Tafseer-e-Jalalain - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم سب کو مقدور ہے
ترجمہ : اور آسمان کو ہم نے اپنی قرت قوت سے بنایا اور بلاشبہ ہم وسیع القدرت ہیں (یعنی) ہم اس پر قادر ہیں بولا جاتا ہے ادا الرجل یئید آدمی قوی ہوگیا ( اور بولا جاتا ہے) اوسع الرجل آدمی وسعت وقدرت والا ہوگیا اور ہم نے زمین کو بچھایا سو ہم کیسے اچھے بچھانے والے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا مثلاً نر اور مادہ، آسمان اور زمین، شمس اور قمر، میدان اور پہاڑ، گرمی اور سردی، شیریں اور ترش، نور اور ظلمت تاکہ تم سبق لو (تذکرون) میں اصل سے دو تائوں میں سے ایک کو حذف کر کے تاکہ تم جان لو کہ ازواج کا خالق، فرد ہے (جوڑے کا پیدا کرنے والا اجوڑ ہے) لہٰذا اس کی بندگی کروصاے محمد ﷺ آپ ان سے کہئے) کہ اللہ کی طرف دوڑو یعنی اس کے عذاب سے اس کے ثواب کی جانب، بایں طور کہ اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی نہ کرو یقینا میں تم کو اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں اور اس کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرائو میں تم کو اس کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں (فقروا) سے پہلے قل لھم مقدر مانا جائے گا اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا ان سے کہہ دیا کہ یہ جادوگر ہے یا دیوانہ یعنی جس طرح یہ لوگ اپنے قول انک ساحر اومجنون کے ذریعہ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں اسی طرح انہی کلمات کے ذریعہ ان سے پہلی امتوں نے بھی اپنے رسولوں کی تکذیب کی کیا اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کر مرے ہیں ؟ یہ استفہام بمعنی نفی ہے (نہیں) بلکہ یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں ان کی سرکشی نے ان کو اس بات پر جمع کردیا ہے تو آپ ان سے منہ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں اسل لئے کہ آپ نے تو ان کو پیغام پہنچا دیا اور آپ قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتے ہیں یقینا یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی، جس کے بارے میں اللہ کو علم ہے کہ وہ ایمان لائے گا، میں نے جنات کو اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری بندگی کریں اور یہ (مقصد تخلیق) کافروں کے عبادت نہ کرنے کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ غایت کا وجود لازم نہیں ہوتا جیسا کہ تو کہے کہ میں نے یہ قلم بنایا ہے لکھنے کے لئے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ اس قلم سے نہیں لکھتے نہ میں ان سے اپنے لئے روزی چاہتا ہوں نہ خود ان کے لئے اور نہ ان کے غیر کے لئے اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں اور نہ خود ان کو اور نہ ان کے غیر کو اللہ تو خود ہی سب کو رزق دینے والا نہایت قوت والا ہے بلاشبہ مکہ وغیرہ کے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے کفر کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کیا عذاب کی بایر ہے ان کے ان ہم مشربوں کی باری کے مانند جو ان سے پہلے ہلاک ہوچکے لہٰذا وہ مجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ مچائیں اگر میں ان کو قیامت تک مہلت دیدوں اور ان کافروں کے لئے بڑی خرابی یعنی سخت عذاب ہوگی اس دن کے آنے سے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یعنی قیامت کا دن۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : والسماء بنینھا جمہور نے والسماء پر اور والرض پر علی سبیل الاشتغال نصب پڑھا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وبنینا السماء بنینھا وفرشنا الارض فرشنھا اور ابوالسماک اور ابن مقسم نے دونوں جگہ مبتداء ہونے کی وجہ سے رفع پڑھا ہے اور ان دونوں کا مابعد ان کی خبر ہے اول یعنی نصب اولی ہے، جملہ فعلیہ کا عطف جملہ فعلیہ پر ہونے کی وجہ سے۔ قولہ : وانا لموسعون یہ جملہ شارح کی تقریر کی رو سے حال مئوکدہ ہے، اس لئے کہ شارح نے یہ بات متعین کردی ہے کہ موسعون قادرون کے معنی میں ہے لہٰذا موسعون اوسع لازم سے ہوگا اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے اور ق الشجر ای صادر ذ اورق جب یہ بات سمجھ میں آگئی کہ لموسعون شارح کی تقریر کے مطابق لازم ہے تو پھر جلالین کے جن نسخوں میں لموسعون کے بعد لھا ہے وہ صحیح نہیں ہے البتہ ان لوگوں کے نزدیک جنہوں نے لموسعون کو متعدی کہا ہے ان کے نزدیک لھا صحیح ہوگا اور اس صورت میں لموسعون حال مئوسسہ ہوگا جو ایک نیا فائدہ دے گا۔ قولہ : خلقنا زوجین سوال :۔ زوجین کی سات مثالیں کیوں دیں ؟ جبکہ ایک مثال بھی کافی ہوسکتی تھی ؟ جواب : متعدد مثالیں دیکر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ جوڑے اور زوج کی جو بات ہے یہ محسوسات تک محدود ہے تاکہ عرشی کرس، لوح محفوظ، قلم کو لیکر اعتراض نہ ہو۔ قولہ : استھام بمعنی النفی مطلب یہ ہے کہ اولین و آخرین کو نبیوں کی تکذیب کرنے میں یکساں اور ایک ہی بات کہنے پر جمع کرنے والی چیز ایک دوسرے کو وصیت کرنا نہیں ہے اس لئے کہ زمانے مختلف ہیں لہٰذا تواصی ممکن نہیں ہے، بلکہ اصل سبب اور علت مشترکہ بغاوت، عناد اور سرکشی ہے جو دونوں فریقوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ قولہ : لان الغایۃ لایلزم شارح رحمتہ اللہ تعالیٰ کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے اس شبہ کو دفع کرنا ہے کہ لیعبدون میں لام علت باعثہ کے لئے ہے یعنی جن و انس کو پیدا کرنے کی علت اور غرض عبادت ہے، اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال معلل بالا غرضا ہوں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل معلل بالا غرضا نہیں ہوتا، اس کا جواب دیا کہ لیعبدون میں لام عاقبۃ اور صیرورت کے لئے ہے جس کو علت غائیہ بھی کہتے ہیں، نہ کہ علث باعثہ کے لئے۔ قولہ : ولا ینافی ذلک عدم عبادۃ الکافرین اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : جب جن وانس کی تخلیق کی علت غائیہ عبادت ہے تو ہر انسان کو عبادت کرنی چاہیے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کافر اللہ کی بندگی نہیں کرتے ؟ جواب : غایۃ کا وقوع ضروری اور لازم نہیں ہوتا مثلاً آپ ایک قلم بناتے ہیں لکھنے کے لئے مگر بعض اوقات اس سے نہیں لکھتے، حالانکہ آپ کے قلم بنانے کی غرض اور غایت لکھنا ہی ہے۔ دوسرا جواب بعض حضرات نے یہ دیا ہے کہ یہاں عباد سے مراد عباد مومنین ہیں جو کہ تعمیم بعد التخصیص کے قبیل سے ہے، اور مومین ایمان کے اعتبار سے عبادت گزار ہوتے ہیں۔ قولہ : لانفسھم اس کلمہ کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا دفع کرنا ہے۔ شبہ : عام طور پر دنیوی سادات اور غلاموں کے مالکوں کی یہ عادت اور طریقہ ہوتا ہے کہ غلام خریدنے کا مقصد ان سے اپنے لئے اور خود غلاموں کے نفقہ کے لئے کسب کرانا ہوتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کا بھی یہی مقصد ہیڈ دفع : عام مالکوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی نہ یہ عادت ہے اور نہ ضرورت ہے بلکہ وہ تو خود اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے۔ قولہ : دنوباً ذال کے فتح کے ساتھ ذنب کی جمع ہے بڑے ڈول کو کہتے ہیں، اصطلاحی اور عربی معنی میں حصہ باری کو کہتے ہیں۔ تفسیر و تشریح ربط : سابقہ آیات میں قیامت و آخرت کا بیان اور اس کا منکرین پر عذاب کا ذکر تھا، ان آیات میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہے اور روز قیامت زندہ کرنے اور ان سے حساب کتاب لینے پر جو مشرکین کو تعجب ت ھا اس کا ازالہ ہے، نیز توحید کا اثبات اور رسالت پر ایمان کی تاکید ہے۔ بنینھا باید وانا لمسعون، اید قوت وقدرت کے معنی میں آتا ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے یہاں یہی معنی لئے ہیں لموسعون، موسعون، موسع کی جمع ہے اس کے معنی طاقت وقدرت رکھنے والے کے بھی ہوسکتے ہیں اس صورت میں لازم ہوگا اور وسیع کرنے والے کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے متعدی ہوگا، اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد و تعاون سے نہیں بلکہ اپنے دست قدرت اور زور قوت سے بنایا ہے، پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آگیا کہ ہم تمہیں دوبارہ پیدا نہ کرسکیں گے ؟ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات میں ہم مسلسل وسعت کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہوتے رہتے ہیں، ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے ؟ اور کہا گیا ہے کہ رزق میں وسعت کرنا مراد ہے ای انا لموسعون الرزق بالمطر جوہری نے کہا ہے : اوسع الرجل، صادر ذاسعۃ و غنی
Top