Tafseer-e-Jalalain - Al-Maaida : 108
ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰى وَجْهِهَاۤ اَوْ یَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌۢ بَعْدَ اَیْمَانِهِمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓي : زیادہ قریب اَنْ : کہ يَّاْتُوْا : وہ لائیں (ادا کریں) بِالشَّهَادَةِ : گواہی عَلٰي : پر وَجْهِهَآ : اس کا رخ (صحیح طریقہ) اَوْ : یا يَخَافُوْٓا : وہ ڈریں اَنْ تُرَدَّ : کہ رد کردی جائے گی اَيْمَانٌ : قسم بَعْدَ : بعد اَيْمَانِهِمْ : ان کی قسم وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان (جمع
اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح گواہی دیں یا اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں اب کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی اور خدا سے ڈرو اور اس کی حکموں کو گوش وہوش سے سنو اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
آیت نمبر 108 ترجمہ : (مذکورہ دونوں آیتوں کا) مطلب یہ ہے کہ قریب المرگ شخص اپنی وصیت پر دو آدمیوں کو گواہ بنا لے اپنی ملت یا غیر ملت کے دو آدمیوں کو وصی بنالے اگر سفر وغیرہ کی وجہ سے اپنی ملت کے گواہ میسر نہ ہوں، اگر ورثاء وصیوں کے بارے میں شک و شبہ کریں اور دعویٰ کریں کہ ان دونوں نے (ترکہ میں سے) کوئی چیز لیکر یا ایسے شخص کو کچھ دیکر جس کے بارے میں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میت نے اس کے لئے وصیت کی تھی تو ان دونوں سے قسم لی جائے اگر علامات سے ان دونوں وصیوں کی دروغ گوئی کا پتہ چلے بایں طور کہ وہ دونوں موصیٰ لہ کو دینے کا دعویٰ کریں تو ورثاء کا قریب ترین شخص ان کے کذب اور ورثاء کے دعوے کی صداقت پر قسم کھائے، اور حکم وصیوں کے بارے میں باقی ہے، اور شاہدین کے بارے میں منسوخ ہے، اسی طرح غیر اہل ملت کی شہادت کے بارے میں آیت منسوخ ہے، اور عصر کی نماز کے وقت کا تعین کے اعتبار تغلیظ کیلئے ہے اور (میت کے) قریب ترین ورثاء کی تخصیص اس مخصوص واقعہ کی وجہ سے ہے جس کے بارے میں آیت نازل ہوئی اور وہ (واقعہ) وہ ہے جس کو بخاری نے روایت کیا ہے، کہ بنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بدّاء کے ساتھ (تجارت کے لئے) نکلا اور یہ دونوں نصرانی تھے سہمی کا انتقال ایسی سرزمین میں ہوگیا کہ وہاں کوئی مسلمان نہیں تھا، تو (مذکورہ) آیت نازل ہوئی، چناچہ جب یہ دونوں حضرات (ملک شام سے) مرھوم کا ترکہ لے کر آئے تو چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کے نقش و نگار تھے لے لیا یہ دونوں (تمیم داری اور عدی) آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے گئے تو اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی، ان دونوں سے قسم لی گئی، بعد ازاں وہ پیالہ مکہ میں پایا گیا تو اس شخص نے (جس کے پاس پیالہ پایا گیا) کہا میں نے اس کو تمیم داری اور عدی سے خریدا ہے، تو مذکورہہ آیت نازل ہوئی، سہمی کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوئے اور قسم کھائی (کہ یہ پیالہ ہمارے مورث کا ہے) اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص اور ان میں کا ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اور دونوں نے قسم کھائی اور یہ دونوں میت کے قریبی رشتہ دار تھے، (ترمذی