Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ
: اور یہ کہ نہیں
لِلْاِنْسَانِ
: انسان کے لیے
اِلَّا مَا سَعٰى
: مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
وان لیس للانسان الا ماسعی جیسا کہ ماسبق کی آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کا گاہ دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اسی طرح اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی سعری دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی، اس آیت سے جو یہ حصر مستفاد ہے کہ ہر شخص کو اسی کے عمل کی جزاء ملے گی دوسرے کے عمل کی نہیں، مگر یہ مسلک متعزلہ کا ہے، اہل سنت والجماعت کا بلکہ اہل اسلام میں سے اور کسی کا نہیں۔ تین اہم اصول : اس آیت سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں : (1) ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا ہی پھل پائے گا (2) دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پاسکتا الایہ کہ اس عمل میں اس کا کوئی حصہ ہو (3) تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی اور عمل کے بغیر کچھ نہیں پاسکتا۔ مطلب یہ کہ جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہیں ہوگا اسی طرح آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی (اس جز کا تعلق آخرت سے ہے دنیا سے نہیں) جیسا کہ بعض لوگ اس آیت کو دنیا کے معاشی معاملات پر غلط طریقے سے منطبق کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی معنت کی کمائی کے سوا کسی چیز کا جائز مالک نہیں ہوسکتا، جیسا کہ سوشلسٹ قسم کے لوگ اس کا یہ مفہوم باور کرا کے غیر حاض رزمینداری اور کرایہ داری کو ناجائز قرار دیتے ہیں اسی طرح کارخانوں کی پیداوار میں بقدر محنت وسعی مزدور کا حصہ قرار دیتے ہیں مگر یہ بات قرآن مجید ہی کے دیئے ہوئے دیگر قوانین اور احکام سے ٹکراتی ہے مثلاً قانون وراثت جس کی رو سے ایک شخص کے ترکہ میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں اور اس کے جائز وارث قرار پاتے ہیں، حالانکہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی، ایک شیر خوار وارث بچہ کے متعلق تو کسی طرح کھینچ تان سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں اس بچے کی محنت کا بھی کوئی حصہ تھا ایسے ہی احکام زکوۃ و صدقات جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسرے کو محض ان کو شرعی و اخلاقی استحقاق کی بنئا پر ملتا ہے اور وہ اس کے جائز مالک ہوتے ہیں، حالن کہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہوتا، اس لئے قرآن کی کسی ایک آیت کو لے کر اس سے ایسے نتائج نکالنا جو خود قرآن ہی کی دوسری تعلیمات سے متصادم ہوتے ہیں، قرآن کے منشاء کے بالکل خلاف ہے۔ مسئلہ ایصال ثواب : بعض دوسرے لوگ ان اصولوں کو آخرت سے متعلق مان کر یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا ان اصولوں کی رو سے ایک شخص کا عمل دوسرے شخص کے لئے کسی صورت میں بھی نافع ہوسکتا ہے ؟ اور کیا ایک شخص اگر دوسرے شخص کے لئے یا اس کے بدلے کوئی عمل کرے تو وہ اس کی طرف سے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے عمل کے اجر کو دوسرے کی طرف منتقل کرسکتا ہے ؟ ان سوالات کا جواب اگر نفی میں ہو تو ایصال ثواب اور حج بدل وغیرہ سب ناجائز ہوجاتے ہیں، بلکہ دوسرے کے حق میں دعاء، استغفار بھی بےمعنی ہوجاتی ہے کیونکہ یہ دعاء بھی اس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کیجیائے، مگر یہ انتہائی نقطہ، نظر معتزلہ کے سوا اہل اسلام میں سے کسی کا نہیں ہے، صرف معتزلہ ہی اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ایک شخص کی سعی دوسرے کے لئے کسی حال میں بھی نافع نہیں ہوسکتی، بخلاف اہل سنت والجماعت کے کہ ایک شخص کے لئے دوسرے کی دعاء کے نافع ہونے کو تو بالا تفاق مانتے ہیں کیونکہ یہ قرآن سے ثابت ہے البتہ ایصال ثواب اور نیابۃ کسی دوسرے کی طرف سے کسی نیک کام کے نافع ہونے میں ان کے درمیان اصولاً نہیں تفصیل میں اختلاف ہے۔ عبادات کی تین قسمیں : فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ عبادات کی تین قسمیں ہیں : (1) اول خالص بدنی جیسے نماز، روزہ، ایمان (2) دوسرے خالص مالی جیسے زکوۃ صدقہ (3) مالی اور بدنی سے مرکب، جیسے حج، پہلی قسم میں نیابت درست نہیں مثلاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے فرض نماز پڑھ لے اور دوسرا شخص اس عمل سے سبکدوش ہوجائے یا دوسرے کی طرف سے فرض روزہ رکھ لے اور دوسرا اس فرض روزے سے سبکدوش ہوجائے، یا ایک شخص دوسرے کی طرف سے ایمان قبول کرلے اور دوسرا اس سے سبکدوش ہوجائے اور اس دوسرے شخص کو مومن قرار دیدیا جائے۔ آیت مذکورہ کی اس تفسیر پر کوئی فقہی اشکال نہیں اور نہ شبہ عائد ہوتا ہے، زیادہ سے زیادہ حج اور زکوۃ کے مسئلہ میں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ضرورت کے وقت شرعاً ایک شخص دوسرے کی طر سے حج بدل سکتا ہے یا دوسرے کی زکوۃ اس کی اجازت سے ادا کرسکتا ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ اشکال اس لئے درست نہیں کہ کسی کو اپنی جگہ حج بدل کے لئے بھیج دینا اور اس کے مصارف خود ادا کرنا، یا کسی شخص کو اپنی طرف سے زکوۃ ادا کرنے کے لئے مامور کردینا بھی درحقیقت اسی شخص کے اپنے عمل اور سعی کا جزء ہے، اس لئے لیس للانسان الا ماسعی کے منافی نہیں۔ جبکہ اوپر یہ معلوم ہوچکا ہے کہ آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض مثلاً ایمان، نماز، روزہ ادا کر کے دوسرے شخص کو سبکدوش نہیں کرسکتا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عملی کا فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہ پہنچ سکے، ایک شخص کی دعاء اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہنچنا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے۔ (ابن کثیر، معارف) تفسیر مظہری میں اس جگہ ان تمام احادیث کو جمع کردیا ہے جن سے ایصال ثواب کا فائدہ دوسرے کو پہنچنا ثابت ہوتا ہے۔ ایصال ثواب کی حقیقت : ایصال ثواب یہ ہے کہ ایک شخص کو نیک عمل کر کے اللہ سے دعاء کرے کہ اس کا اجر وثواب کسی دوسرے شخص کو عطا فرما دیا جائے، اس مسئلہ میں امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ خلاص بدنی عبادات مثلاً نماز روزہ، تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا، البتہ مالی عبادات مثلاً صدقہ خیرات وغیرہ یا مالی اور بدنی سے مرکب عبادات مثلاً حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے، اصول یہ ہے کہ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لئے نافع نہ ہو مگر چونکہ احادیث صحیحہ کی رو سے صدقہ کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے، اور حج بدل بھی کیا جاسکتا ہے اس لئے ہم اسی نوعیت کی عبادات تک ایصال ثواب کی صحت تسلیم کرتے ہیں۔ قرآن خوانی کا ایصال ثواب : اس کے برخلاف حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کرسکات ہے خواہ وہ نماز ہو یا روزہ یا تلاوت قرآن، یا ذکر و صدقہ یا حج وعمرہ یہ بات بکثرت احادیث سے ثابت ہے، صاحب صاوی نے مالی و بدنی عبادت کے ایصال ثواب کے جواز پر اسی آیت کے تحت گیارہ دلیلیں لکھی ہیں جن میں قرآن و سنت دونوں کی دلیلیں ہیں، قرآن میں فرمایا واتبعتھم ذریتھم بایمان والدین کے ایمان و عمل کی بدولت اولاد کو ان کے مرتبہ میں پہنچا دینا یہ سعی غیر کا فائدہ ہے حالانکہ والدین کے عمل وسعی میں اولاد کا کوئی حصہ نہیں ہے، شیخ تقی الدین ابوالعباس احمد بن تیمیمہ نے فرمایا کہ جس نے یہ اعتقاد رکھا کہ انسان کو صرف اسی کے عمل کا فائدہ اور ثمرہ حاصل ہوگا، اس نے خرق اجماع کیا، امام اعظم رحمتہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی مسلک ہے۔ (صاوی) دارقطنی میں ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں ان کے انتقال کے بعد کیسے کروں ؟ آپ نے فرمایا یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے منے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لئے بھی روزے رکھے، دار قطنی کی ایک دوسری روایت میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ” جس شخص کا قبرستان پر گذر ہوا اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو (اس قبرستان میں) جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کردیا جائے گا۔ بخاری، مسلم، مسند احم، ابن ماجہ، طبرانی (فی الاوسط) مستدرک اور ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہ ؓ ، ابوہریرہ ؓ حضرت جابر ؓ بن عبداللہ، حضرت ابو رافع ؓ حضرت ابوطلحہ انصاری، اور حذیفہ بن اسید الغاری کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طر سے قبران کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔ مسلم و بخاری، مسند احمد ابو دائود اور نسائی میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا ہے، میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لئے کہتیں، اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لئے اجر ہے ؟ فرمایا ہاں !۔ یہ کثیر روایتیں جو ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہیں اس امر کی تصریح کرتی ہیں کہ ایصال ثواب نہ صرف ممکن ہے بلکہ ہر طرح کی عبادات اور نیکیوں کے ثواب کا ایصال ہوسکتا ہے اور اس میں کسی خاص نوعیت کے اعمال کی تخصیص نہیں ہے۔ ایصال عذاب ممکن نہیں : ایصال ثواب تو ممکن ہے مگر ایصال عذاب ممکن نہیں، یعنی یہ تو ہوسکتا ہے کہ آدمی نیکی کر کے کسی دوسرے کے لئے اجر بخش دے اور وہ اس کو پہنچ جائے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ آدمی گناہ کر کے اس کا عذاب کسی کو بخش دے اور وہ اسے پہنچ جائے۔ خالص بدنی عبادات میں نیابت اور ان کا ایصال ثواب : خلاص مالی عبادات یا مالی اور بدنی عبادات سے مرکب عبادات میں نیابت اور ایصال ثواب کا واضح ثبوت ملات ہے، اب رہیں خالص بدنی عبادات میں نیابت اور ایصال ثواب کا ثبوت تو بعض احادیث ایسی بھی ہیں جن سے اس نوعیت کی عبادات میں نیابت کا جوا زثابت ہوتا ہے، مثلاً ابن عباس ؓ کی یہ روایت کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں نے روزے کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کئے غیر مرگئی، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں، آپ نے فرمایا اس کی طرف سے روزہ رکھ لے۔ (بخاری و مسلم، احمد، نسائی، ابو دائود) اور حضرت بریدہ ؓ کی یہ روایت کی کہ ایک عورت نے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ اس کے ذمہ ایک مہینے کے روزے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے) کے روزے تھے، کیا میں یہ روزے ادا کر دوں ؟ آپ نے اس کو بھی اس کی اجازت دے دی۔ (مسلم، احمد، ترمذی، ابو ائود) اور حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ آپ ﷺ نے فرمایا من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ، جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھ لے۔ (بخاری، مسلم، احمد) بزار کی روایت میں حضور ﷺ کے ال فاظ یہ ہیں فلیضم عنہ ولیہ ان شاء یعنی اگر اس کا ولی چاہے تو اس کی طرف سے روزے رکھ لے، انہی احادیث کی بناء پر اصحاب الحدیث، اور امام اوزاعی اور ظاہر یہ اس کے قائل ہیں کہ بدنی عبادات میں بھی نیابت جائز ہے، مگر امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی اور امام زید بن علی کا فتویٰ یہ ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جاسکتا اور امام احمد، امام لیث اور اسحاق بن راہو یہ فرماتے ہیں کہ صرف اس صورت میں ایسا کیا جاسکتا ہے جب مرنے والے نے اس کی نذر مانی ہو اور وہ اسے پورا نہ کرسکا ہو۔ مانعین کا استدلال : مانعین کا استدلال یہ ہے کہ جن احادیث سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے ان کے راویوں نے خود اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے، حضرت ابن عباس کا فتویٰ نسائی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے لایصل احد عن احد ولا یصم احد عن احد کوئی شخص نہ کسی کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے اور حضرت عائشہ ؓ کا فتویٰ عبدالرزاق کی روایت کے مطابق یہ ہے لاتصوموا عن موتکم وا طعموا عنھم اپنے مردوں کی طرف سے روزہ نہ رکھو بلکہ ان کی طرف سے کھانا کھلائو، حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی عبدالرزاق نے یہی بات نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتداء بدنی عبادات میں نیابت کی اجازت تھی، مگر آخری حکم یہی قرار پایا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ احادیث نقل کی ہوں وہ خود ان کے خلاف فتویٰ دیں۔ فائدہ :۔ اس سلسلہ میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نیابۃ فریضہ کی ادائیگی کے قائلین کے نزدیک بھی نیابۃ ادائیگی صرف اسی صورت میں مفید ہوسکتی ہے جبکہ خود ادائے فرض کے خواہشمند رہے ہوں اور معذوری کی وجہ سے قاصر رہ گئے ہوں لیکن اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود قصداً مثلاً حج سے مجتنب رہا اور اس کے دل میں اس فرض کا احساس تک نہ تھا اس کے لئے خواہ کتنے ہی حج بدل کئے جائیں وہ اس کے حق میں مفید نہیں ہوسکتے، یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص نے کسی کا قرض جان بوجھ کر مار رکھا ہے اور مرتے دم تک اس کا کوئی ارادہ قرض ادا کرنے کا نہ تھا اس کی طرف سے اگر قرض ادا کردیا جائے، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ قرض مارنے ولا ہی شمار ہوگا، دوسرے کے ادا کرنے سے سبکدوش صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنی زندگی میں ادائے قرض کا خواہشمند ہوا اور مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کرسکا ہو۔ (واللہ اعلم بالصواب)
Top