Tafseer-e-Jalalain - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
تو وہ کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم
فکان قاب قوسین او ادنیٰ ” قاب “ کمان کی لکڑی جس میں قبضہ (دستہ) لگا ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل لکڑی کے دونوں کناروں میں ڈور (تانت) بندھی ہوتی ہے، دستہ اور ڈور کے درمیانی فاصلہ کو قاب کہتے ہیں، جس کا فاصلہ اندازاً ڈیڑھ فٹ ہوتا ہے، قاب قوسین یعنی دو کمانوں کا قاب جس کا فاصلہ تین فٹ ہے یہ تعبیر حضرت جبرئیل اور آپ ﷺ کے درمیان نہایت قرب کو بیان کرنے کے لئے اتخیار کی ہے، عرب کی عادت تھی کہ آپسی اتحاد و یگانگت کو ظار کرنا یا اگر دو آدمی پولیس میں صلح اور دوستی کا معاہدہ کرنا چاہتے تو جس طرح اس کی ایک علامت ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی معروف و مشہور ہے اسی طرح ایک علامت یہ تھی کہ دونوں اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی اپنی اپنی طرف کر کے ڈور (تانت) کو ڈور سے ملات اور جب ڈور سے ڈور مل جاتی تو باہمی و مئودت کا اعلان سمجھا جاتا، اس قرب کے وقت دونوں شخصوں کے درمیان دو قابوں تقریباً تین فٹ کا فاصلہ رہتا۔ ایک علمی اشکال اور اس کا جواب : آیات مذکورہ میں صفات کا مصداق حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو قرار دینے میں جو کہ جمہور مفسرین کا مختار ہے بظاہر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اوپر کی آیات میں جو ضمیریں ہیں وہ جبرائیل کی طرف راجع ہیں، مگر صرف فاوی الی عبدہ ما اوحی میں دونوں ضمیریں اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہیں جو عبارت کے نظم و نسق کے خلاف ہے اور اس سے انتشار مرجع بھی لازم آتا ہے، اس کا جواب حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب نے یہ دیا ہے۔ جواب :۔ نہ یہاں نظم کلام میں کوئی اختلال ہے اور نہ انتشار ضمائر، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سورة نجم کی شروع آیت میں ان ھ الا وحی یوحی کا ذکر فرما کر جس مضمون کی ابتداء کی گئی ہے اسی کا نہایت منضبط بیان اس طرح کیا گیا ہے کہ وحی بھیجنے والا تا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں مگر اس وحی کے پہچانے میں ایک واسطہ جبرئیل کا تھا چند آیات میں اس واسطہ کی پوری طرح توثیق کرنے کے بعد بپھر اوحی الی عبدہ ماوحی فرمایا یہ ابتدائی کلام کا تکملہ ہے اور اس میں انتشار ضمیر اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اوحی اور عبدہ کی ضمیر میں اس کے سوا احتمال ہی نہیں کہ وہ حق تعالیٰ کی طرف راجع ہو اس لئے یہ مرجع پہلے سے متعین ہے اور ما اوحی میں موحی بہ کو مبہم رکھ کر اس کی عظمت شان کی طرف اشارہ ہے۔
Top