Tafseer-e-Jalalain - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
آیت نمبر 79 تا 85 ترجمہ : اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے (مویشی) پیدا کئے کہا گیا ہے کہ یہاں (انعام) سے خاص طور پر اونٹ مراد ہے اور ظاہر یہی ہے اور بقروغنم بھی معراد ہوسکتے ہیں تاکہ ان میں سے بعض پر تم سواری کرو اور بعض کو ان میں سے کھاتے ہو اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت منافع ہیں (مثلاً ) دودھ، نسل، اونٹ کے بال، اور اون تاکہ تم ان پر سوار ہو کر اپنی دلی مراد کو حاصل کرو اور وہ (مختلف) شہروں تک بوجھ لاد کرلیجاتا ہے، اور ان سواریوں پر خشکی میں اور کشتیوں پر دریا میں چڑھے پھرتے ہو اور وہ تمہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے، پس تم وحدانیت پت دلالت کرنے والی کون کون سی نشانیوں کا انکار کرتے رہو گے ؟ استفہام تو بخیی ہے، اور اَیٌّ مذکر کا استعمال بہ نسبت اَیَّۃٌ مؤنث کے زیادہ مشہور ہے، کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان سے پہلوں کا انجام کیسا ہوا، حالانکہ وہ ان سے تعداد میں زیادہ اور قوت اور یادگاروں (مثلاً ) قلعوں میں بڑھے ہوئے تھے، ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کھلے معجزات لے کر آئے تو کافر بطور استہزاء اور منکرین کے ضحک کے طور پر اس علم سے خوش ہوئے جو رسولوں کے پاس تھا بالآخر جس عذاب کو مذاق میں اڑا رہے تھے، وہی عذاب ان پر پلٹ پڑا، چناچہ جب انہوں نے ہمارے عذاب کی شدت کو دیکھا تو کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے، اور جن جن کو ہم شریک ٹھہرا رہے تھے، ان سب کا انکار کیا، لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کو ان کے ایمان بےنفع نہیں دیا، اللہ نے اپنا یہی معمول مقرر کر رکھا ہے (سُنَّتَ ) کا نصب مصدریت کی بناء پر ہے، اسی (مصدر) کے لفظ سے فعل مقدر کی وجہ سے جو امتوں میں اس کے بندوں میں برابر چلا آرہا ہے، یہ ظاہر ہوگیا، حال یہ کہ وہ اس سے پہلے ہمہ وقت خاسر تھے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : اَلْاَنْعَام مویشی یہ نَعْمٌ کی جمع ہے، اس کے اصل معنی تو اونٹ کے ہیں، مگر بھیڑ، بکری، گائے بھینس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، بشرطیکہ ان میں اونٹ بھی ہو، اونٹ چونکہ عرب کے نزدیک بہت بڑی نعمت ہے، اس لئے اس کا نام نعم بمعنی نعمت ہوا۔ (لغات القرآن) قولہ : دَرٌّ دودھ۔ قولہ : اَلٌوَبَرْ اونٹ اور خرگوش کے بال (ج) اَوْبَارٌ۔ قولہ : وَعلی الفُلکِ ۔ سوال : فِی الفُلْکِ کیوں نہیں کہا ؟ جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں کہا ہے قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلّ زَوْجَیْنِ ۔ جواب : تاکہ عَلَیْھَا حَاجَۃً کا تقابل صحیح ہوجائے، اس کو صنعت ازدواج کہتے ہیں۔ قولہ : اَیَّ اٰیٰتِ اللہ . اَیَّ ، تُنْکِرُوْنَ کا مفعول مقدم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ایٌّ کو مقدم کرنا واجب ہے، اس لئے کہ یہ صدارت کلام چاہتا ہے۔ قولہ : تذکیر أیٍّ اَشھَرُ مِن تانیثِہ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اَیَّۃُ آیٰتِ اللہ کیوں نہیں کہا، جبکہ مضاف الیہ اٰیٰتِ اللہِ کا مقتضٰی یہ تھا کہ اَیَّ کے بجائے اَیَّۃَ ہو۔ جواب : اسماء جامدہ میں مذکر ومؤنث میں تفریق غریب ہے جیسا کہ حمارٌ وحمارۃ میں تفریق غریب ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اَیٌّ کا استعمال بہ نسبت اَیَّۃٌ کے اکثر واشھر ہے زمخشری نے کہا ہے وقد جاءت علی اللغۃ المستفیضہ یعنی اَیُّ کا استعمال کثیر ہے۔ قولہ : اَفَلَمْ یَسیْرُوْاالخ یہاں سے تو بخیی مضمون شروع فرما رہے ہیں، فاء عاطفہ ہے ہمزہ محذوف پر داخل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے کہ أعجزُوْا فَلَمْ یَسِیْرُوَا الخ۔ قولہ : کَیْفَ کَانَّ عاقِبَۃُ الَّذِینَ من قَبْلِھِمْ. کَیْفَ ، کانَ کی خبر مقدم اور عاقبۃُ اسم مؤخر ہے۔ قولہ : مَصَانِعُ زیر زمین ذخیرۂ آبی کے بڑے بڑے حوض، ڈیم، قلعے۔ (جمل) قولہ : فَمَا اغنیٰ عَنْھُمْ مَا کَانوا یَکْسِبُوْنَ پہلا مانافیہ اور استفہام انکاری، دونوں ہوسکتا ہے، یعنی ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی، استفہامیہ کی صورت میں ترجمہ یہ ہوگا، ان کی کمائی ان کے کیا کام آئی ؟ ماکانوا یکسبون کا ما مصدریہ اور موصولہ دونوں جائز ہے، پہلا فما اغنیٰ کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : فَرِحُوا ای کفار بما عِنْدَھم ای الرُسُل من العلمِ علم سے وہ علم وحی مراد ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے پاس تھا اور اس علم پر کافروں کے خوش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کافروں نے استہزاء اور تمسخر کے طور پر خوشی کا اظہار کیا، اور دلیل اس کی ان کا وحی سے اعراض کرنا اور قبول نہ کرنا ہے، مفسر علام نے بھی یہی معنی مراد لئے ہیں، اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے قول وَحَاقَ بِھِم مَا کَانُوْا بہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ کے مطابق ہیں، بعض مفسرین نے عِنْدَھُمْ کی ضمیر کو کفار کی طرف لوٹایا ہے، اور علم سے مراد بزعم خویش لاَ بَعْثَ وَلاَ حِسَابَ کا علم مراد ہے، یا علم سے مراد امور دنیا کا علم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں فرمایا یَعْلِمُوْنَ ظاھِرًا مِنَ الحیٰوۃ الدنیاوھم عَنِ الْآخِرَۃِ ھُمْ غَافِلُوْنَ ۔ قولہ : سُنَّتَ اللہِ مصدر من لفظہٖ . سُنَّتَ فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، اور فعل مقدر مصدر کے ہم لفظ ہے ای سَنَّ اللہُ ذٰلک سُنَّۃً ماضیۃً ما ضیۃً فی العباد۔ قولہ : ھُنَالِکَ ای عندرؤیتھم العذاب یہ اسم مکان ہے، زمان کے لئے مستعار لیا گیا ہے۔ قولہ : تَبَیَّنَ خُسر انُھُمْ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : خَسِرَ ھنالک سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار اور مشرکین اس وقت خائب و خاسر ہوئے اس سے پہلے خائب و خاسر نہیں تھے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار ہر وقت اور ہر زمانہ میں خائب و خاسر رہے مگر اس خسران وحر مان کا ظہور اب ہوا، خود ان کو اور دوسروں کو پتہ چل گیا کہ آخرت کا خسران و حرمان ہی حقیقی خسران و نقصان ہے۔ تفسیر وتشریح اللہ۔۔ لکم (الآیۃ) اللہ تعالیٰ اپنی اَن گنت اور بیشمار نعمتوں میں میں سے بعض کا تذکرہ فرما رہے ہیں، چوپایوں سے مراد اونٹ گائے، بیل، بھیڑ، بکری ہیں، یہ سواری کے کام بھی آتے ہیں اور ان کا دودھ بھی پیا جاتا ہے، اور ان میں سے بعض سے بار برداری کا کام بھی لیا جاتا ہے، اس کے علاوہ بھی ان میں تمہارے لئے بہت سے منافع ہیں، مثلاً گوشت، پوست، اون، بال، ہڈی وغیرہ سے بہت سی مفید، کارآمد اور نفع بخش اشیاء تیار کی جاتی ہیں، نیز تم ان پر خشکی میں سوار ہو کر اور سامان تجارت لاد کر دور دراز کا سفر کرتے ہو اور اپنی دلی مراد حاصل کرتے ہو، اور دریائی سفر میں کشتیوں کو استعمال کرتے ہو، سفینہ اور اونٹ میں بڑی قریبی مناسبت ہے یہی وجہ ہے کہ اونٹ کو سفینۃ الصحراء کہا جاتا ہے۔ مسئلہ : ہر جانور سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انعام عام ہے ہر چوپائے کو شامل ہے، اور جَعَلَ لکُمْ میں لام نفع کے لئے ہے، اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ ہاتھی کی سواری جائز ہے، البتہ خنزیر چونکہ نص قطعی سے نجس العین ہے، لہٰذا اس سے کسی قسم کا انتفاع درست نہیں ہے۔ نکتہ : منافع چونکہ جمع منکور ہے، لہٰذا مفید اسغراق نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ چوپایوں سے ہر قسم کا استفادہ درست نہیں اور مِنْھا تاکلون میں من تبعیضیہ کا بھی تقاضہ ہے، کہ بعض منافع کو خارج کیا جائے۔ مسئلہ : کتے کی قیمت مکروہ ہے (الیسر التفاسیر، تائب (رح) تعالیٰ ) اور اسکے پالنے میں تفصیل ہے جسکی تفصیل کا مقام کتب فقہ ہیں وَیُرِیکُمْ اٰیٰتِہٖ اللہ تعالیٰ ان کو ایسی نشانیاں دکھاتا ہے جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں، اور یہ نشانیاں اتنی عام اور کثیر اور واضح ہیں کہ جن کا کوئی انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ بحث : علم کا اطلاق قرآن میں علوم آسمانی پر کیا گیا ہے، اور یہ کفار سے منتقی ہے، تو پھر فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ من العلم کا کیا مطلب ؟ جواب : (1) یہاں علم سے علم مراد ہے یعنی تجارت و صنعت وغیرہ کا علم جس میں یہ لوگ فی الواقع ماہر تھے، اور قرآن کریم نے ان کے اس علم کا سورة روم میں اس طرح تذکرہ فرمایا ہے یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِنَ الحیٰوۃِ الدنیا وَھُمْ عَنِ الآخرۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ یعنی یہ لوگ دنیا کی ظاہری زندگی اور اس کے منافع حاصل کرنے کو تو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں، مگر آخرت جہاں ہمیشہ رہنا ہے، اور جہاں کی راحت وکلفت دائمی ہے، اس سے بالکل جاہل اور غافل ہیں۔ جواب : (2) یا بزعم خویش ان کے مزعومات، توہمات و شبہات اور باطل دعوے جن باتوں کو وہ علم سمجھتے تھے وہ علم مراد ہو حالانکہ وہ علم نہیں بلکہ جہل مرکب ہے، جیسا کہ مجاہد سے مروی ہے کہ کفار کہا کرتے تھے کہ ہم جانتے ہیں کہ بعث و حساب کچھ ہونے والا نہیں ہے، وہ لوگ انکار بعث و حساب کو علم سمجھے ہوئے تھے، ان کے اس علم کو جو درحقیقت جہل ہے علم کہا گیا ہے۔ جواب : (3) یا ان کے باطل مزعومات کو استہزاء علم کہا گیا ہے۔ (ایسرالتفاسیر، تائب (رح) تعالیٰ ) فلما۔۔ باسنا (الآیۃ) یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ دستور اور معمول ہے کہ آخرت کا عذاب دیکھنے کے بعد ایمان و توبہ قبول نہیں فرماتے، معائنۂ عذاب کے بعد ان پر بھی واضح ہوگیا کہ اب سوائے خسارے اور ہلاکت کے ہمارے مقدر میں کچھ نہیں، یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے، حدیث شریف میں وارد ہے یقبل اللہ توبۃ العبدِ مالم یغرغر (ابن کثیر) حالت نزع سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں۔ ٭تم بحمد اللہ ٭
Top