Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Hujuraat : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے
لَا يَسْخَرْ
: نہ مذاق اڑائے
قَوْمٌ
: ایک گروہ
مِّنْ قَوْمٍ
: (دوسرے) گروہ کا
عَسٰٓى
: کیا عجب
اَنْ يَّكُوْنُوْا
: کہ وہ ہوں
خَيْرًا مِّنْهُمْ
: بہتر ان سے
وَلَا نِسَآءٌ
: اور نہ عورتیں
مِّنْ نِّسَآءٍ
: عورتوں سے ، کا
عَسٰٓى
: کیا عجب
اَنْ يَّكُنَّ
: کہ وہ ہوں
خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ
: بہتر ان سے
وَلَا تَلْمِزُوْٓا
: اور نہ عیب لگاؤ
اَنْفُسَكُمْ
: باہم (ایکدوسرے)
وَلَا تَنَابَزُوْا
: اور باہم نہ چڑاؤ
بِالْاَلْقَابِ ۭ
: بُرے القاب سے
بِئْسَ الِاسْمُ
: بُرا نام
الْفُسُوْقُ
: گناہ
بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ
: ایمان کے بعد
وَمَنْ
: اور جو ، جس
لَّمْ يَتُبْ
: توبہ نہ کی (باز نہ آیا)
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
: وہ ظالم (جمع)
مومنو ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
ترجمعہ :۔ اے ایمان والو ! نہ تو مرد مردوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ عنداللہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا ممکن ہے کہ وہ عورتیں ان عورتوں سے بہتر ہوں، یہ آیت و فد نبی تمیم کے بارے میں نازل ہوئی، جبکہ انہوں نیفقرائے مسلمین کا تمسخر کیا تھا، مثلاً عمار صہیب کا اور سخریہ تحقیر و تذلیل کو کہتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو کہ تم عیب جوئی کرو تو تمہاری عیب جئوی کی جائے، یعنی کوئی کسی کی عیب جوئی نہ کرے اور نہ کسی کو برالقب دو ، یعنی آپس میں ایک دوسرے کو ایسے لقب سے نہ پکارو جس کو وہ ناپسند کرے اور ان ہی (برے القاب) میں سے یا فاسق یا کافر ہے، (صفت) ایمان سے متصف ہونے کے بعد فسق مذکورہ کا نام کہ وہ تمسخر اور عیب جوئی اور برے لقب رکھنا ہیں لگنا برا ہے (الفسوق) اسم سے بدل ہے، اس بات کا فائدہ دینے کی وجہ سے کہ (نام بگاڑنا) عادۃ بار بار ہوتا ہے اور گناہ صغیر، پر اصرار کی وجہ سے (صغیرہ کبیر ہوجاتا ہے) اور اس سے توبہ نہ کرنے والے ہی ظالم لوگ ہیں، اور اے ایمان والو ! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں یعنی گنہگار کرنے والی ہیں اور یہ کثیر ہے، جیسا کہ منین اہل خیر کے ساتھ بدگمانی اور وہ (اہل خیر) کثیر ہیں بخلاف اس بدظنی کے، مومنین فساق میں تو اس بدگمانی میں گناہ نہیں ہے ان گناہوں کے بارے میں جن کو وہ کھلم کھلا کرتے ہیں اور کسی (کے عیب) نہ ٹٹولا کرو اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے (تجسسوا) سے ایک تاء حذف کردی گئی ہے (یعنی) مسلمانوں کے عیوب اور رازوں کی جستجو میں نہ رہا کو اور نہ اس کا کوئی ایسی چیز سے تذکرہ کرے جس کو وہ ناپسند کرے اگرچہ وہ چیز اس کے اندر موجود ہو کہ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ اس غیبت سے بیخبر بھائی کا گوشت کھائے (میتاً ) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے (یقینا) نہیں پسند کرے گا لہٰذا تم اس بات کو (بھی) ناپسند کرو، اس لئے کہ اس کی زندگی میں اس کی غیبت کرنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کے مانند ہے اور تمہارے سامنے ثانی پیش کیا گیا تو تم نے اس کو ناپسند کیا تو اول کو بھی ناپسند کرو اور اللہ سے ڈرتے ہو یعنی غیب کے بارے میں اس کی سزا سے، اس طریقہ سے کہ اس سے توبہ کرو، بیشک اللہ بڑا توبہ کا قبول کرنے والا ان پر مہربان ہ، یعنی توبہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرنے والا ہے، اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا آدم و حواء سے اور ہم نے تم کو قومیں اور