Tafseer-e-Jalalain - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ۔
آیت نمبر 35 تا 43 ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے یعنی اس کے عذاب سے ڈرو بایں طور کہ اس کی اطاعت کرو، اور اس کی اطاعت کے ذریعہ اس کا قرب تلاش کرو جو تم کو اس کا مقرب بنا دے اور اس کی راہ میں ان کے دین کو سربلند کرنے کیلئے جدوجہد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ، خوب سمجھ لو ان لوگوں کیلئے جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی اگر ان کے قبضہ میں زمین کی ساری دولت ہو اور اتنی ہی اور۔ اس سب کو قیامت کے دن کے عذاب کے عوض میں دینا چاہیں تو بھی ان سے قبول نہ ہوگی اور انہیں دردناک سزا مل کر رہے گی، وہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے اور ان کیلئے دائمی عذاب ہوگا، اور چور خواہ مرد ہو یا عورت الف لام (السارق اور السارقۃ) دونوں میں موصولہ مبتداء مشابہ بالشرط ہے اور اسی وجہ سے اس کی خبر پر فاء داخل ہے اور وہ فاقطعوا ایدیھما ہے، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یعنی ہر ایک کے داہنے ہاتھ کو گٹے سے کاٹ دو ، اور سنت نے بیان کیا ہے کہ وہ مقدار کہ جس کے عوض (ہاتھ) کاٹا جائیگا چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ ہے اور اگر وہ دوبارہ چوری کرے تو اس کا بایاں پیر ٹخنے سے کاٹا جائیگا، پھر بایاں ہاتھ پھر دایاں پیر، اور اس کے بعد تعزیری سزا دی جائے گی، یہ ان کے کرتوتوں کا بدلہ ہے، اور اللہ کی جانب سے ان کیلئے بطور سزا کے ہے، اور اللہ اپنے حکم میں غالب اپنی مخلوق کے بارے میں با حکمت ہے جزاءً مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے پھر جس نے گناہ کے بعد توبہ کرلی یعنی سرقہ سے باز آگیا، اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرے گا اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے، (فلاتحدوھم) کے بجائے اِنَّ اللہ غفور رحیم، سے تعبیر کرنے کا وہی مطلب ہے جو ماسبق میں بیان ہوا، لہٰذا (سارق کے) توبہ کرلینے سے نہ تو حق ولعباد میں سے قطع یدساقط ہوگا اور نہ (مسروقہ) مال کی واپسی کا حق، البتہ سنت سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اگر مسروق منہ نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ پیش ہونے سے پہلے معاف کردیا، تو قطع ساقط ہوجائیگا اور یہی امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے، کیا تم نہیں جانتے ؟ استفہام تقریر کیلئے ہے، کہ اللہ زمین و آسمان کی سلطنت کا مالک ہے، جس کو عذاب دینا چاہے عذاب دے گا اور جس کو معاف کرنا چاہے گا معاف کرے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور ان میں تعذیب اور مغفرت بھی داخل ہیں، اے رسول آپ کے لئے ان لوگوں کا طرز عمل باعث رنج نہ ہو کہ جو لوگ کفر کے بارے میں بڑی تیزگامی رکھاتے ہیں یعنی بڑی تیزی سے اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جب بھی موقع پاتے ہیں کفر کا اظہار کرتے ہیں خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں مِن بیانیہ ہے، جنہوں نے اپنے زبان سے کہا ہم ایمان لائے ہیں (بافواھھم) قالوا سے متعلق ہے، حالانکہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے اور منافق ہیں، یا ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے یہودی مذہب اختیار کرلیا ہے، اور وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو قبولیت کے کان سے جھوٹی بات سننے کے عادی ہیں جن کو ان کے حبار نے گھڑ لیا ہے، اور یہود میں سے ان لوگوں کے لئے آپ کی جاسوسی کرتے ہیں جو آپ کے پاس نہیں آتے اور وہ اہل خیبر ہیں، ان میں دو شادی شدہ لوگوں نے زنا کیا تھا مگر ان لوگوں نے ان کے رجم کئے جانے کو ناپسند کیا، چناچہ ان لوگوں نے بنی قریظہ کو آپ کی خدمت میں ان کا حکم معلوم کرنے کے لئے بھیجا، اور تورات میں مذکور حکم میں رد و بدل کرتے ہیں مثلاً آیت رجم میں، اس کا صحیح مفہوم متعین ہونے کے بعد، وہ مفہوم کہ جس کو اللہ نے متعین فرمایا ہے یعنی اس میں تبدیلی کردیتے ہیں، اور جن لوگوں کو بھیجا ان سے کہتے ہیں کہ اگر اس محرف حکم یعنی کوڑے مارنے کا محمد فتوی دیں تو قبول کرلینا اور اگر (محرف کے مطابق) فتوی نہ دیں بلکہ اس کے خلاف فتویٰ دیں تو اس کو قبول کرنے سے اجتناب کرنا، اور اللہ جسے فتنے گمراہی میں مبتلا کرنے کا ارادہ نہیں ہے اور اگر اللہ تعالیٰ (پاک کرنے کا) ارادہ کرتے تو ضرور پاک ہوجاتے ان کے لئے دنیا میں رسوائی کے جزیہ کے ساتھ بڑی ذلت ہے اور ان کیلئے آخرت میں بڑا عذاب ہے، اور یہ لوگ کان لگا کر جھوٹ کے سننے والے اور حرام