Tafseer-e-Jalalain - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔
آیت نمبر 36 تا 45 ترجمہ : اور جو شخص رحمٰن کے ذکر یعنی قرآن سے اعراج کرے تو ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں سو وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے کہ اس سے جدا نہیں ہوتا اور بلاشبہ وہ شیاطین ان اعراض کرنے والوں کو ہدایت کے راستہ سے روکتے ہیں اور یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں جمع لانے میں مَنْ کے معنی کی رعایت ہے یہاں تک کہ جب وہ اعراض کرنے والا اپنے ساتھی کے ساتھ قیامت کے روز ہمارے پاس آئے گا تو اپنے ساتھی سے کہے گا، کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب کی دوری ہوتی یعنی جس قدر مشرق ومغرب کے درمیان دوری ہے یا تنبیہ کے لئے ہے تو میرا بڑا برا ساتھ ہے، (اے) اعراض کرنے والو ! آج ہرگز تم کو تمہاری آرزو اور ندامت کچھ فائدہ نہ دے گی جبکہ تم ظالم ٹھہر چکے یعنی دنیا میں شرک کر کے تمہارا ظلم ظاہر ہوگیا اس لئے کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ عذاب میں شریک ہوؤ گے یہ تقدیر لام کے ساتھ عدم نفع کی علت ہے اور اِذ، الیوم سے بدل ہے کیا تو بےکو سنا سکتا ہے یا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے اور اس کو کہ جو کھلی گمراہی میں ہو یعنی وہ ایمان نہیں لائیں گے پس اگر ہم آپ کو یہاں (دنیا) سے وفات دے کر ان کو عذاب دینے سے پہلے لے بھی جائیں تو بھی ہم آخرت میں ان سے انتقام لینے والے ہیں یا جس عذاب کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے وہ آپ کو آپ کی زندگی میں دکھادیں، ہم اس پر بھی قادر ہیں، پس جب وحی (یعنی) قرآن کو آپ کی طرف بھیجا گیا ہے آپ اس کو مضبوطی سے تھامے رہیں، بلاشبہ آپ راہ راست پر ہیں اور یقیناً یہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے باعث شرف ہے اس کے ان کی زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے، اور عنقریب تم لوگوں سے اس کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور ہمارے ان رسولوں سے پوچھو جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے ؟ کہا گیا ہے کہ یہ اپنے ظاہر پر ہے، بایں طور کہ تمام رسولوں کو لیلۃ الاسراء میں جمع کیا گیا، اور کہا گیا ہے کہ مراد دونوں اہل کتاب سے کوئی سی بھی امت ہے، اور دونوں قولوں میں سے کسی قول کے مطابق آپ نے سوال نہیں کیا، اس لئے کہ سوال کا حکم کرنے سے مراد مشرکین قریش سے اقرار کرانا ہے یہ کہ نہ تو اللہ کی طرف سے کوئی رسول آیا اور نہ کوئی کتاب جو غیر اللہ کی عبادت کا حکم لے کر آئی۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : یَعْشُ ، عشا یعشوا کَدَ عَا یدعُوا عَشِیًّا وعَشوا سے واحد مذکر غائب، اعراض کرنا، مَنْ یَعْشُ جو اعراض کرے گا (ن) عَشْوٌ اعراض کرنا، نظریں چرانا، وبالفارسیۃ چشم پوشیدن، وغافل شدن۔ قولہ : نُقَیِّضْ جواب شرط ہے یَعْشُ فعل شرط مجزوم بحذف الواؤحذف واؤ پر ضمہ دال ہے، اور مَنْ حرف شرط ہے۔ قولہ : نُقَیِّضْ (تفعیل) مضارع جمع متکلم ہم مقدر کردیتے ہیں، ہم سبب بنا دیتے ہیں۔ (لغات القرآن) قولہ : اِنَّھُم، ھُم ضمیر کا مرجع شیطان ہے، شیطان چونکہ جنس ہے اس لئے ضمیر کو جمع لا یا گیا ہے اور جہاں ضمیر کو مفرد لائے وہاں لفظ شیطان کی رعایت کی گئی ہے۔ قولہ : وَیَحسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُھْتَدُوْنَ جملہ حالیہ ہے معنی مَنْ کی رعایت کی وجہ سے تینوں جگہ جمع کا صیغہ لا یا گیا ہے۔ (صاوی ملخصاً ) قولہ : بِقَرِیْنِہٖ ای مع قرینہٖ ۔ قولہ : یا للتنبیہ یا تنبیہ کے لئے بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ شارح نے اشارہ کیا ہے اور با ندائیہ بھی ہوسکتا ہے، مناویٰ محذوف ہوگا، ای یاقَرِین، لَیْتَ بَینِی وبَینِکَ الخ۔ قولہ : تَبَیَّنَ لکم ظلمکم اس عبارت کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔ شبہ : ظلم یعنی کفر وشرک دنیا میں واقع ہوا، اس لئے کہ اِذ ماضی کے لئے ظرف ہے، اور الیَوْم سے مراد قیامت کا دن ہے جو کہ اِذْ سے بدل ہے، لہٰذا ماضی حال سے کس طرح بدل واقع ہوسکتی ہے۔ جواب : تبیٗن سے مراد ظلم کا ظہور ہے اور یہ قیامت کے دن ہوگا۔ تفسیر وتشریح مَنْ یَغْشُ ، عشَا یعْشُوا کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری یعنی رتوندا جس کو شب کو ری کہتے ہیں، یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوا، آنکھیں چرائیں، اعراض کیا، شیطان ایسے شخص کا ساتھ اور رفیق ہوجاتا ہے، جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے، اور شیاطین ان کے حق کے راستہ میں حائل ہوجاتے ہیں اور انہیں برابر سمجھاتے رہتے ہیں، کہ تم حق پر ہو حتی کہ وہ واقعی طور پر اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں، یا کافر شیطانوں کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں۔ (فتح القدیر ملخصاً ) فائدہ : آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذکر اللہ سے شیطان مغلوب اور غفلت سے شیطان غالب ہوجاتا ہے، اور آخر کار جہل مرکب میں مبتلا ہو کر دائمی نقصان و حرمان کا مستحق ہوجاتا ہے، آخرت میں جب عذاب کا مشاہدہ کرے گا تو اپنی غلطی پر نادم ہو کر کہے گا، کاش میرے اور اس کے درمیان دنیا میں مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی۔ (ارشاد ہوگا) یہ شیطان براہمنشین ہے اور اے غافلو ! آج تم کو ندامت وخجالت کوئی فائدہ نہیں دے گی، اس لئے کہ تم دنیا میں ظلم کرچکے بیشک تم دونوں عذاب الٰہی میں شریک اور دوزخ میں بھی قریب رہو گے۔ در منثور میں ہے کہ جب کافر قبر سے اٹھے گا تو شیطان ہاتھ میں ہاتھ دے کر دوزخ تک ہمراہ رہے گا اور مومن کے ساتھ فرشتہ جنت تک ہمراہ رہے گا، اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ہر شخص کے ساتھ ایک جن اولاد شیاطین میں سے معین ہے (جسے ہمزاد کہتے ہیں) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ فرمایا : ہاں ! مگر اللہ نے میری مدد کی جس کی وجہ سے وہ ایمان لے آیا، اب وہ مجھے سوائے خیر کے کچھ نہیں بتاتا اور فرمایا کافروں کا شیطان خوردو خواب میں شریک رہتا ہے، اور شیطان زیادہ کھانے والے اور زیادہ سونے والے کو بہت دوست رکھتا ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر) اَفَاَتْتَ تسمِعُ (الآیۃ) یعنی جس کے لئے شقاوت ابدی لکھ دی گئی ہے، وہ وعظ و نصیحت کے اعتبار سے بہرا اور اندھا ہے وہ آپ کی دعوت وتبلیع سے راہ راست پر نہیں آسکتا، یہ استفہام انکاری ہے، جس طرح بہرا سننے اور اندھا دیکھنے سے محروم ہے، اسی طرح کھلی گمراہی میں مبتلا حق کی طرف آنے سے محروم ہے، درحقیقت یہ نبی ﷺ کو تسلی ہے تاکہ ایسے کے کفر سے آپ زیادہ تشویش محسوس نہ کریں۔ اَوْ نُرِ یَنَّکَ الّذِی وَعَدْنٰھُمْ (الآیۃ) یعنی عذاب کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ آپ کی حیات مبارک ہی میں مکہ میں رہتے ہوئے ان پر آجائے، اور اگر ہماری مشیت متقاضی ہوئی تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے انتقال یا مکہ سے منتقل ہونے کے بعد ان پر وہ عذاب آئے ورنہ بصورت دیگر عذاب اخروی سے تو وہ بچ نہیں سکتے، مطلب یہ کہ ہمیں پوری قدرت حاصل ہے جو ہماری مصلحت کا مقتضیٰ ہوگا وہی ہوگا، چناچہ آپ کی حیات مبارک ہی میں بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست اور ذلت سے دو چار ہوئے۔ وَاِنَّہٗ لذکرٌ لک ولقومِکَ تخصیص کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کے لئے ذکر وشرف نہیں بلکہ اولین مخاطب چونکہ قریش تھے، اس لئے خصوصیت سے ان کا ذکر فرمایا، ورنہ تو قرآن پورے جہان کے لئے نصیحت وشرف ہے وَمَا ھُوَ اِلاَّ ذکرٌ للعٰلمینَ ۔ ( سورة قلم) وَاسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ الخ آپ ﷺ تمام پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجئے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء سابقین تو وفات پاچکے تھے، ان سے پوچھنے کا حکم کیسے دیا جا رہا ہے، اس کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ معجزے کے طور پر انبیاء سابقین سے آپ کی ملاقات کرا دے تو اس وقت ان سے یہ بات دریافت کرلیجئے چناچہ شب معراج میں آپ کی ملاقات تمام انبیاء سے بیت المقدس میں ہوئی، قرطبی کی بعض راویات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انبیاء (علیہم السلام) کی امامت فرمانے کے بعد یہی بات انبیاء (علیہم السلام) سے دریافت کی مگر ان روایات کی سند معلوم نہیں ہوسکی، چناچہ اکثر مفسرین نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ خود انبیاء (علیہم السلام) سے پوچھنا مراد نہیں بلکہ ان پر نازل ہونے والے صحیفوں سے تحقیق کرنا اور ان کی امتوں کے علماء سے پوچھنا مراد ہے چناچہ انبیاء کے جو صحیفے اب موجود ہیں ان میں بہت سی تحریفات کے باوجود توحید کی تعلیم اور شرک سے بیزاری کی تعلیم آج تک شامل ہے، مثال کے طور پر موجودہ بائبل کی درج ذیل عبارتیں ملاحظہ فرمائیے۔ انبیاء کے صحیفوں میں توحید کی تعلیم : موجودہ توریت میں ہے : “ تاکہ تو جانے کہ خداوندی ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں ”۔ (استثناء 4: 35) “ اور سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے ”۔ (استثناء 4: 6) اور حضرت اشعیاء (علیہ السلام) کے صحیفہ میں ہے : “ میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں، میرے سوا کوئی خدا نہیں تاکہ مشرق سے مغرب تک لوگ جان لیں کہ میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ”۔ (یسعیاہ 6، 5: 45) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول موجودہ انجیل میں موجود ہے : “ اے اسرائیل، سن ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے، اور تو خدا وند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی پیاری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ ”۔ (مرقس 29: 12 ومتی 36: 22)
Top