قبیلے بنایا شعوب شعب کی جمع ہے شین کے فتحہ کے ساتھ اور وہ (شب) نسب کے طبقات میں سب سے اوپر ہے اور قبیلہ یہ شعب سے نیچے ا ہے اور اس سے نیچے عمائر ہے، پھر بطون ہے اس سے نیچے افخاذ ہے اور ان سب سے آخر میں فیصلہ ہے، اس کی ماثل خزیمہ شعب ہ، کنانہ قبیلہ ہے، قریش عمارہ ہے عین کے کسرہ کے ساتھ اور قصی بطن ہے، ہاشم فخذ ہے، عباس فصیلہ ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، (تعارفوا) سے ایک تاء حذف کردی گئی تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو نہ کہ عالی نسبی پر فخر کرو اور فخر تو صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے اور تم میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خوب جاننے والا اور تمہارے طبقات نسب سے پوری طرح باخبر ہے، بنو اسد کے دیہاتیوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ہم ایمان لے آئے، یعنی ہم نے اپنے قلوب سے تصدیق کردی آپ ان سے فرمایئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے لیکن یوں کہو ہم اسلام لائے یعنی ظاہری طور پر تابع فرمان ہوگئے لیکن ابھی تک تمہاریقلوب میں ایمان داخل نہیں ہوا، لیکن تم سے اس کی توقع رکھی جاسکتی ہے تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی ایمان وغیرہ میں فرمانبرداری کرنے لگو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے یعنی ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا (یالتکم) ہمزہ اور ترک ہمزہ کے ساتھ ہے اور ہمزہ کو الف سے بدل کر یعنی تمہارے اجر کو کم نہ کرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ مومنین کو معاف کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے، مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے یعنی اپنے ایمان میں سچے ہوں جیسا کہ بعد میں اس کی صراحت فرمائی پھر انہوں نے ایمان میں شک نہ کیا اور اپنے مال میں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا ان کے جہاد سے ان کے ایمان کی صداقت ظاہر ہوتی ہے (اپنے دعوائے ایمان میں) یہی لوگ سچے ہیں نہ کہ وہ جن کی طرف سے سوائے ظاہری اتباع کے کچھ نہ پایا گیا، آپ ان سے کہہ دیجیے کیا تم اللہ کو اپنی دینداری کی خبر دیتے ہو تعلمون علم کا مضعف ہے بمعنی شعر یعنی کیا تم اس کو آگاہ کرتے ہو اس بات سے جس پر تم اپنے قول آمنا میں ہو او اللہ ہر اس چیز سے جو آسمانوں اور زمین میں ہے واقف ہے یہ لوگ بغیرقتال کے اسلام لانے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں بخلاف دوسروں کے کہ وہ قتال کے بعد اسلام لائے آپ کہہ دیجیے اپنے اسلام لانے کا مجھ پر احسان نہ رکھو (اسلامکم) نزع خافض باء کی وجہ سے منصوب ہے اور دونوں جگہوں پر ان سے پہلے بار مقدر ہے بلکہ (درحقیقت) اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان کی ہدایت بخشی، بشرطیکہ اپنے قول آمنا میں سچے ہو۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی سب مخفی چیزوں کو جانتا ہے یعنی زمین و آسمان میں جو چیزیں پوشید ہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کو بھی جانتا ہے یاء اور تاء کے ساتھ ان میں سے اس پر کوئی شئی مخفی نہیں ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : لایستخر مضارع منفی واحد مذکر غائب (س) سخر ٹھٹھا کرنا، مذاق کرنا۔ قولہ : الاذدراء والاحتقار یہ عطف تفسیری ہے، تحقیر و تذلیل کرنا۔ قولہ : قوم ای رجال، رجال سے اشارہ کردیا کہ قوم اسمع جمع ہے بمعنی رجال چونکہ قوم نساء کے مقابل ہمیں واقع ہے اس لئے اس سے یہاں مرد مراد ہیں اور لغت عرب میں بھی قوم رجال کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ قال الشاعر : وما ادری ولست اخال دری اقوم آل حضن ام نساء شاعر کی مراد ” قوم “ سے ” رجال “ ہیں اور رجالکوقوم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ قوامون علی النساء ہیں اب رہا مطلقاً مردوں اور عورتوں کو قوم کہنا، جیسا کہ قوم فرعون اور قوم عاد وغیرہ تو وہ بطر تبعیت ہے اصالۃ قوم رجال ہی کو کہا جاتا ہے۔ قولہ : عسی اذیکون جملہ مستانفہ ہے بیان علت کے لئے اور عسی فاعل کی وجہ سے خبر سے مستغنی ہے۔ قولہ : اللمز، لمز اشارہ کر دن بچشم، آنکھ وغیرہ سے اشارہ کرنا۔ قولہ : لاتعیبوا فتعابوا یہ لاتلمزوا انفسکم کی توجیہ ہے یعنی اگر تم دوسروں کا عیب نکالو گے تو لوگ تمہارا عیب نکالیں گے، اس طرح گویا کہ تم خود اپنا خود اپنا عیب نکالو گے، یہ من ضحک ضحک کے قبیل سے ہے، جس طرح آپ ﷺ نے فرمایا لاتسبوا آبائکم، اپنے والدین کو گالی مت دو ، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آباء کو کون گالی دے گا آپ نے فرمایا : اگر تم کسی کے آباء کو گالی دو گے تو وہ تمہارے آباء کو گالی دے گا، اس طرح گویا کہ تم اپنے آباء کو گالی دینے والے ہوئے۔ قولہ : امی لایعیب بعضکم بعضاً یہ لائلمزا انفسکم کی دوسری توجیہ ہے، مفسر علام اگر ای کے بجائے او فرماتے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ (صاوی) قولہ : لاتنابزوا یہ تنابز سے نہی جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے تم کسی کی چڑ نہ نکالو، کسی کو برے لقب سے نہ پکارو، کسی کا نام نہ بگاڑو قولہ : ای المذکور من السخریۃ واللمز والتنابز مفسر علام کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے ایک سوال کا جواب دینا ہے۔ سوال : الاسم پر الف لام عہد کا ہے جو جمع پر دلالت کرتا ہے اور مراد اسماء ثلثہ مذکورہ یعنی السخریۃ، اللمز، التنابز ہیں لہٰذا مناسب تھا کہ الاسم مفرد لانے کے بجائے الاسماء جمع لاتے۔ جواب : اسم یہاں ذکر مشہور کے معنی میں ہے جو عرب کے قول طار اسمہ سے مشتق ہے، اسماء ثلثتہ المذکور کے معنی میں ہے لہٰذا الاسم کا مفرد لانا صحیح ہے اور اسم سے مراد ذکر اور شہرت ہے نہ معروف اسم بمقابل حرف و فعل اور نہ بمعنی علم اور یہ سمو سے مشتق ہے جس کے معنی بلند ہونے کے ہیں۔ قولہ : بئس الاسم الفسوق بئس فعل ماضی، الاسم اس کا فاعل الفسوق، الاسم سے بدل ہے، مفسر علام نے اسی ترکیب کو اختیار کیا ہے اس صورت میں مخصوص بالذم محذوف ہوگا، ای ھو زیادہ واضح ترکیب یہ ہے کہ الفسوق کو مخصوص بالذم قرار دیا جائے، مذکورہ جملے کی مشہور ترکیب یہ ہے کہ الفسوق مبتداء ہے اور بئس الاسم خبر مقدم ہے۔ قولہ : لافادۃ انہ فسق لتکررہ عادۃ یعنی سخریہ وغیرہ جو مذکور ہوئے اگرچہ گناہ صغیر ہیں مگر جب صغیرہ پر اصرار ہوا اور اس کا ارتکاب بار بار کیا جائے تو وہ گناہ کبیرہ بن جاتا ہے اور عام طور پر عادۃ ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان ان القاب کو بار بار دہراتا ہے۔ قولہ : لایحس بہ یہ میتا کی صفت ہے یعنی مردہ جو کہ محسوس نہیں کرتا، یعنی اگر اس کو کوئی کھائے تو اس کو احسان نہیں ہوتا، مفسر علام نے لایحس بہ کا اضافہ فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ میت اور مغتاب لہ (جس کی غیبت کی جائے) درمیان وجہ شبہ عدم علم ہے جس شخص کی پس پشت غیبت کی جاتی ہے اس کو بھی غیبت کا علم نہیں ہوتا اور مردہ کا گوشت کھانے سے بھی مردہ کو علم و احساس نہیں ہوتا گویا کہ عدم علم میں دونوں مشترک ہیں۔ قولہ : مضعف علم یعنی تعلیم اعلام کے معنی میں ہے جو متعدی بدو مفعول ہے دوسرا مفعول دینکم ہے جس کی طرف باء کے ذریعہ متعدی ہے۔ قولہ : ان کنتم صادقین فی ادغائکم الایمان شرط ہے، اس کا جواب محذوف ہے فللہ المنۃ علیکم قولہ : فی المموضعین یعنی ان سے پہلے باء مقدر ہے دو جگہوں میں ان ان اسلموا ہے اور دوسری ان ھداکم ای بان اسلموا وبان ھدا کم تفسیر و تشریح یایھا الذین امنوا لایستخر قوم منقوم (الآیۃ) گزشتہ دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احسا دلایا گیا تھا کہ دین کیمقدس ترین رشتہ کی بناء پر وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں، اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سدباب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتی ہیں، ایک دوسرے کی عزت پر حملہ ایک دوسرے کی دل آزاری، ایک دوسرے سے بدگمانی اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، درحقیقت یہی وہ اسباب ہیں جس سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے سے بدگمانی اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، درحقیقت یہی وہ اسباب ہیں جس سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رونما ہوتے ہیں، اس سلسلہ میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیئے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بناء پر ایک مفصل قانون ہتک عزت مرتب کیا جاسکتا ہے، ایک شخص دوسرے شخص کا استہزاء اور تمسخر اسی وقت کرتا ہے جب وہ خود کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے، حالانکہ اللہ کے نزدیک ایمان اور عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں ؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لئے خود کو بہتر اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے اس آیت کے شان نزول میں متعدد واقعات ذکرکئے گئے ہیں۔ شان نزول : لایسخرقوم من قوم (الآیۃ) صاحب معالم نے کہا ہے کہ یہ آیت ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی، یہ اونچا سنتے تھے اسی لئے آپ ﷺ کے قریب بیھٹتے تھے تاکہ آپ کی بات سن سکیں، ایک روز ان کی فجر کی نماز کی ایک رکعت چھوٹ گئی اس کے بعد جب مجلس میں پہنچے تو صحابہ اپنی اپنی جگہ لے چکے تھے، ثابت بن قیس جب نماز پڑھ کر آئے تو کہنے لگے تفسحوا (جگہ دو ) لوگوں نے ان کو جگہ دیدی تو یہ کودتے پھاندتے قریب پہنچ گئے، صرف ایک شخص اپنی جگہ سے نہ ہٹاپس وہی شخص حضور کے اور ثابت کے درمیان میں تھا، ثابت نہ ٹھونکا لگا کر نام پوچھا، اس نے اپنا نام بتایا اور کہا مجھے جہاں جگہ مل گئی وہاں بیٹھا ہوں، چونکہ اس شخص کو ایام جاہلیت میں کسی عورت کی نسبت عار دلائی جاتی تھی تو ثابت نے کہا تو فلانی کا بیٹا ہے اس نے شرم سے سر جھکا لیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، ضحاک نے کہا کہ بنی تمیم کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ فقراء صحابہ پر ہنستے تھے جیسے کہ عمار ؓ سلمان ؓ ، صہیب ؓ ، بال ؓ ، خباب ؓ وغیرہ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت انس نے فرمایا کہ امہات المومنین کے حق میں نازل ہوئی، ازواج مطہرات میں سے کسی نے حضرت ام سلمہ کوتاہ قامت (ٹھنگی) کہہ دیا تھا، اسی طرح کسی نے حضرت صفیہ کو یہودن کہہ دیا، اس آیت میں اس کی ممانعت آئی کہ تمہیں کیا معلوم کہ نفس الامر میں اور خاتمہ کے اعتبار سے کون بہتر ہے ؟ (خلاصۃ التفاسیر) یہ سب ہی واقعات نزول کا سبب ہوسکتے ہیں، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ پہلا واقعہ : کہتے ہیں کہ یہ اخلاقی بیماری عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے، اس لئے عورتوں کا بطور خاص الگ ذکر کر کے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے ورنہ عام طور پر مردوں کے بارے میں حکم ذکر کر کے عورتوں کو ان کے تابع کردیا جاتا ہے۔ مردوں اور عروتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کے لئے عورتوں کے لئے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے، دراصل جس وجہ سے دونوں کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی کا قائل نہیں ہے، ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بےتکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے، اسلام میں اس کی گنجائش رکھی ہی نہیں گئی کہ غیر محرم مرد عورتوں کی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں، اس لئے اس بات کو ایک مسلم معاشرہ میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے۔ ولاتلمزوا انفسکم (الآیۃ) اللمز، العیب، ابن جریر نے کہا ہے کہ لمز ہاتھ، آنکھ زبان اور اشارہ سے ہوتا ہے اور ہمزہ صرف زبانی ہی سے ہوتا ہے۔ (فتح القدیر) لاتذابزوا (تفاعل) یہ نبز سے مشتق ہے، اور نبز حرکت کے ساتھ بمعین لقب (جمع) انباز، القاب لقب کی جمع ہے، اصلی نام کے علاوہ جو نام رکھ لیا جائے اس کو لقب کہتے ہیں یہاں برالقب مراد ہے لاتلمزوا انفسکم ایسا ہی ہے جیسا کہ لاتقتلوا انفسکم یعنی اپنے آپ کو قتل نہ کرو مطلب یہ ہے کہ آپس میں نہ تو عیب جئوی کرو اور نہ قتل کرو اور نہ آپس میں طعنہ زنی کرو، لمز کے مفہوم میں طعن وتشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہوم بھی شامل ہیں، مثلاً چوٹیں کسنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا، کھلم کھلا زیرلب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا یہ سب افعال چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے ہیں اور معاشرہ میں فساد برپا کرتے ہیں اس لئے ان کی بھی ممانعت کردی گئی ہے، تیسری چیز جس سے آیت میں ممانعت کی گئی ہے وہ کسی کو برے لقب سے پکارنا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہو جیسے کسی کو لنگڑا، لولا، اندھا، گنجا وغیرہ کہہ کر پکارنا۔ حضرت ابوجبیرہ انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نزل ہوئی ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے اور ان میں سے بعض نام ایسے تھے جو لوگوں نے اس کو عار دلانے اور تحقیر و توہین کے لئے مشہور کردیئے تھے، آپ کو یہ بات معلوم نہیں تھی بعض اوقات وہی ناپسندیدہ نام لیکر آپ اس کو خطاب کرتے تو صحابہ عرض کرتے یا رسول اللہ وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معارف) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں تنا بزبالا لقاب سے مراد ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہوگیا ہو اس کے بعد پھر اس کو اس کے اس برے عمل کے نام سے پکارنا، مثلاً اے چور، اے زانی، اے شرابی وغیرہ کہنا، جس نے ان افعال سے توبہ کرلی ہو، اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے کہ جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لیا کہ اسی کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔ (قرطبی ) بعض القاب کا استثناء : بعض لوگوں کے ایسے نام مشہور ہوجاتے ہیں کہ فی نفسہ وہ برے ہیں، مگر وہ بغیر اس لفظ کے پہچانے ہی نہیں جاتے تو اس کو اس نام سے ذکر کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ ذکر کرنے والے کا مقصد اس کی تحقیر اور تذلل نہ ہو جیسے بعض محدثین کے نام کے ساتھ، اعرج، یا احدب، یا اعمش وغیر مشہور ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا گیا کہ اسانید حدیث میں بعض ناموں کے ساتھ کچھ ایسے القاب آئے ہیں مثلاً حمید الطویل، سلیمان اعمش، مروان اصفر وغیرہ تو کیا ان الفاظ کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے ؟ آپ نیف رمایا کہ جب تمہارا قصد اس کا عیب بیان کرنے کا نہ ہو بلکہ اس کی پہچان پوری کرنے کا ہو تو جائز ہے۔ (قرطبی)
Top