مال کے کھانے والے ہیں مثلاً رشوت کے ذریعہ، اگر یہ لوگ آپ سے اپنا فیصلہ کرانے کیلئے آپ کے پاس آئیں، (اگر چاہو) تو ان کے درمیان فیصلہ کردو یا انکار کردو، یہ اختیار اللہ تعالیٰ کے قول ” واَن احکم بَیْنَھم “ کے ذریعہ منسوخ ہے، لہٰذا اگر وہ فیصلہ ہمارے پاس لائیں تو اس کا فیصلہ کرنا واجب ہے امام شافعی (رح) تعالیٰ کے اقوال میں سے یہ صحیح تر ہے، اور اگر کسی مسلمان کے ساتھ ہمارے پاس مقدمہ لائیں تو بالاتفاق فیصلہ کرنا واجب ہے، اور اگر تم انکار کردو تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اور اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ صحیح صحیح فیصلہ کریں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ فیصلہ میں انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں یعنی ان کو اجر عطا فرمائیں گے، اور یہ لوگ آپ کو کیسے حکم بناتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے اس میں رجم کا خدائی حکم موجود ہے استفہام تعجب کے لئے ہے یعنی اس سے ان کا مقصد معرفت حق نہیں ہے بلکہ ان کیلئے آسانی تلاش کرنا ہے، پھر یہ لوگ آپ کے رجم کے فیصلے کے بعد جو ان کی کتاب کے مطابق ہے اعراض کرتے ہیں، در حقیقت یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ثَبَتَ ۔ سوال : لَوْ ثَبَتَ أنّ لَھُمْ میں ثَبَتَ مقدر ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : لَوْ حرف شرط چونکہ فعل پر ہی داخل ہوتا ہے اگر ثَبَتَ فعل مقدر نہ مانا جائئے تو، لَوْ کا حرف پر داخل ہونا لازم آئے گا۔ قولہ : اَلْ ، الف لام موصولہ ہیں معنی میں اَلَّذِیْ سَرَقَ وَالَّتِیْ سَرَقَتْ کے ہے اسم موصول مبتداء متضمن بمعنی شرط ہے اس لئے اس کی خبر فاقطعوا پر متضمن بمعنی جزاء ہونے کی وجہ سے فاء داخل ہے۔ قولہ : نَصْبٌ عَلَی الْمَصْدَرِیَّۃِ ، بمعنی جزاءًا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، ای یُجْزَوْنَ جزاءً ۔ قولہ : فی التَعْبِیْرَ بھذا یعنی فَمَنْ تاب من بعد ظلمہ کے جواب میں فَلَا تحدّوا نہیں فرمایا بلکہ فاِن اللہ یتوب علیہ فرمایا، اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کی وجہ سے حقوق العباد کو معاد نہ فرمائیں گے، یعنی آخرت کی سزا تو معاف فرما سکتے ہیں جو کہ حقوق اللہ ہے مگر دنیا کی سزا جو کہ قطع ید اور مسروقہ مال کی واپسی ہے معاف نہ فرمائیں گے، اور ان اللہ غفورٌ رحیم کی تعبیر میں بھی یہی مقصد ہے۔ قولہ : لا یَحْزُنْکَ صُنْع، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حزن و ملال کا تعلق ذات سے نہیں بلکہ فعل سے ہوتا ہے اسی مقصد کے لئے مفسر علام نے صنع کا اضافہ کیا ہے۔ قولہ : سَمّٰعُوْنَ ، یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای ھم سمّٰعون۔ قولہ : مِن بعد مَوَاضعِہٖ ، ای من بعد تحقیق مواضعِہٖ الَّتی وضع اللہ، یعنی کلمہ کا مفہوم منجانب اللہ متعین ہونے کے باوجود کلمہ کو اس کے حقیقی مفہوم سے ہٹا دیتے تھے۔ قولہ : اَلسُّحْت، حرام یہ سَحَتَہٗ ، سے ماخوذ ہے اس وقت بولتے ہیں جب کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے حرام مال چونکہ مسحوت البرکت ہوتا ہے اسی لئے اس کو سُحُت کہا جاتا ہے، اکّالون للسحت، وہ بڑے حرام خور ہیں۔ تفسیر و تشریح یٰآیُّھَا الَّذِیْن آمنوا اتقوا اللہ وابتغوا اِلَیْہ الوسیلۃ، وسیلہ، وسْلٌ مصدر سے مشتق ہے جس کے معنی ملنے اور جڑنے کے ہیں، سین اور صاد دونوں سے تقریباً ایک ہی معنی میں آتا ہے فرق اتنا ہے کہ صاد سے مطلقاً ملنے اور جڑنے کے معنی میں ہے اور سین سے رغبت و محبت کے ساتھ ملنے اور جڑنے کے معنی میں۔ وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو، کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جن سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے، علامہ شوکانی فرماتے ہیں ” انَّ الوَسِیْلَۃَ التی ھِیَ القربۃ تصدق علی التقوی وعلیٰ غیرھا من خصال الخیر التی یتقرب العبادبھا الی ربھم “ یہاں وسیلہ کے وہ معنی مراد نہیں ہیں جو عام لوگ مراد لیتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے، البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کریم ﷺ کو عطا فرمایا جائیگا، اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے وسیلہ کی دعا کریگا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان) دعاء وسیلہ : دعاء وسیلہ جو اذان کے بعد پڑھی جاتی ہے یہ ہے، اللّٰھمَّ ربّ ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ والقائمۃ، اٰتِ محمداً نِ الوسیلۃ والفضیلۃ وَابْعثہ مقامًا محمودًا نِ الذی وَعَدْتَہٗ ۔
Top