Tafseer-e-Jalalain - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہونچی ہے ؟
ترجمہ : اے محمد ﷺ کیا ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کا واقعہ آپ تک پہنچا ؟ اور وہ بارہ یا دس یا تین فرشتے تھے، ان میں جبرائیل (علیہ السلام) بھی تھے جبکہ وہ (مہمان) ان کے پاس آئے (اذ) حدیث ضیف کا ظرف ہے، تو انہوں نے سلام کیا یعنی لفظ سلاما کہا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جواب میں) لفظ سلام کہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے جی میں کہا یہ تو انجانے لوگ ہیں (قوم منکرون) مبتداء مقدر کی خبر ہے اور وہ ھولاء ہے پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک (بھنا ہوا) فربہ بچھڑا لائے اور سورة ہود میں ہے جاء بعجل حنیذ یعنی بھنا ہوا بچھڑا لائے، اور اسے ان کے سامنے رکھا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ہو ؟ یعنی ان کے سامنے کھانا رکھا لیکن انہوں نے توجہ نہ کی تو ان سے دل میں خوف زدہ ہوئے (یعنی) اپنے دل میں (خوف محسوس کیا) تو ان لوگوں نے کہا ڈرو مت بلاشبہ ہم تیرے پروردگار کے فرستا دے ہیں اور انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک ذی علم لڑکے کی خوشخبری دی یعنی کثیر العلم لڑکے کی اور وہ اسحاق (علیہ السلام) تھے جیسا کہ سورة ہود میں مذکورہ ہوا تو ان کی بیوی سارہ چیختی ہوئی آگے بڑھی (فی صرۃ) حال ہے یعنی (تعجب سے) چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اپنا منہ پیٹ لیا اور کہا بڑھیا بانجھ جس نے کبھی کچھ نہیں جنا اور ان کی عمر نانوے سال تھی اور ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال تھی، یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور ان کی بیوی کی عمر نوے سال تھی، فرشتوں نے کہا تیرے رب نے ایسا ہی فرمایا ہے یعنی ہماری بشارت کے مانند بلاشبہ وہ حکیم ہے اپنی صنعت میں اور باخبر ہے اپنی مخلوق کے بارے میں (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے فرستادو ! تم کو کیا مہم درپیش ہے ؟ فرشتوں نے جواب دیا ہم کو مجرم کافر قوم کی طرف بھیجا گیا ہے یعنی قوم لوط کی طرف تاکہ ہم ان پر آگ میں پکے ہوئے مٹی کے کنکر برسائیں جو تیرے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں حد سے گذر جانے والوں کے لئے الغلام بازی کی وجہ سے ان کے ساتھ یعنی جس شخص کو جس کنکری کے ذریعہ ہلاک کیا جانا ہے اس پر اس کے نام کی علامت لگی ہوئی ہے (یعنی اس کا نام لکھا ہوا ہے) عند ربک مسومۃ کا ظرف ہے پس جتنے ایمان دار وہاں یعنی قوط لوط کی بستیوں میں موجود تھے ہم نے نکال لئے کافروں کو ہلاک کرنے کے لئے ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا اور وہ لوط (علیہ السلام) اور ان کے دو بیٹیوں کا گھرانہ تھا، اہل خانہ کا ایمان اور سالام کے ساتھ وصف بیان کیا گیا ہے یعنی وہ اپنے قلوب سے تصدیق کرنے والے اور اپنے اعضاء سے طاعت پر عمل کرنے والے اور ہم نے اس بستی میں کافروں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی ہلاکت پر ان لوگوں کے لئے جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں علامت چھوڑ دی تاکہ ان جیسی حرکت نہ کریں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں بھی اس کا عطف فیھا پر ہے اور معنی یہ ہیں اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں بھی علامت رکھی ہے کہ ہم نے اس کو واضح دلیل کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا تو