Tafseer-e-Jalalain - An-Naml : 29
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ
فَاَقْبَلَتِ : پھر آگے آئی امْرَاَتُهٗ : اس کی بیوی فِيْ صَرَّةٍ : حیرت سے بولتی ہوئی فَصَكَّتْ : اس نے ہاتھ مارا وَجْهَهَا : اپنا چہرہ وَقَالَتْ : اور بولی عَجُوْزٌ : بڑھیا عَقِيْمٌ : بانجھ
تو ابراہیم کی بیوی چلاتی آئی اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگی (اے ہے ایک تو) بڑھیا اور (دوسرے) بانجھ
فاقبلت امراتہ فی صرۃ فصحکت وجھھا (الخ) صرۃ غیر معمولی آواز کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ حضرت سارہ جو کہ قریب ہی کہیں کھڑی تھیں جب یہ سنا کہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بچے کی پیدائش کی خوشخبری دے رہے ہیں تو غیر اختیاری طور پر حضرت سارہ کے منہ سے کچھ الفاظ حیرت اور تعجب کے نکلے تو کہا ” عجوز عقیم “ اول میں بڑھیا پھر بانجھ جس کے جوانی میں کچھ نہیں ہوا، اب بڑھاپے میں کیا امید کی جاسکتی ہے، اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا ” کذلک “ یعنی اللہ تعالیٰ کو سب قدرت ہے یہ کام یوں ہی ہوگا، چناچہ بشارت کے مطابق جب حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو سارہ کی عمر ننانوے سال اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال تھی۔ (قرطبی، معارف) اس گفتگو سے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ یہ مہمان اللہ کے فرشتے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا آپ کس مہم پر تشریف لائے ہیں، خطب، اہم اور عظیم کام کو کہتے ہیں، چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں اور وہ بھی جماعت کی شکل میں آنا کسی اہم اور عظیم الشان کام ہی کے لئے ہوتا ہے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ان حضرات کی آمد کسی اہم کام کے سلسلے میں ہے، اسی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا فما خطبکم ایھا المرسلون اے فرستادو ! آپ کو کیا مہم درپیش ہے، فرشتوں نے جواب دیا، ہم کو ایک مجرم قوم کی طرف عذاب دینے کے لئے بھیجا گیا ہے اور مجرم قوم سے قوم لوط (علیہ السلام) مراد ہے۔
Top