Tafseer-e-Jalalain - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو مخلوق زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے
ترجمہ :۔ جو کچھ اس پر یعنی زمین پر ہے سب فنا ہونے والا ہے ذوی العقول کو غلبہ دیتے ہوئے من سے تعبیر کیا ہے (صرف) تیرے باعظمت مومنین پر اپنے انعاموں کا احسان کرنے والے رب کی ذات باقی رہ جائے گی سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اور سب آسمان اور زمین والے اسی سے مانگتے ہیں یعنی زبان قال سے یا زبان حال سے (طلب کرتے ہیں) جس چیز کی ان کو حاجت ہوتی ہے خواہ عبادت پر قدرت ہو، یا رزق یا مغرفت وغیرہ وغیرہ پر وہ ہر وقت ایک شان میں رہتا ہے (یعنی ہمہ وقت) ایسے شغل میں رہتا ہے جس کو وہ عالم میں اس کے مطابق جو اس نے نزل میں مقدر کردیا ہے مثلاً زندگی دینا اور موت دینا اور عزت دینا اور ذلیل کرنا اور مالدار کرنا اور مفلس کرنا اور داعی کی دعاء کو قبول کرنا اور سائل کو عطا کرنا وغیرہ وغیرہ سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منر ہوجائو گے ؟ اے انسانوں اور جنو ! ہم عنقریب تمہارے لئے فارغ ہوں گے یعنی تمہارے حساب کی طرف متوجہ ہوں گے تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اے جن اور انسانوں کی جماعتوں اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو امر تعجیز کے لئے ہے تم طاقت کے بغیر نہیں نکل سکتے اور تم کو اس کی طاقت نہیں وس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے وہ تمہارے اوپر آگ کے شعلے چھوڑے گا (شواظ) آگ کا وہ شعلہ جس میں ھواں نہ ہو، یا مع دھوئیں کے، اور خالص دھواں چھوڑے گا یعنی ایسا دھواں کہ جس میں شعلہ نہ ہو ہو پھر تم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ وہ تم کو محشر کی طرف کھینچ کرلے جائے گا سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ پس جب آسمان پھٹ جائے گا یعنی ملائکہ کے نزول کے لئے دروازے کھل جائیں گے اور چمڑے کے مانند سرخ ہوجائے گا جیسا کہ سرخ چمڑا (یعنی) سابقہ حالت کے برخلاف اور اذا کا جواب فما اعظم الھول (محذوف ہے) یعنی کس قدر ہولناک منظر ہوگا ؟ سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اس دن کسی انسان اور جن کے گناہوں کی پرسش نہ ہوگی اور دوسرے وقت میں پرسش ہوگی جیسا کہ فرمایا) فوربک لنسئلنھم اجمعین یعنی قسم ہے تیرے رب کی ہم ضرور ان سے باز پرس کریں گے اور جان یہاں اور آئندہ جنی کے معنی میں ہے اور انس بھی مذکورہ مقاموں میں انسی کے معنی میں ہے سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ مجرم اپنے حلیوں سے پہچانے جائیں گے یعنی چہروں کی سیاہی اور آنکھوں کی نیلگونی سے، ان کی پشانیوں کے بال اور قدم پکڑے جائیں گے، تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ یعنی ان میں سے ہر ایک کی پیشانی پیچھے سے یا اگٓے سے قدموں سے ملا دی جائے گی اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہی ہے وہ جہنم جس کی مجرم تکذیب کرتے تھے، جہنم اور شدید گرم پانی کے درمیان چکر لگائیں گے (یعنی) دوڑیں گے، آگ کی گرمی سے جب فریاد کریں گے تو گرم پانی پلائے جائیں گے، (ان) قاض کے مانند منقوص ہے سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ای الارض من الحیوان مفسر علام نے علیھا کی تفسیر ای الارض سے کر کے اشارہ کردیا کہ جنت و نار، حور و غلمان فنا نہیں ہوں گے، بلکہ زمین کی اشیاء فنا ہوں گی، نیز کل یوم ھو فی شان سے یہود پر رد ہوگیا، یہود کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں پوری کائنات کو پیدا فرمایا جمعہ کے دن آخرت وقت میں حضرت آدم کی تخلیق فرمائی اور شنبہ کے دن کوئی کام نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ یہود ہفتہ کو چھٹی کرتے ہیں۔ قولہ : سنقصد، سنفرغ لکم کی تفسیر سنقصد سے کر کے اشارہ کردیا کہ فراغت سے مراد توجہ اور قصد کرنا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسی مصروفیت نہیں ہوتی کہ دیگر امور میں مشغولیت سے مانع ہو، اس قسم کی مشغولیت مخلوق کا خاصہ ہے۔ قولہ : ثقلان جن و انس کو ثقلان اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حیاۃ و مماۃ زمین پر ثقل ہوتے ہیں۔ قولہ : فانفذوا امر تعجیز کے لئے ہے یعنی اگر تم ہماری حدود سلطنت سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فاتوا بسورۃ من مثلہ قولہ : کالدھان کانت کی خبر ثانی بھی ہوسکتی ہے اور وردۃ کی صفت بھی نیز کانت کے اسم سے حال بھی، دھان دھن کی جمع بھی ہوسکتی ہے، جیسے رمح و رماح اس صورت میں د ھان تلچھت کے معنی میں ہوگا جیسا کہ دوسری آیت میں آسمان کو تلچھٹ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کما قال اللہ تعالیٰ یوم تکون السماء کالمھل اور مھل تیل کی تلچھٹ کو کہتے ہیں، دوسری صورت یہ ہے کہ دھان اسم مفرد ہو جیسا کہ زمخشری نے کہا ہے کہ دھان اسم لما یدھن بہ قولہ : والجان ھھنا وفیما سیاتی بمعنی الجنی والانس فیھما بمعنی الانسی اس پوری عبارت کے اضافہ سے مفسر علام کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے۔ سوال :۔ یہ ہے کہ جان اور انس یہ دونوں اسم جنس ہیں اور سوال جنس سے نہیں بلکہ افردا جنس سے ہوتا ہے۔ جواب :۔ اسی سوال کا جواب دینے کے لئے مفسر علام نے فرمایا جان، جنی کے اور انس، انسی کے معنی میں ہے اور یہ دونوں جنس کے افراد میں سے ہیں، یہ دونوں ان الفاظ میں سے ہیں کہ جن کی جنس اور فرد میں امتیاز یاء کے اضافہ سے ہوتا ہے، جیسے زنج اور زنجی میں ہے۔ قولہ : زرقۃ العیون نیلگوں آنکھیں، اس کو گربہ چشم بھی کہتے ہیں، اس کو کرنجی آنکھیں بھی کہتے ہیں۔ قولہ : آن یہ انی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے کھولتا ہوا پانی تفسیر و تشریح کل من علیھا فان علیھا کی ضمیر کا مرجع، ارض ہے جس کا ذکر والارض و ضعھا للانام ماقبل میں گذر چکا ہے، اس کے علاوہ الارض ان عام اشیاء میں سے ہے جن کی طرف ضمیر راجع کرنے کے لئے پہلے، مرجع کا ذکر لازم نہیں، مطلب یہ ہے کہ جو جنات اور انسان زمین پر ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، اس میں جن و انس کے ذکر کی تخصیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس سورت میں مخاطب یہی دونوں ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آسمان اور آسمان والی مخلوقات فانی نہیں ہیں، کیونکہ دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے عام لفظوں میں پوری مخلوقات کا فانی ہونا بھی واضح فرما دیا ہے کل شیء ھالک الا وجھہ مذکورہ دوسری آیت سے لیکر آیت 30 تک اللہ تعالیٰ نے دو حقیقتوں کو بیان فرمایا ہے۔ ایک یہ کہ نہ تو تم خود لافانی ہو اور نہ وہ سروسامان لازوال ہے جس سے تم اس دنیا میں متمتع ہو رہے ہو، لازوال اور لافانی تو صرف اس خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے جس کی عظمت پر یہ کائنات گواہی دے رہی ہے اور جس کے کرم سے تم کو یہ کچھ نعمتیں نصیب ہوئی ہیں، اب اگر تم میں سے کوئی شخص گھمنڈوغرور میں مبتلا ہو کر ” ہم چومن دیگرے نیست ‘ کا نعرہ بلند کرتا ہے تو یہ محض اس کی بےوقفی اور کم ظرفی ہے، اپنے ذرا سے دائرہ اختیار میں کوئی بیوقوف کبریائی کے ڈنکے بجا لے، چند بندے جو اس کے گرج مع ہوجائیں، ان کا بزعم خویش خدا بن بیٹھے تو یہ دھوکے کی ٹٹی کتنی دیر کھڑی رہ سکتی ہے، کائنات کی وسعتوں میں جس زمین کی حیثیت ایک رائی کے دانے کے برابر نہیں ہے، اس کے ایک کونے میں دس بیس سال یا سو پچاس سال جو خدائی اور کبریائی چلے اور قصہ پارینہ اور داساتن ماضی بن جائے وہ آخر کیا خدائی ؟ اور کیا کبریائی ہے ؟ جس پر پھولے نہ سمائے۔ دوسری اہم حقیقت جس پر ان دونوں مخلوقوں کو متنبہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا دوسری جن ہستیوں کو بھی تم معبود و مشکل کشا اور حاجت روا بنائے ہوئے ہو خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء و اولیاء یا چاند اور سورج یا دیوی دیوتا یا اور کسی قسم کی مخلوق، ان میں سے کوئی متہاری حاجت کو پورا نہیں کرسکتا، وہ بےچارے تو خود اپنی ضروریات اور حاجات کے لئے اللہ کے محتاج ہیں، ان کے ہاتھ تو خود اس کے آگے پھیلے ہوئے ہیں وہ خود اپنی حاجت روائی نہیں کرسکتے تو تمہاری مشکل کشائی کیا خاک کریں گے، اس ناپیدا کنار کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، تنہا ایک خدا کے حکم سے ہو رہا ہے، اس کی کارفرمائی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے۔
Top