کی) ایک (دوسری) روایت میں ہے کہ جب سہمی بیمار ہوئے تو دونوں کو وصی بنایا اور ان سے کہا کہ اس کا متروکہ مال اس کے ارثاء کو پہنچا دیں جب اس کا انتقال ہوا (میت کے متروکہ مال میں سے) ایک پیالہ لے لیا اور باقی ماندہ مال میت کے ورثاء کو پہنچا دیا یہ مذکورہ حکم یعنی قسم کے حق کو ورثاء کو لوٹا دینا اس بات کا قریبی ذریعہ ہے کہ شاہد یا اوصیاء اس شہادت کو جس کے وہ متحمل ہوئے ہیں ٹھیک ٹھیک بغیر کسی تحریف و خیانت کے ادا کریں گے یا اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ اس بات کا خوف کریں گے کہ کہیں (ان کی) قسموں کی جو مدعی ورثاء کے خلاف ہیں تردید کردی جائے بایں طور کہ ورثاء (اوصیاء کی) دروغ گوئی اور خیانت پر قسم کھالیں جس کی وجہ سے وہ رسوا ہوجائیں اور تاوان دینا پڑے، تو وہ جھوٹ نہ بولیں خیانت و کذب کو ترک کرکے اللہ سے ڈرو اور جس کا حکم دیا جائے اس کو قبولیت کے کان سے سنو اللہ فاسق لوگوں کی یعنی اس کی طاعت سے خارج ہونے والوں کی راہ خیر کی طرف رہنمائی نہیں کرتا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : المعنی یعنی مذکورہ دونوں آخری آیتوں کے معنی۔ قولہ : لِیُشھِد المحتضَر الخ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شَھَادۃُ بَیْنَکم مصدر بمعنی امر ہے، یعنی قریب المرگ شخص کو چاہیے کہ اپنی وصیت پر دو آدمیوں کو گواہ بنا لے۔ قولہ : او یُوْصِی اِلَیْھِمَا، اس اضافہ سے اشارہ کردیا کہ آیت کی دو تفسیریں ہیں، خازن کی عبارت یہ ہے، واختلفوا فی ھَذَیْبِ الاِثنین فقیل ھما الشاھد ان اللّذان یشھد ان علی وصیۃ الوصی وقیل ھما وصیان لِانِّ الآٰہ نزلتْ فیھما ولانہ تعالیٰ قال فیقسمان باللہ والشھد لا یلزمہ الیمین، مطلب یہ کہ شھادۃ اثنین سے کیا مراد ہے ؟ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اِثنٰن سے وہ دو شاہد مراد ہیں جن کو موصی نے بوقت مرگ وصیت پر گواہ بنایا ہو، بعض حضرات نے کہا ہے خود وصی مراد ہے، اس لئے کہ مذکورہ واقعہ اوصیاء ہی سے متعلق ہے، دوسری بات یہ کہ شاہدوں پر قسم لازم نہیں ہوئی، ثانی صورت میں شھادت بمعنی حضور ہوگا مثلاً تو کہے شھدت وَصِیْۃ فلانٍ ، بمعنی حضرتھا۔ تفسیر و تشریح ترمذی، ابو داؤد تفسیر ابن جریر وغیرہ میں امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس سے جو روایتیں مروی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ تین شخص دو نصرانی اور ایک مسلمان تجارت کی غرض سے ملک شام کی طرف گئے مسلمان جس کا نام بزیل یا بُدَیْل سہمی تھا سخت بیمار ہو کر قریب المرگ ہوگیا تو اس نے اپنے مال سامان کی ایک فہرست بنا کر اپنے سامان میں رکھ دی اور وہ سامان اپنے دونوں نصرانی ساتھیوں کو دیکر وصیت کی کہ میرا یہ سامان میرے وارثوں کو دیدینا، اس سامان میں چاندی کا کٹورا (پیالہ) بھی تھا جس پر سونے کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے، یہ کٹورا نصرانیوں نے اس سامان میں سے نکال لیا اور باقی سامان مسلمان سہمی کے ورثاء کو دیدیا نصرانی ساتھیوں کی نظر اس فہرست پر نہیں پڑی، سہمی کے ورثاء نے جب سامان کھولا تو وہ فہرست برآمد ہوئی، اس فہرست کے مطابق وہ کٹورا موجود نہیں تھا، سہمی کے ورثاء نے اس کٹورے کا دعوی آنحضرت ﷺ کے روبرو پیش کیا آپ ﷺ نے ان نصرانیوں کو قسم دی انہوں نے قسم کھالی کہ سہمی نے جو مال مرتے وقت ہمارے سپرد کیا تھا ہم نے وہ پورا مال اس کے ورثاء کو پہنچا دیا کچھ مدت بعد وہ کٹورا ایک سنار کے پاس ملا سہمی کے ورثاء نے پہچان لیا اور قسم کھائی کہ وہ کٹورا ان کے مورث کا ہے، چناچہ اس کٹورے کی قیمت سہمی کے ورثاء کو دلوا دی گئی۔ اس روایت کو اگرچہ ترمذی نے حسن غریب کہ ہے لیکن ابن جریر کی سند معتبر ہے، اس کے علاوہ یہ روایت علی بن مدینی کے حوالہ سے صحیح بخاری میں بھی ہے علی بن مدینی نے جو یہ کہا ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی ابن ابی القاسم معلوم الحال ہے، یہ ابن ابی القاسم ہے جس کو یحییٰ بن معین اور ابو حاتم نے ثقہ کہا ہے جس کی وجہ سے ابن ابی القاسم کے نامعلوم ہونے کا شبہ رفع گیا۔ آیت کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان حالت سفر وغیرہ میں اپنے ورثاء سے دور ہو اور اس کے پاس کچھ مال ہو تو اس کو چاہیے کہ اس مال کو ورثاء تک پہنچانے کیلئے دو مسلمانوں کو وصی اور وصیت کا گواہ بنا دے، اگر یہ واقعہ ایسی سرزمین میں پیش آئے کہ جہاں مسلمان نہ ہوں جن کو وصی بنایا جاسکے تو پھر اسلام کی شرط باقی نہ رہے گی، اگر اوصیاء کے بیان پر ورثاء کو کوئی اعتراض نہ ہو اوصیاء کے بیان کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا اسلئے کہ یہ دونوں حضرات وصی بھی ہیں اور وصیت کے گواہ بھی، اور اگر ورثاء کو اوصیاء کے بارے میں کچھ بدظنی باقی ہے تو اگر ورثاء کے پاس اوصیاء کی غلط بیانی کا کوئی ثبوت ہو تو پیش کرنے کو کہا جائیگا، ورنہ اوصیاء کی غلط بیانی میت کے ورثاء سے حلف لیا جائیگا، اور اسی کے مطابق فیصلہ کردیا جائیگا، جن علماء نے مدعی اور گواہوں سے قسم لینے کی ممانعت کی ہے انہوں نے اوصیاء سے قسم لینے کے بارے میں مختلف قسم کے شبہات کا اظہار کیا ہے لیکن حقیقت میں فریقین کا یہ حلف اسی طرح کا ہے جس طرح لعان کے مسئلہ میں فریقین کو حلف دیا جاتا ہے۔ من بعد الصلوۃ کی تفسیر بعض علماء نے صلوۃ العصر سے کی ہے یہ تغلیظ اور شدت ظاہر کرنے کیلئے ہے اسلئے کہ عصر کے بعد کا وقت قبولیت دعاء کے بارے میں خا ص اہمیت رکھتا ہے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عصر کے بعد جھوٹی قسم کو خافناک اور رحمت خداوندی سے دور ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔ ورثاء کی قسم کی مصلحت : آگے فرمایا کہ ورثاء کو قسم کا حکم اسلئے ہے کہ جب وصیت کے گواہوں کو یہ خوف رہے گا کہ ورثاء کی قسم کے مقابلہ میں ان کی قسم جھوٹی ٹھہرائی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے انکی رسوائی ہوگی تو وہ گواہی میں دروغ گوئی کی جرأت نہ کریں گے ابو موسیٰ اشعری کا واقعہ : ابو داؤد میں معتبر سند سے ابو موسیٰ اشعری کا واقعہ مذکور ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کوفہ کا رہنے والا ایک مسلمان شخص حالت سفر میں جب مرنے لگا تو اس نے اہل کتاب میں سے دو شخصوں کو اپنی وصیت کا گواہ قرار دیا، ابو موسیٰ اشعری کوفی کے حاکم تھے اسلئے یہ مقدمہ ان کی عدالت میں پیش ہوا، انہوں نے اس آیت کے مطابق گواہوں سے قسم لے کر مقدمہ کا فیصلہ کردیا، اس سے معلوم ہوا کہ بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ العمل قرار نہیں دیا اسلئے کہ نسخ تو آنحضرت ﷺ کی مدت حیات ہی میں ممکن تھا۔ (احسن التفاسیر ملخصاً )
Top