Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Hadid : 11
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ
مَنْ ذَا الَّذِيْ
: کون ہے جو
يُقْرِضُ اللّٰهَ
: قرض دے گا اللہ کو
قَرْضًا حَسَنًا
: قرض حسنہ
فَيُضٰعِفَهٗ
: پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو
لَهٗ
: اس کے لیے
وَلَهٗٓ اَجْرٌ
: اور اس کے لیے اجر ہے
كَرِيْمٌ
: عزت والا
کون ہے جو خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دے ؟ تو وہ اس کو اس سے دگنا ادا کرے اور اس کے لئے عزت کا صلہ (یعنی) جنت ہے
ترجمہ :۔ کون شخص ہے کہ جو اپنا مال اللہ کو قرض حسن کے طور پردے یعنی اللہ کے راستہ میں خرچ کرے ؟ اس طریقہ پر کہ (خالص) اللہ کے سوا خرچ کرے پھر اللہ تعالیٰ اس قرض کو اس شخص کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور ایک قرأت میں فیضعفۃ تشدید کے ساتھ ہے دس گنے سے سات سو گنے تک زیادہ جیسا کہ سورة بقرہ میں مذکور ہو، اور اس کے لئے (اجر) بڑھانے کے ساتھ پسندیدگی کا اجر بھی ہے (یعنی) اس اجر کے ساتھ رضا مندی اور قبولیت ہے، اس دن کا ذکر کیجیے کہ جس دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا اجر ان کے سامنے ہے اور نو ران کے داہنی جانب دوڑتا ہوگا اور ان سے کہا جائے گا آج تمہارے لئے ایسی جنت کی یعنی اس میں داخل ہونے کی خوشخبری ہے کہ جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے، جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے (ذرا) ہماری طرف (بھی) دیکھ لو اور ایک قرأت میں ہمزہ کے فتحہ اور ظاء کے کسرہ کے ساتھ ہے (یعنی ذرا ہمارا بھی) انتظا کرلو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ان سے استہزاء کے طور پر کہا گیا جائے گا تم اپنے پیچھے لوٹ جائو اور روشنی تلاش کرو تو وہ لوٹ جائیں گے، تو ان کے اور مومنین کے درمیان ا کی حائل کردی جائے گی کہا گیا ہے کہ وہ اعراف کی دیوار ہوگی اس کا ایک دروازہ ہوگا اس کے اندرونی حصہ میں مومنین کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر منافقین کی جانب عذاب ہوگا۔ لوگ چلا کر ان سے کہیں گے کیا طاعت میں ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ وہ کہیں گے ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے خود کو نفاق کے فتنہ میں پھنسا رکھا تھا اور مومنین پر حوادثات کے منتظر رہا کرتے تھے اور دین اسلام میں شبہ کرتے تھے اور تمہیں تمہاری (فضول) تمنائوں نے دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم یعنی موت آپہنچی، اور تمہیں اللہ کے بارے میں ایک دھوکہ باز شیطان نے دھوکے ہی میں رکھا، الغرض ! آج تم سے نہ فدیہ قبول کیا جائے گا یاء اور تاء کے ساتھ اور نہ کافروں سے، تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہی تمہارے لائق ہے (یعنی) تمہارے لئے اولیٰ ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے کیا ایمان والوں کے لئے اب تک وہ وقت نہیں آیا ؟ یہ آیت صحابہ کرام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی کہ جب وہ مذاق، دل لگی زیادہ کرنے لگے کہ ان کے قلوب ذکر الٰہی سے اور اس حق یعنی قرآن سے نرم ہوجائیں جو نازل ہوچکا ہے (نزل) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے ان لوگوں کے مانند کہ جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی اور وہ یہود و نصاریٰ ہیں پھر جب ان پر ایک طویل زمانہ گذر گیا یعنی ان کے اور ان کے انبیاء کے درمیان (زمانہ دراز گذر گیا) تو ان کے قلوب سخت ہوگئے اللہ کے ذکر کے لئے نرم نہ رہے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں یقین مانو مومنین مذکورین کو خطاب ہے کہ اللہ ہی زمین کو گھاس اگا کر اس کی موت کے بعد اس کو زندہ کردیتا ہے چناچہ تمہارے قلوب کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا ان کو خشوع کی جانب لوٹا کر ہم نے تمہارے لئے اپنی آیتیں بیان کردیں جو ہر طریقہ سے ہماری قدرت پر دلالت کرتی ہیں تاکہ تم سمجھو، بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد یہ تصدق سے ماخوذ ہے تاء کو صاد میں ادغام کردیا گیا ہے یعنی وہ لوگ جنہوں نے صدقہ کیا اور وہ عوریں جنہوں نے صدقہ کیا اور ایک قرأت میں صاد کی تخفیف کے ساتھ ہے، تصدیق سے ماخوذ ہے، اور مراد ایمان ہے اور جو خلوص کے ساتھ قرض حسن دے رہے ہیں یہ تغلیبا ذکور اور اناث دونوں کی طرف راجع ہے اور فعل کا عطف اس اسم پر ہے جو الف لام کے صلہ میں ہے اس لئے (جائز ہے) کہ اسم یہاں فعل