Tafseer-e-Jalalain - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں
وما خلقت الجن ولانس الا لیعبدون یعنی ہم نے جنات اور انسان کو محض عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، اس میں ظاہر نظر میں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں جس کا جواب اجمالی طور پر تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان ہوچکا ہے اس کی مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ اعتراض اول : یہ ہے کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کی مشیت بھی یہی ہے کہ یہ مخلوق اس کام کو کرے تو عقلی طور پر یہ ناممکن اور محال ہوگا کہ پھر وہ مخلوق اس کام سے انحراف کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مشئیت کے خلاف کوئی کام محال ہے۔ اعتراض اول کا پہلا جواب : پہلے اشکار کے جواب میں بعض مفسرین نے اس مضمن کو صرف مومنین کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے یعنی ہم نے مومن جنات اور مومن انسانوں کو بجز عبادت کے اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا اور یہ بات ظاہر ہے کہ مومن کم و بیش عبادت کے پابند ہوتے ہیں کم از کم ایمان کے پابند تو ہوتے ہیں جو کہ اہم عبادت بلکہ اصل عبادت ہے، یہ قول ضحاک اور سفیان وغیرہ کا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی ایک قرأت آیت مذکورہ میں اس طرح ہے وما خلقت الجن والانس من المومنین الالیعبدون اس قرأت سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ یہ مضمون صرف مومنین کے حق میں آیا ہے۔ مذکورہ اعتراض کا دوسرا جواب : مذکورہ اعتراض کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ اس آیت میں ارادہ الٰہیہ سے مردا ادارہ تکوینی نہیں ہے جس کے خلاف کا وقوع محال ہوتا ہے، بلکہ ارادہ تشریعی مراد ہے یعنی یہ کہ ہم نے ان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم انکو عبادت کے لئے مامور کریں، اور امر الٰہی چونکہ انسانی اختیار کے ساتھ مشروط ہوتا ہے، اس کے خلاف کا وقوع محال نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو عبادت کا حکم دیدیا ہے مگر ساتھ ہی اختیار بھی دیا ہے، اس لئے جس نے خدا داد اختیار کو صحیح استعمال کیا تو وہ عبادت میں لگ گیا اور جس نے غلط استعمال کیا وہ عبادت سے منحر فہو گیا یہ حضرت علی ؓ سے بغوی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے قتل کیا ہے۔ (معارف) مذکورہ اعتراض کا تیسرا جواب : اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی تخلیق اس انداز پر کی ہے کہ ان میں استعداد اور صلاحیت عبادت کرنے کی ہو چناچہ ہر جن وانس کی فطرت میں یہ استعداد قدرتی موجود ہے پھر کوئی اس استعداد کو صحیح مصرف میں خرچ کر کے کامیاب ہوتا ہے اور کوئی اس استعداد کو اپنے معاصی اور شہوات میں ضائع کردیا ت ہے اور اس مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او یمجسانہ یعنی پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اس کو اس کی فطرت سے ہٹا کر کوئی یہودی بنا دیتا ہے تو کوئی مجوسی بنا دیتا ہے اور فطرت سے مراد اکثر علماء کے نزدیک دین اسلام ہے اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے۔ (مظھری، معارف) دوسرا اشکال : دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس آیت میں جن وانس کی تخلیق کو صرف عبادت میں منحصر کردیا ہے، حالانکہ انی کی پیدئاش کے علاوہ دوسرے فوائد و مقاصد اور حکمتیں بھی موجود ہیں۔ دوسرے اشکال کا جواب : دوسرے اشکال کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ حصر اضافی ہے حقیقی نہیں، لہٰذا کسی مخلوق کو عبادت کے لئے پیدا کرنا اس سے دیگر فوائد و منافع کی نفی کرتا۔
Top