Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
مومنو ! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو
آیت نمبر 71 تا 76 ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے دشمنوں سے محتاط رہو یعنی ان سے احتیاطی تدابیر اختیار کرو اور ان سے بیدار مغز رہو پھر دشمن سے لڑنے کے لئے جماعتوں کی شکل میں یکے بعد دیگرے نکلویا اجتماعی طور پر نکلو اور یقیناً تم میں بعض وہ بھی ہیں جو نکلنے میں پس وپیش کرتے ہیں، یعنی لڑائی سے پیچھے رہنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ عبداللہ بن ابیّ اور اس کے ساتھی، اور اس کو مومن ظاہر کے اعتبار سے کہا گیا ہے، اور لام، فعل پر قسمیہ ہے، اور پھر اگر تم کو کوئی مصیبت (نقصان) پہنچتی ہے مثلاً قتل اور شکست تو کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کا بڑا فضل ہوا کہ میں ان کے ساتھ (لڑائی) میں حاضر نہ ہو اور نہ تو میں مصیبت میں پھنس جاتا، اور اگر تم کو اللہ کا فضل پہنچتا ہے جیسا کہ فتح اور مال غنیمت تو شرمندگی سے کہنے لگتا ہے کہ گویا کہ اور اس کے درمیان کوئی جان پہچان اور دوستی کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے (کَاَنْ ) مخففہ ہے اور اس کا اسم مخدوف ہے، ای کانّہ '، (تکن) یاء اور تاء کے ساتھ ہے اور اس جملہ کا تعلق، قد انعم اللہ عَلَیَّ ، سے ہے اور یہ جملہ قول ( یعنی، لَیَقُولَنَّ ) اور مقولہ (یعنی یا لَیْتَنِیْ ) کے درمیان جملہ معترضہ ہے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کرتا یعنی مال غنیمت سے بڑا حصہ پاتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو لوگ دینوی زندگی کو آخرت کے عوض فروخت کرچکے ہیں تو ان کو اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پائے یا اپنے دشمن پر غالب آجائے تو ہم اس کو اجرعظیم عطا فرمائیں گے اور عورتوں اور بچوں کو چھڑانے میں جن کافروں نے ہجرت سے روک رکھا ہے ان کو اذیت پہنچاتے ہیں، ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان ہی میں تھے، جہاد نہیں کرتے جو دعاء کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تو ہم کو اس بستی سے یعنی مکہ سے کہ جس کے باشندوں نے کفر کرکے ظلم کیا ہے اور اپنے پاس سے ہمارا کوئی والی مقرر فرما جو ہمارے معاملات کی تولیت کرے اور ہمارے لئے اپنے پاس سے مددگار متعین فرما کہ ہم کو ان سے بچائے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرمائی کہ ان کے لئے ( مکہ) سے نکلنا آسان فرمادیا، اور کچھ لوگ فتح مکہ میں رہ گئے، اور محمد ﷺ نے ان کا متولی عَتّاب بن اَسِیْد کو بنادیا جس نے مظلوموں سے انصاف دلایا، جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں سو وہ شیطان کے راستہ میں قتال کرتے ہیں لہٰذا تم شیطان کے دوستوں سے جہاد کرو یعنی شیطان کے دین کے مدگاروں سے جہاد کرو خدادادقوت کی وجہ سے تم ہی غالب رہو گے، یقین مانو مومنین کے ساتھ شیطان کا مکر نہایت بودا (کمزور) ہے کافروں کے ساتھ اللہ کی تدبیر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : حِذْر، حاء کے کسرہ اور ذال کے سکون اور دونوں کے فتحہ کے ساتھ، احتیاط، بیدارمغزی، خطرناک چیز سے احتراز یقال اَخَذَ حذرہ ' اذا تیقظ واحترزمن المخوف، اس میں استعارہ بالکنایہ ہے، حذر کو سلاخ کے ساتھ دل ہی دل میں تشبیہ دی ہے مشبہ مذکورہ اور مشبہ بہ محذوف (فارسی ترجمہ) اے مسلمانان بگیرید سلاح خود پس بیروں یعنی بقتال دشمنان گروہ درگر وہ در جہات مختلف، یاسر کنید برائے جہاد جمع شدہ با یکدگر۔ قولہ : ثُبِات جمع ثُبَةٍ ، دس سے زیادہ لوگوں کی جماعت۔ قولہ : یُبَطِئَنّ مضارع واحد مذکر غائب بانوں تاکید ثقیلہ (تفعیل) تَبْطِیْئی، دیر لگانا، سستی کرنا، پیچھے رہنا، مادہ بطوئ . قولہ : والّلام لِلْقَسَمِ اس سے مراد لَیُبَطِّئَنَّ کالام ہے۔ اور لَمَنْ ، میں لام ابتدائیہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے، وَاِنّ منکم لَمَنْ اقسم باللہ لَیُبَطِئن . قولہ : فَاَصَابَ ، ای اَصَابنی ما اَصَابَھُمْ. سوال : لَیَقُولَنّ ، جزائِ شرط ہے، اور قاعدہ ہے کہ جزاء جب فعل مضارع واقع ہو تو اس پر فاء لازم ہوتی ہے حالانکہ یہاں فاء نہیں ہے۔ جواب : لَئِنْ اَصَابَکُمْ ، میں قسم اور شرط دونوں جمع ہیں اور قسم مقدم محذوف ہے، اور قاعدہ ہے کہ قسم اور شرط دونوں جمع ہوجائیں تو آنیوالا جملہ اول کی جزاء ہوتی ہے لہذا الیَقُوْلَنّ جواب قسم ہے نہ کہ جواب شرط۔ قولہ : نَادِماً ، ای نادماً لفواة الغنیمة لا لِطَلَبِ الثو ّاب . قولہ : وھٰذارَاجِع اِلیٰ قَوْلِہ قَدْ اَنْعَمَ اللہ ' عَلَیَّ الخ یَعْنِی کَاَنْ لَمْ یَکُنْ الخ کا تعلق با عتبار معنی کے سابق جملہ قدانعم اللہ عَلَیَّ سے ہے، تقدیر عبارت ہے، قال قد انعم اللہ عَلَیَّ الخ کان لم یکن الخ پھر اس جملہ کو بطور جملہ معترضہ کے مؤخر کردیا۔ قولہ : لَیَقُوْلَنَّ قول ہے اور یالیتنی کتب معھم الخ مقولہ ہے اور کان لم یکن بینکم وبینہ ' موَدة جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : فَاَفُوْزَ ، جواب تمینی کی وجہ سے منصوب ہے۔ تفسیر وتشریح یٰایَّھا الذین آمنواخذوا حذر کم (الآیة) ان آیتوں کا مضمون پوری طرح سمجھنے کے لئے ان کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے، غزوہ احد میں مسلمانوں کو ابھی حال ہی میں عارضی شکست ہوئی تھی اس سے قدرة مشرکین کی ٹوٹی ہوئی ہمتیں بڑھ گئی تھیں، آئے دن یہ خبریں آتی رہتی تھی کہ فلاں قبیلہ حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے، فلاں قبیلہ کے تیور بگڑے ہوئے ہیں، فلاں قبیلہ دشمنی پر آمادہ ہے، مسلمانوں کے ساتھ پے درپے غداریاں کی جارہی تھیں مسلمان مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کردیا جاتا تھا، مدینہ سے باہر مسلمانوں کے جان ومال کی سلامتی باقی نہیں رہی تھی غرضیکہ مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے تھے، ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی وجہد اور سخت جانفشانی کی ضرورت تھی، ایسے حالات میں مسلمانوں کو ثبات و استقامت کا درس دیا جارہا ہے کہ اے ایمان والو مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلویا اکھٹے ہو کر۔ خذعا حذر کم، کا مفہوم بہت وسیع اور جامع ہے، ہر وہ چیز جو دشمن سے دفاع کے کام آسکے اس میں شامل ہے خواہ ہتھیار ہوں یا تدبیر۔ مطلب یہ کہ دشمن کے مقابلہ میں ہر طرح کیل کانٹے سے درست و آمادہ رہو، حِذْرَ کم، ای مافیہ الحذر من السلاح وغیرہ . (راغب) فائدہ عظیمہ : یایھا الذین آمنو خذوا حذر کم الخ اس آیت کے پہلے حصہ میں جہاد کرنے کے لئے اسلحہ کی فراہمی کا حکم دیا گیا ہے اور دوسرے حصہ میں اقدام علی الجہاد کا۔
Top