فرعون نے مع اپنے لشکر کے ایمان سے اعراض کیا (لشکر کو رکن کہا ہے) اس لئے کہ لشکر اس کے لئے رکن کے مانند تھا، اور فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا کہ وہ جادو گر یا بائولا ہے بالآخر ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا سو وہ سب کے سب غرق ہوگئے اور وہ یعنی فرعون تھا ہی ملامت کے قابل یعنی ایسی حرکت کرنے والا تھا کہ جس پر اس کو ملامت کی جائے (اور) وہ رسولوں کی تکذیب اور دعوائے ربوبیت اور قوم عاد کو ہلاک کرنے میں بھی نشانی ہے جب ہم نے ان پر بانجھ (رفیق) ہوا بھیجی وہ واپسی ہوا تھی کہ اس میں کوئی فیض نہیں تھا، اس لئے کہ وہ ہوا نہ تو حال مطر تھی اور نہ درختوں کو بار آور کرنے والی کہا گیا ہے کہ وہ جنوبی ہوا تھی وہ جس چیز پر بھی گذرتی تھی خواہ جان ہو یا مال اس کو بوسیدہ ہڈی کے مانند ریزہ ریزہ کردیتی تھی اور ثمود کے ہلاک کرنے میں بھی نشانی ہے جب ان سے اونٹنی کو ہلاک کرنے کے بعد کہا گیا چند دن یعنی اپنی زندگی کی مدت پوری ہونے تک اور مزے اڑا لو جیسا کہ آیت تمتعوا فی دارکم ثلاثۃ ایام میں ہے، لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم یعنی اس کی بجا آوری سے سرتابی کی جس پر انہیں تین دن گذرنے کے بعد عذاب نے آپکڑا یعنی ایک مہلک چیخ نے اور وہ (عذاب) کو روز روشن میں (کھلی آنکھوں سے) دیکھ رہے تھے پس نہ تو وہ کھڑے ہو سکے یعنی نزول عذاب کے وقت وہ کھڑے ہونے پر قادر نہ ہوئے اور نہ وہ ان کو ہلاک کرنے والے سے بدلہ ہی لے سکے اور ان سے پہلے قوم نوح کا بھی یہی حال ہوچکا تھا یعنی ان مکذبین مذکورین کو ہلاک کرنے سے پہلے اور وہ بڑے نافرمان لوگ تھے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ھل اتک حدیث ضیف ابراہیم، ھل یہاں شوق دلانے، دلچسپی پیدا کرنے اور اس قصہ کی عظمت شان کو ظاہر کرنے کیلئے ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ھل بمعنی قد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ھل اتی علی الانسان حین من الدھر الخ میں ھل بمعنی قد ہے۔ (صاوی) سوال : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں بطور مہمان آنے والے فرشتوں کی تعداد تین سے زیادہ تھی، جس کے لئے ضیوف جمع کا لفظ استعمال ہونا چاہیے، حالانکہ ضیف مفرد کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : ضیف چونکہ اصل میں مصدر ہے جس کا اطلاق واحد تثنیہ جمع سب پر ہوتا ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ (صاوی) قولہ : اذ دخلوا بعض حضرات نے کہا ہے کہ اذ ذخلوا، اذکر فعل محذوف کا ظرف ہے، اور وہی اس کا ناصب ہے اور بعض نے حدیث کو عامل بنایا ہے ای ھل اتاک حدیثھم الواقع فی وقت دخولھم علیہ اور بعض حضرات نے المکرمین کو ناصب قرار دیا ہے اس لئے کہ حضرت ابراہیم نے آنے والے مہمانوں کا داخل ہونے کے وقت اکرام کیا تھا۔ قولہ : فقالوا سلاماً ، سلاماً مفعول مطلق ہے اس کا فعل ناصب سلمت محذوف ہے ای سلمت سلاماً یا نسلم علیکم سلاماً ہے مصدر جو کہ فعل کی بھی قائم مقامی کر رہا ہے، اس لئے فعل کو حذف کردیا گیا۔ قولہ : قال سلام ابراہیم (علیہ السلام) نے جواباً فرمایا سلام، سلام کا نکرہ ہونے کے ابوجود مبتداء بننا صحیح ہے اس لئے کہ سلام دعاء کے معنی کو متضمن ہے (لغات القرآن، درویش) ثبات و دوام پر دلالت کرنے کے لئے رفع کی جانب عدول کیا ہے تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سلام مہمانوں کے سلا سے بہتر ہوجائے۔ قولہ : فاوجس اس نے پایا، اس نے محسوس کیا، یہ ایجاس سے ماضی واحد مذکر غائب ہے، ایجاس کے معنی دل میں محسوس کرنا اور دل میں مخفی آواز کا آنا۔ (لغات القرآن) قولہ : اضمر فی نفسہ کا اضافہ محض بیان معنی کے لئے ہے۔ قولہ : صرۃ شدید چیخ پکار کو کہتے ہیں، صریر الباب دروازے کی آواز صریر القلم قلم کے لکھنے کی آواز اقبلت صائحۃ ای جائت صائحۃ چیختی چلاتی آئی اور بعض حضرات نے اقبلت کا ترجمہ اخذت کیا ہے یعنی سارہ نے چیخنا چلانا شروع کردیا، یہ اقبلت شتمتنی کے قبیل سے ہے یعنی تو نے مجھے گالی دینی شروع کردی۔ قولہ : فصکت وجھھا یعنی سارہ نے بڑھاپے میں فرزند کی خوشخبری سن کر تعجب سے اپنا منہ پیٹ لیا قالت عجور عقیم ای انا عجور عقیم فکیف الد قولہ : کذلک یہ مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، ای قال قولاً مثل ذلک الذی قلنا قولہ : قال فما خطبکم ایھا المرسلون یہ جملہ مستانفہ ہے ایک سوال مقدر کا جواب ہے، گویا کہ کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے مذکورہ گفتگو کے بعد کیا کہ، جواب دیا : قال فما خطبکم ایھا المرسلون قولہ : خطب، خطب کے معنی شان اور قصہ اور امر عظیم اور کار مہم کے ہیں۔ قولہ : حجارۃ من طین مطبوخ بالنار، حجارۃ یہ حجر کی جمع ہے۔ سوال : من طین کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اس اضافہ کا مقصد احتمال مجاز کو دفع کرنا ہے اسلئے کہ بعض اوقات حجارۃ اور حجر اولوں کو بھی کہا جاتا ہے، حجارۃ کے مجازی معنی مراد ہوں تو مطلب ہوگا کہ قوم لوط کو اولوں کے ذریعہ ہلاک کیا گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا طائر یطیر بجناحیہ اس میں یطیر بجناحیہ کے اضافہ کا مقصد احتمال مجاز کو دفع کرنا ہے، اس لئے کہ بعض اوقات تیز رفتار شخص کو بھی مجاز اطائر کہہ دیا جاتا ہے۔ سوال : مفسر علام نے مطبوخ بالنار کا اضافہ کس مقصد کے لئے کیا ہے ؟ جواب : یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ حجارہ مٹی کا نہیں ہوتا تو پھر یہاں مٹی کا پتھر کیوں کہا گیا ہے یہاں حجارۃ من طین سے آگ میں پکی ہوئی مٹی مراد ہے جو سختی اور صلابت میں پتھر ہی کے مثل ہوتی ہے، اسی کو سجیل کہتے ہیں یہ درحقیقت سنگ گل کا معرب ہے، جس کو کنکر بھی کہا جاتا ہے۔ قولہ : مسومۃ، مسومۃ کے معنی معلمۃ یعنی نشان زدہ کے ہیں مسومۃ یا تو حجارۃ کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے یا حجارۃ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : عندربک یہ مسومۃ کا ظرف ہے ای معلمۃ عندہ قولہ : فاخر جنامن کان فیھا یہاں سے اللہ تعالیٰ کا کلام شروع ہو رہا ہے، سابق میں حضرت ابراہیم اور فرشتوں کی گفتگو نقل کی گئی تھی۔ سوال : فیھا کا مرجع قریٰ قوم لوط ہیں حالانکہ ماقبل میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے اس میں اضمار قبل الذکر لازم آتا ہے۔ جواب :۔ چونکہ قریٰ قوم لوط معروف اور معہود فی الذہن تھے اس لئے ضمیر لانا درست ہے جیسے کہ مندرجہ ذیل شعر میں محبوب کے معروف یا معہود فی الذہن ہوکنے کی وجہ سے بغیر سابق میں ذکر کے ضمیر لائی گئی ہے۔ پوچھو پتہ نہ ان کا آگے بڑھے چلو ہوگا کسی گلی میں فتنہ جگا ہوا قولہ : وفی موسیٰ اس کا عطف فیھا پر ہے اور ترکنا کے تحت میں ہے، جیسا کہ مفسر عالم نے جعلنا فی قصۃ موسیٰ آیۃ کہہ کر اشارہ کردیا ہے یعنی ہم نے چشم بصیرت رکھنے والوں کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں بھی عبرت کا سامان رکھ دیا ہے اور وفی موسیٰ کا عطف فیھا پر ہے۔ قولہ : مع جنودہ کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ برکنہ میں باء بمعنی مع ہے۔ قولہ : ساحر اومجنون او بمعنی وائو بھی ہوسکتا ہے اور یہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دونوں لقبوں سے یاد کرتے تھے قرآن کریم نے ایک جگہ فرعونیوں کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا ان ھذا لساحر علیم اور دوسری جگہ فرعونیوں کا قول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں نقل کرتے ہوئے فرمایا رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون اس سے معلوم ہوتا ہے کہ او بمعنی وائو ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ او علی بابھا ہو اور مراد قوم کو تشکیک اور بہام کے ذریعہ دھوا دیناہو۔ قولہ : ونودہ یہ بھی درست ہے کہ اخذناہ کی ضمیر مفعولی ہ، پر عطف ہو یہ کہ مفعول معہ ہو اور یہی ظاہر ہے۔ قولہ : عقیم بانجھ عورت الریح العقیم سے مراد وہ ہوا ہے جو بےفیض بلکہ مضر ہو، نہ مثمر شجر ہو اور نہ حامل مطہر اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ ہوا دبور (پچھوا) تھی، حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، آپ نے فرمایا نصرت بالصباء و اھلکت عاد بالدبور اور بعض نے جنوبی ہوا مراد دلی ہے۔ قولہ : لاتلفح، القاح سے بمعنی حاملہ کرنا، بار آور کرنا، مادہ لقح ہے (س) ل قحا حاملہ ہونا۔ قولہ : الصعقۃ صاعقہ آسمانی بجلی کو بھی کہتے ہیں اور چیخ و چنگھاڑ کو بھی کہتے ہیں یہاں یہی دوسرے معنی مراد ہیں تاکہ دوسری آیت ان عذابھم الصیحۃ کے مخالف نہ ہو۔ قولہ : علی من اھلکھم یہ وما کانوا منتصرین کی تفسیر ہے، یعنی وہ اپنے ہلاک کرنے والے پر غالب نہ آسکے یا اس سے انتقام نہ لے سکے، مگر یہ معنی درست نہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے نہ کوئی انتقام لینے پر قادر ہے اور نہ غالب آنے پر لہٰذا بہتر ہوتا کہ علامہ محلی بجائے علی من اھلکھم کے وماکانوا دافعین عن انسھم العذاب فرماتے۔ تفسیر و تشریح ھل اتک حدیث ضیف ابراہیم یہاں سے رکوع کے آخر تک آپ ﷺ کی تسلی کے لئے چند انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف مختصر اشارات کئے گئے ہیں، ان واقعات میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف مختصر اشارات کئے گئے ہیں ان واقعات میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا واقعہ پہلا واقعہ ہے، یہ واقعہ قرآن مجید میں پہلے بھی سورة ہود اور سورة عنکبوت میں گذر چکا ہے، ھل یا تو بمعنی قد ہے یا استفہام تشویق و تعظیم کے لئے ہے، ضیف اگرچہ واحد ہے مگر مصدر ہونے کی وجہ سے اس کا اطلاق قلیل و کثیر سب پر ہوتا ہے، یہ مہمان انسانی شکل میں آئے تھے، ان کے بارے میں ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا بل عباد مکرومون مہمان بن کر انسانی شکل میں آنے والے فرشتوں کی تعداد کتنی تھی اس میں مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ تین تھے، جبرائیل، میکائیل، اسرافیل (فتح القدیر) فرشتوں نے آ کر سلام کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بہتر طریقہ سے جواب دیا، اور اپنے دل میں کہا انجانے لوگ معلوم ہوتے ہیں، یا اپنے اہل کے پاس جاتے ہوئے اپنے کسی خادم وغیرہ سے کہا مطلب یہ ہے کہ خود مہمانوں سے نہیں فرمایا اس لئے کہ بظاہر یہ بات نامناسب معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خود مہمانوں سے فرمایا ہو کہ آپ حضرات سے کبھی اس سے پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا آپ شاید اس علاقہ میں نئے تشریف لائے ہیں۔
Top