بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے قسم ہے ان ہوائوں کی جو غبار وغیرہ کو پراگندہ کرتی ہیں (ذروا) مصدر ہے اور کہا جاتا ہے تذریہ ذریاً یعنی ہوائیں غبار کو اڑاتی ہیں پھر قسم ہے ان بادلوں کی جو پانی کے بوجھ کو اٹھانے والے ہیں وقراً حاملات کا مفعول ہے، پھر قسم ہے ان کشتیوں کی جو پانی کی سطح پر سہولت کے ساتھ چلتی ہیں یسراً مصدر ہے حال کی جگہ میں یعنی حال یہ کہ وہ سبک رفتاری سے چلتی ہیں پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو ایک بڑے اہم کام کی یعنی رزق اور بارش وغیرہ کی بندوں اور شہروں کے درمیان تقسیم کرنے والے ہیں اور جو تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ما مصدریہ ہے یعنی ان سے بعث وغیرہ کا وعدہ سچا وعدہ ہے، اور حساب کے بعد جزاء اعمال لا محالہ پیش آنے والی ہے اور قسم ہے راستوں والے آسمان کی (حبک) حبیکۃ کی جمع ہے، جیسا کہ طرق، طریقۃ کی جمع ہے یعنی وہ آسمان پیدائشی طور پر راستوں والے ہیں، جیسا کہ ریت میں راستے ہوتے ہیں بلاشبہ تم اے مکہ والو ! حضور کی اور قرآن کی شان میں مختلف باتیں کرتے ہو (آپ کے بارے میں) کہا گیا، شاعر ہیں، جادوگر ہیں، کاہن ہیں (اور قرآن کے بارے میں کہا) کہا گیا شعر ہے، جادو ہے کہانت ہے اس سے یعنی نبی اور قرآن سے یعنی ان پر ایمان لانے سے وہی باز رکھا جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہدایت سے پھیر دیا گیا ہو غارت ہوجائیں بےسند (اٹکل سے) باتیں کرنے والے ملعون ہوئے مختلف باتوں والے جھوٹے جو جہالت میں غرق ہیں جن کو جہالت نے غرق کر رکھا ہے اور امر آخرت سے غافل ہیں نبی ﷺ سے بطور استہزاء پوچھتے ہیں جزاء کا دن کب ہوگا ؟ یعنی وہ کب آئیگا ؟ ان کا جواب یہ ہے، یوم جزاء اس دن آئے گا جس دن ان کو آگ پر بھونا جائے گا یعنی ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا اور عذاب دیتے وقت ان سے کہا جائے گا، اپنی سزا کا مزا چکھو یہی ہے وہ عذاب جس کی دنیا میں تم استہزاء جلدی مچایا کرتے تھے، بلاشبہ تقوے والے لوگ باغوں میں اور چشموں میں ہوں گے جو باغوں میں جاری ہوں گے ان کے رب نے ان کو جو کچھ ثواب عطا فرمایا ہے اس کو لے رہے ہوں گے وہ تو اس سے پہلے ہی دنیا میں نیکو کار تھے اور وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے (یھجعون) بمعنی ینامون ہے اور یھجعون کان کی خبر ہے اور قلیلاً ظرف ہے یعنی رات کے کم حصہ میں سوتے تھے اور اکثر حصہ میں نماز پڑھتے تھے اور سحر کے وقت استغفار کیا کرتے تھے، یوں کہا کرتے تھے اللھم اغفرلنا اور ان کے ماملوں میں مانگنے والوں کا اور نہ مانگنے والوں کا حق ہے اور محروم وہ شخص ہے جو سوال سے بچنے کی وجہ سے سوال نہ کرے (جس کے نتیجے میں محروم رہ جائے) اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے پہاڑوں اور دریائوں اور درختوں اور پھلوں اور نباتات وغیرہ کی بہت سی نشانیاں ہیں جو اللہ کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی نشانیاں ہیں تمہاری تخلیق کی ابتداء سے لیکر اس کی انتہا تک اور وہ جو تمہاری تخلیق میں عجائبات ہیں کیا تم اس میں غور نہیں کرتے ہو کہ تم اس سے اس کی صنعت اور قدرت پر استدلال کرو اور آسمان میں تمہارا رزق یعنی بارش جو کہ نباتات کا سبب ہے کہ وہ رزق ہے اور وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے، آسمان اور زمین کے پروردگار کی قسم یہ یعنی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے بالکل حق ہے، ایسا ہی جیسا کہ تم باتیں کرتے ہوئے مثل کے رفع کے ساتھ (حق) کی صفت ہے اور مازائدہ ہے اور (مثل) کے لام کے فتحہ کے ساتھ ما کے ساتھ مرکب ہے اور معنی یہ ہیں کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ حقیقت ہونے میں ایسا ہی ہے جیسا کہ تمہارا گفتگو کرنا حقیقت ہے یعنی جس طرح تمہارے نزدیک تمہاری گفتگو معلوم ہونے میں یقینی ہونے میں یقینی ہے اس گفتگو کے تم سے بالبداہتہ صادر ہونے کی وجہ سے (اسی طرح تم سے کیا ہوا وعدہ بھی حقیقت ہے۔ ) تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : والذاریت وائو قسمیہ ہے ذاریت ذاریۃ کی جمع ہیں، اڑنے والیاں، پراگندہ کرنے والیاں، اس کا موصوف الریاح محذوف ہے ای الریاح الذاریات پراگندہ کرنے والی ہوائیں، یہ ذری یذرو ذروا یا ذری یذری ذریا معتل لام وادی یا یائی سے مشتق ہے۔ (ض، ن) والذاریات مقسم بہ ہے۔ قولہ : ویقال ذری یذری ذریاً سے یائی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : تھب بہ اس کا اضافہ بیان معنی کے لئے ہوا اس کو پراگندہ کرتی ہے، اڑاتی ہے۔ قولہ : انما توعدون علامہ محلی نے ماکو مصدریہ قرار دیا ہے یعنی وعد کے معنی میں ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ان وعدکم لوعد صادق قولہ : انما توعدون لصادق معطوف علیہ ہے اور ان الدین لواقع معطوف ہے، معطوف اور معطوف علیہ مل کر جملہ ہو کر جواب قسم ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ انما میں ما کو موصولہ قرار دیا جائے اور توعدون جملہ ہو کر صلہ ہو، عائد محذوف ای بہ جملہ ہو کر ان کا اسم اور لصادق ان کی خبر اور ان حرف مشبہ بالعفل ہے۔ قولہ : والسماء ذات الحبک وائو قسمیہ جارہ بمعنی اقسم السماء موصوف الحبک صفت، موصوف بالصفت جملہ ہو کر جواب قسم۔ قولہ : حبک حبیکۃ کی جمع ہے جیسے طرق طریقۃ کی جمع ہے بمعنی راستہ، پانی کی لہر، ریت میں ہوا کی وجہ سے پڑنے والے نشانتا اور بعض حضرات نے حبک کو حباک کی جمع کہا جیسے مثل مثال کی جمع ہے حبیکۃ وحباک ستاروں کی رہ گزر کو بھی کہتے ہیں۔ (اعراب القرآن، لغات القرآن) قولہ : فی الخلقۃ کالطرق فی الرمل اس عبارت کے اضافہ کاف ائدہ یہ ہے کہ یہ آسمانی راستے خیالی یا معنوی نہیں ہیں بلکہ محسوس اور موجود فی الخارج ہیں اگرچہ بعید ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ قولہ : یوفک عنہ یوفک واحد مذکر غائب مضارع مجہول افک (ض) سے پھیرا جاتا ہے، بھٹکایا جاتا ہے۔ قولہ : صرف عن الھدایۃ فی علم اللہ تعالیٰ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یوفک عنہ من افک سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بھٹکا ہوا ہے اس کو بھٹکایا جائے گا اور یہ تحصیل حاصل ہے اس لئے کہ جو بھٹکا ہوا ہے اس کے بھٹکانے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ جواب : جو اللہ تعالیٰ کے ازلی میں بھٹکا ہوا ہے وہ خارج اور ظاہر میں بھٹکایا جائے گا۔ البلاغۃ قولہ : قتل الخراصون، قتل کے حقیقی معنی قتل کرنے کے ہیں، مگر یہاں علی سبیل الاستعارۃ لعنت کے معنی میں مستعمل ہے، بایں طور کہ مفقود السعادۃ کو مفقود الحیات کے ساتھ تشبیہ دی ہے یہ استعارہ بالکنا یہ ہوا، مفقود السعادۃ مشبہ ہے اور مفقود الحیاۃ مشبہ بہ ہے، مشبہ بہ اگرچہ محذوف ہے مگر مشبہ بہ کے لوازم میں سے قتل کو مشبہ کے لئے ثابت کردیا، یہ استعارہ تخیلیہ ہوا، قتل الخراصون معنی میں لعن الکذابون یعنی بد دعاء کے معنی میں ہے خراصون اٹکل دوڑانے والے، جھوٹ بکنے والے، خراص کی جمع ہے خرص سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ (لغات القرآن) قولہ : غمرۃ گہرا پانی جس کی تہ نظر نہ آئے، یہاں چھا جانے والی جہالت مراد ہے۔ (لغات القرآن) قولہ : ایان یوم الدین ایان خبر مقدم یوم الدین مبتداء مئوخر قولہ : متی مجیئہ، متی ایان کی تفسیر ہے مجیئہ حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے اور حذف مضاف ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : ایان یوم الدین مشرکین کی طرف سے سوال ہے اور یوم ھم علی النار یفتنون سوال کا جواب ہے، سوال اور جواب دونوں زمان ہیں اور زمان کا جواب زمان سے نہیں ہوتا بلکہ زمان کا جواب حدث سے ہوتا ہے، مفسر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اسی سوال کے جواب کے لئے مجیئہ مضاف محذوف مانا ہے تاکہ زمان کا جواب اخبار بالزمان سے ہوجائے۔ سوال : ایان یوم الدین میں تعیین وقت کا سوال ہے، اس کا جواب یوم ھم علی النار یفتنون ہے جو کہ مبہوم اور غیر متعین ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جواب :۔ مشرکین مکہ کا سوال چونکہ علم و فہم کے لئے نہیں بلکہ بطور استہزاء کے تھا اسی لئے حقیقتاً جواب کے بجائے صورۃ جواب دیا تاکہ سوال و جواب میں مطابقت ہوجائے، یوم کا ناصب یجیی، محذوف ہے، ھم مبتداء ہے یفتنون خبر اور علی بمعین فی ہے۔ سوال : یفتنون کا صلہ علیٰ کیوں لایا گیا ؟ جواب :۔ یفتنون چونکہ یعرضون کے معنی کو متضمن ہے اس لئے یفتنون کا صلہ علی لایا گیا ہے۔ قولہ : تجری فیھا اس اضافہ کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول ان المتقین فی جنت وعیون سے معلوم ہوتا کہ متقی لوگ چشموں میں ہو گے حالانکہ چشموں میں ہونے کا یا رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے مفسر علام نے تجری فیھا کہہ کر اس کا جواب دیا۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ متقی ایسے باغوں میں ہوں گے جن میں نہریں جاری ہوں گی۔ قولہ : آخدین یہ ان کی خبر محذوف کی ضمیر سے حال ہے، تقدیر پر عابرت یہ ہے کہ کائنون فی جنات وعیون حال کونھم، آخذین ما اتاھم ربھم قولہ : من الثواب یہ ماکا بیان ہے۔ قولہ : یھجعون ھجوع سے رات کے سونے کو کہتے ہیں۔ قولہ : وبالا سحار یستغفرون کے متعلق ہے اور باء بمعنی فی ہے الاسحار سحر کی جمع ہے رات کے سدس اخیر کو کہتے ہیں، یستغفرون کا مطف یھجعن پر ہے۔ تفسیر و تشریع سورة ق کے مانند سورة ذاریات میں بھی زیادہ تر مضامین آخرت اور قیامت، اس میں مردوں کے زندہ ہونے، حساب و کتاب اور ثواب و عذاب کے متعلق ہیں، پہلی چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت کے متعلق جن چیزوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا وعدہ ہے، جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ چار ہیں (1) الذاریت ذرواً (2) الحاملات وقراً (3) الجاریات یسراً (4) المقسمات امراً اور ان کا مقسم بہ انما توعدون لصادق وان الدین لواقع ہے۔ مفسر علام نے مقسم بہ سے ہوائیں اور دوسرے مقسم بہ سے بادل اور تیسرے سے کشتیاں اور چوتھے سے فرشتے مراد لئے ہیں، اسی مفہوم کی ایک مرفوع روایت بھی ہے جس کو ابن کثیر نے ضعیف کہا ہے، اور حضرت عمر ؓ اور ضرت علی ؓ سے بھی موقوفاً مذکورہ مفہوم مروی ہے (قرطبی، درمنثور) الجاریات یسراً اور ملقسمات امراً کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، ایک جماعت نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ان دونوں سے بھی ہوائیں مراد ہیں، یعنی پھر یہ ہوائیں بادلوں کو لکیر چلتی ہیں اور پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جہاں جتنا حکم ہوتا ہے، پانی تقسیم کرتی ہیں جو کہ رزق کا سبب ہے۔
Top