Tafseer-e-Jalalain - Al-Maaida : 114
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ١ۚ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
قَالَ : کہا عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم اللّٰهُمَّ : اے اللہ رَبَّنَآ : ہمارے رب اَنْزِلْ : اتار عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان تَكُوْنُ : ہو لَنَا : ہمارے لیے عِيْدًا : عید لِّاَوَّلِنَا : ہمارے پہلوں کے لیے وَاٰخِرِنَا : اور ہمارے پچھلے وَاٰيَةً : اور نشان مِّنْكَ : تجھ سے وَارْزُقْنَا : اور ہمیں روزی دے وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الرّٰزِقِيْنَ : روزی دینے والا
تب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کیلئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے۔
آیت نمبر 116 تا 120 ترجمہ : اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس کی قوم کو سرزنش کرنے کیلئے فرمائیگا، کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نپتے ہوئے عرض کریں گے آپ تو ہر اس چیز (یعنی) شریک وغیرہ سے پاک ہیں جو آپ کی شایان شان نہیں، اور میرے لئے کسی طرح ایسی بات کہنا لائق نہیں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں (بحق) لیس کی خبر ہے اور (لی) تبیین کیلئے (زائد) ہے اگر میں نے (یہ بات) کہی ہوگی تو آپ کو اس کا علم ہوگا اس لئے کہ تو تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے دل کی بات کو نہیں جانتا، یعنی تیری مخفی معلومات کا مجھے علم نہیں، تمام مغیبات کے جاننے والے آپ ہی ہیں میں نے تو ان سے صرف وہی بات کہی جس کو کہنے کا تو نے حکم فرمایا وہ یہ کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو کہ میرا اور تمہارا (سب کا) رب ہے، میں ان کا نگران تھا جب تک میں ان کے درمیان تھا ان کو ایسی بات کہنے سے روکے رہا اور جب آپ نے مجھے رفع آسمانی کے ذریعہ واپس بلا لیا تو آپ ان کے اعمال کے نگہبان تھے اور آپ تو ہر چیز سے واقف ہیں (خواہ) میری بات ہو جو میں نے ان سے کہی یا ان کی بات جو انہوں نے میرے بعد کہی وغیرہ وغیرہ، ان میں سے جو کفر پر قائم رہا اگر آپ ان کو سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور آپ ان کے مالک ہیں ان میں جس طرح چاہیں تصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں آپ پر کوئی اعتراض نہیں، اور اگر آپ انہیں معاف کردیں تو آپ اس پر غالب ہیں اور اپنی صنعت میں باحکمت ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ قیامت کا دن وہ دن ہے کہ اس دن میں دنیا میں سچائی اختیار کرنے والوں کی سچائی نفع پہنچائیگی جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ، اسلئے کہ یہ صلہ دینے کا دن ہے، ان کو ایسے باغات ملیں گے کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے اللہ ان سے ان کی اطاعت کی وجہ سے خوش اور وہ اس سے اس کے اجر پر راضی، یہی بڑی کامیابی ہے اور دنیا میں جھوٹوں کو قیامت میں ان کی سچائی کچھ نفع نہ دے گی، جیسا کہ کفار، جبکہ عذاب کو دیکھ کر ایمان لائیں گے، زمین اور آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے (یعنی) بارش اور نباتات اور رزق وغیرہ کے خزانے سب اسی کی ملک میں ہیں (بجائے مَنْ کے) ما، کا استعمال غیر ذوی العقول کو غلبہ دینے کی وجہ ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ان ہی میں سے سچے کو اجر عطا کرنا اور جھوٹے کو سزا دینا بھی ہے، اور عقل نے باری تعالیٰ کو (تحت القدرۃ) ہونے سے خاص کردیا چناچہ وہ اپنی ذات پر قدرت نہیں رکھتا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ای یَقُوْلُ ، قَالَ ماضی کی تفسیر یَقُوْلُ مضارع سے کرکے اس سوال کا جواب دیدیا کہ سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مکالمہ قیامت کے دن ہوگا اور قال سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ہوچکا قال کی تفسیر یقول سے کرکے بتادیا کہ ماضی بمعنی مضارع ہے قولہ : تَوْبِیْخاً لِقَوْمِہ، اس اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے اس سے کوئی شئ مخفی نہیں ہے ان ہی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی امت سے کہنا یا نہ کہنا بھی ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سوال برائے استفہام نہیں ہے بلکہ توبیخ کیلئے ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قولہ : لِقَوْمِہٖ ، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ تقصیر اور کوتاہی قوم کی تھی نہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی۔ قولہ : اُرْعِدَ لرزید از ترس، عیسیٰ (علیہ السلام) خوف کی وجہ سے لرزہ بر اندام ہوگئے۔ قولہ : ولِیْ ، للِتَّبْیِیْن، اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو، لی، کو حق سے متعلق مانتے ہیں اور وجہ ردیہ ہے کہ جار پر مجرور کے صلہ کی تقدیم ممتنع ہے۔ قولہ : بالرَّفْعِ الی السَّمَاءِ ، اس عبارت میں اشارہ ہے کہ یہاں توفّٰی کے معنی موت کے نہیں ہیں اس لئے کہ توفّٰی کے معنی اخذ الشئ وافیا، کسی چیز کو پورا پورا لینا کے ہیں، موت بھی اس کی ایک نوع ہے نہ کہ عین موت، لہٰذا اب یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ توفَّیْتَنِی سے مراد موت ہو حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال نہیں ہوا ہے۔ قولہ : وخصَّ العقلُ ذاتَہ تعالی، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ ” علی کل شئ قدیر “ میں خود اللہ تعالیٰ بھی شئی میں داخل ہے اسلئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو شئ میں داخل نہ مانیں تو اللہ تعالیٰ کا لاشئ ہونا لازم آتا ہے جو ظاہر البطلان ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کو اشیاء کا ایک فرد ماننا ضروری ہے اور کل شئی ھالک سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شئی ہلاک ہونے والی ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شئی تو ہے مگر دیگر اشیاء کے مانند نہیں، لہٰذا عقل نے ذات باری تعالیٰ کو اشیاء سے خاص کرلیا یعنی اللہ تعالیٰ ہر شئی پر قادر ہے مگر اپنی ذات پر قادر نہیں ہے اسلئے کہ قدرت کا تعلق ممکنات سے ہوتا ہے نہ کہ واجبات اور محالات سے لہٰذا شئی سے مراد کل موجود یمکن ایجادہ ہے۔ (جمل) تفسیر و تشریح وَاِذْ قَالَ اللہ یٰعیسٰی ابن مریمء اَنْتَ قلتَ للَناس الخ عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال روز قیامت میں ہوگا جس کو یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے ماضی سے تعبیر کردیا ہے، خطاب اگرچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہے مگر مقصد ان لوگوں کو زجر و توبیخ کرنا ہے جنہوں نے غیر اللہ کو معبود بنا لیا تھا، اسلئے کہ جن کو معبود بنایا گیا ہے وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی والدہ مریم کو بھی معبود بنایا تھا، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ من دون اللہ میں صرف سونے چاندی یا پتھر لوہے وغیرہ کے بت ہی شامل نہیں ہیں بلکہ اللہ کے وہ نیک بندے بھی مِنْ دَوْنِ اللہ میں شامل ہیں جن کو لوگوں نے کسی انداز سے عبادت کی، جیسے حضرت عیسیٰ و مریم اور حضرت عزیز (علیہم السلام) وغیرہ۔ مسیحیوں کا شرک : عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح (علیہ السلام) اور روح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مسیح (علیہ السلام) کی والدی ماجدہ حضرت مریم (علیہما السلام) کو بھی ایک مستقل معبود بنا ڈالا، حضرت مریم کی الوہیت یا قدوسیت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائبل میں موجود نہیں ہے مسیح (علیہ السلام) کے بعد ابتدائی تین سو سالوں تک عیسائی دنیا اس تخیل سے بالکل نا آشنا تھی، تیسری صدی عیسوی کے آخر میں اسکندریہ کے بعض علماء نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کیلئے، ” ام اللہ “ مادرِ خدا، کے الفاظ استعمال کئے، اس کے بعد بتدریج الوہیت مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا، لیکن اول اول چرچ اس عقیدہ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھا، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا، پھر جب نسطور لَیْس کے اس عقیدہ پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جدا گانہ شخصیتیں جمع تھیں، مسیحی دنیا میں بحث وجدال کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کیلئے 431 ء میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کیلئے مادر خدا، کا لقب استعمال کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، حتی کہ نزول قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں اس کے سامنے ہیچ ہوگئے، ان کے مجسمے جگہ جگہ کلیساؤں میں نصب کئے ہوئے تھے، ان کے آگے عبادت کے جملہ مراسم ادا کئے جاتے تھے، ان ہی سے دعائیں مانگی جاتی تھیں اور ان ہی کو فریاد رس اور مشکل کشا سمجھا جاتا تھا۔ توفیتنی کا مطلب : توفیتنی کا مطلب یہ ہے کہ جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا، تَوقَّیْتَنِیْ کا مادہ وَفِیٌّ ہے جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے وہ اسی لئے بولا جاتا ہے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کر دئیے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصلی معنی پورا پورا لینے کے ہیں بعض نے اس کے مجازی معنی مشہور استعمال کے مطابق موت ہی کے کئے ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی رَافِعُکَ ، کے معنی مقدم ہیں اور مُتَوَفِّیْک، کے معنی متاخر ہیں، یعنی میں تم کو آسمان پر اٹھالوں گا اور پھر جب دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا، یعنی یہود کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر، ابن کثیر)
Top