہے تھے آپ نے بھی اندر جانا چاہا میں نے اس موقعہ پر جو کچھ میرے منہ میں آیا خوب بکا، آپ نے اس پر بھی سکونت فرمایا، صرف اسقدر فرمایا کہ عثمان ! ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک روز بیت اللہ کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں اور میں جسے چاہوں دوں، میں نے کہا یہ تو تب ہی ہوسکتا ہے کہ قریش پامال ہوچکے ہوں، آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ آبرومند ہوچکے ہوں گے، آپ اس قدر فرما کر بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے ادھر میرا دل بےقابو ہوگیا مجھے یقین ہوگیا کہ جو کچھ فرما دیا گیا بس وہی ہوگا۔ (تفسیر ھدایت القرآن ملخصا) عثمان بن طلحہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی وقت اسلام لانیکا ارادہ کرلیا، لیکن جب میں نے اپنی قوم کے تیور بدلے ہوئے دیکھے اور سب کے سب مجھے ملامت کرنے لگے تو میں اپنا ارادہ پورا نہ کرسکا، جب مکہ فتح ہوا تو آپ ﷺ نے مجھے بلا کر بیت اللہ کی کنجی طلب فرمائی میں نے پیش کردی۔ بعض روایات میں ہے کہ عثمان بیت اللہ کی کنجی لیکر بیت اللہ کے اوپر چڑھ گئے تھے حضرت علی کرم اللہ و جہہ نے آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کے لئے زبردستی کنجی ان کے ہاتھ سے لیکر آنحضرت ﷺ کو دیدی تھی، جب آپ ﷺ بیت اللہ میں نماز پڑھ کر باہر تشریف لائے تو پھر کنجی مجھے واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ لو اب یہ کنجی ہمیشہ قیامت تک تمہارے ہی خاندان میں رہے گی، جو شخص تم سے کنجیاں لے وہ ظالم ہوگا، اور فرمایا کہ بیت اللہ کی اس خدمت کے صلہ میں تمہیں جو مال مل جائے اس کو شرعی قاعدہ کے مطابق خرچ کرو۔ (معارف) عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ جب میں کنجی لے کر خوشی خوشی چلنے لگا تو آپ نے پھر مجھے آواز دی اور فرمایا کیوں عثمان جو بات میں نے کہی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں ؟ اب مجھے وہ بات یاد آگئی جو آپ نے ہجرت سے پہلے فرمائی تھی، ایک روز تم یہ کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، میں نے عرض کیا بیشک آپ ﷺ کا ارشاد پورا ہوا اور اسی وقت میں کلمہ پڑھکر مسلمان ہوگیا۔ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ اس روز جب آپ ﷺ بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو یہ آیت آپ کی زبان پر تھی، اِنَّ اللہ یأمر کم اَنْ تؤ دوا الاماناتِ الی اَھْلھا . امانت کا لفظ عربی زبان میں بڑا وسع مفہوم رکھتا ہے، ہر قسم کی ذمہ داریاں اس کے تحت آتی ہیں، خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے، فرائض سے متعلق ہوں یا سنن ومندوبات سے متعلق، امام رازی نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ امانت کے تحت اعتقادیات معاملات اور اخلاقیات سب ہی آگئے۔ حق دار ہی کو امانت سو نپنی چاہیے : اس آیت میں اس بات کی بھی وضاحت کردی گئی کہ امانتیں ان لوگوں کو سپرد کرنی چاہئیں کہ جن میں بارامانات اٹھانے کی صلاحیت ہو ضمناً اس سے یہ بات بھی نکل آئی کہ نظام شریعت میں سعی و سفارش نیز اقرباپروری وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، حکومت میں عہدے صرف انھیں کو ملنے چاہئیں جو ان خدمتوں اور منصبوں کے واقعی اہل ہوں۔ وَاِذاحکمتم بین الناس أن تحکمو ابالعدل (الآیة) اس میں حکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب کرنے لگتا ہے تو اللہ اس کو اس کے نفس کے حوالہ کردیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام) یہود کی یہ عادت بھی کہ امانت میں خیانت کرتے اور مقدمات کے فیصلوں میں رشوت وغیرہ کی وجہ سے طرفداری کرتے، یہود شخصی اور قومی اغراض کے لئے بےتکلف انصاف کے گلے پر چھری پھیردیتے، اس لئے مسلمانوں کو مذکورہ دونوں باتوں سے روکا گیا ہے۔ منقول ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ نے خانہ کعبہ میں داخل ہونا چاہا تو عثمان بن طلحہ کلید بردار خانہ کعبہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا تو حضرت علی ؓ نے زبردستی ان سے چھین کر دروازہ کھول دیا، آپ ﷺ جب فارغ ہو کر باہر تشریف لائے تو حضرت عباس ؓ نے آپ سے درخواست کی کہ کعبة اللہ کی کنجی مجھے عنایت فرمائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کنجی آپ نے عثمان بن طلحہ کو دیدی، تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔ وَاِذحکمتم بین الناس اَنَ تحکموابالعدل : اس جملہ میں حق تعالیٰ نے بین الناس فرمایا ہے، بین المسلمین یا بین المؤمنین نہیں فرمایا، اس میں اشارہ ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم دوست ہوں یا دشمن وطنی ہوں یا غیر وطنی ہم رنگ وہم زبان ہوں یا نہ ہوں فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہو کر جو بھی حق و انصاف کا تقاضہ ہو وہ فیصلہ کریں۔
Top