کے معنی میں واقع ہو، تصدیق کے ذکر کے بعد قرض کو اس کی صفت کے ساتھ ذکر کرنا تصدق کو مقید کرانے کے لئے ہے ان کا قرض ان کے لئے بڑھا دیا جائے گا اور ایک قرأت میں یضعف تشدید کے ساتھ ہے اور ان کے لئے پسندیدہ اجر ہے اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ایسے ہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق یعنی تصدیق میں مبالغہ کرنے والے ہیں اور تکذیب کرنے والی امم سابقہ پر گواہ ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری وحدانیت پر دلالت کرنے والی آیتوں کو جھٹلایا ان کے لئے جہنم کی آگ ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسناً اس میں ترکیب کے اعتبار سے چند صورتیں ہیں (1) من استفہامیہ مبتداء ذا اس کی خبر، اور الذی یقرض اللہ اس سے بدل یا صفت (2) من ذا مبتداء اور الذی اس کی خبر (3) ذا مبتداء موصوف اور الذی یقرض اللہ موصول صلہ سے مل کر صفت اور من خبر مقدم، اس میں معنی استفہام ہونے کی وجہ سے مقدم کردیا۔ قولہ : یضاعفہ فاء کے بعد ان مقدرہ کے ذریعہ جواب استفہام ہونے کی وجہ سے منصوب، استیناف یا یقرض پر عطف ہونے کی وجہ سے مرفوع۔ قولہ : رضا واقبال معطوف علیہ معطوف سے مل کر مقترک کا فاعل۔ قولہ : اذکر مفسر علام نے اذکر محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یوم فعل محذوف کا ظرف ہے، یعنی اس دن کو یاد کرو الخ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اجر کریم کا ظرف ہو یعنی اس دن میں اجر کریم ہے اور تیسری صورت یہ بھی جائز ہے کہ یسعیٰ کا ظرف ہو یعنی تو دیکھے گا کہ مومنین و مومنات کا نور اس دن میں ان کے سامنے دوڑے گا۔ قولہ : یسعی نورھم جملہ حالیہ ہے مگر یہ اس صورت میں ہے کہ یسعی کو یوم میں عامل نہ قرار دیا جائے۔ قولہ : ویکون، یکون کو مقدر مان کر اس احتمال کو ختم کردیا کہ وبآیمانھم، یسعی کے ماتحت ہو اور معنی یہ ہوں کہ نور ان کی داہنی جانب ان سے دور ہوگا، اس لئے کہ ایمان سے جمیع جہات مراد ہیں۔ قولہ : دخولھا اس کو محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ جنت حذف مضاف کے ساتھ ہے بشرکم مبتداء کی خبر ہے تقدیر عبارت یہ ہے بشکرکم الیوم بدخول الجنۃ قولہ : ذلک ای دخول الجنۃ قولہ : یوم یقول المنافقون یہ یوم تری سے بدل ہے۔ قولہ : لہ باب باطنہ فیہ الرحمۃ لہ باب جملہ ہو کر نور کی صفت اول ہے اور باطنہ فیہ الرحمۃ صفت ثانی ہے۔ قولہ : الغرور بالفتح بمعنی شیطان کما قال المفسر و بالضم شذوذا مصدر بمعنی اغتراء بالباطل قولہ : ماوا کم النار ماواکم خبر مقدم النار مبتداء مئوخر اس کا عکس بھی جائز ہے۔ قولہ : ھی مولاکم، مولان مصدر بھی ہوسکتا ہے ای ولایتکم ای ذات ولایتکم یا بمعنی مکان ہو ای مکان ولایتکم یا بمعنی اولی ہوسکتا ہے جیسا کہ ھو مولاہ ای اولیھی ناصر کم وہ آگ ان کی ناصر و مددگار ہے اور یہ استھزاء ہے قولہ : الم یان للذین امنوا جمہور کے نزدیک یان سکون ہمزہ اور نون کے کسرہ کے ساتھ انی یانی (رمی یرمیض کا مضارع واحد مذکر غائب ہے، پھر یاء کو جو کہ عین کلمہ ہے التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا۔ قولہ : راجع الی الذکور ولاناث اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اسبات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ واقرضوا اللہ کا عطف دونوں فعلوں یعنی المصدقین و المصدقات پر ہے صرف اول پر ماننے کی صورت میں صلہ کے تام ہوئے بغیر عطف لازم آئے گا جو کہ جائز نہیں ہے۔ سوال : اقرضوا اللہ کا عطف المصدقین پر ہے، جو کہ اسم ہے، لہٰذا فعل کا عطف اسم پر لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جواب : جس اسم پر الف لام بمعنی الذی داخل ہو تو وہ اسم بھی فعل کے حکم میں ہوجاتا ہے لہٰذا عطف درست ہے۔ قولہ : وذکر القرض بوصفہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے۔ اعتراض : المصدقین تشدید کے ساتھ بمعنی صدقہ دینے والے ہے، پھر اس کے بعد فرمایا واقرضوا اللہ قرضاً حسناً اس کا مطلب بھی صدقہ کرنا ہے تو المصدقین کے ذکر کرنے کے بعد واقرضوا اللہ قرضاً حسناً کے ذکر کی کیا ضرورت رہتی ہے تو تکرار ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس اضافہ کا مقصد صدقہ کو صفت حسن کے ساتھ متصف کرنا ہے یعنی صدقہ اخلاص اور للھیت کے ساتھ دیا جائے، لہٰذا یہ تکرار بےفائدہ نہیں۔ قولہ : والذین امنوا باللہ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون، والذین آمنوا مبتداء، اولئک مبتداء ثانی اور ھم میں یہ بھی جائز ہے کہ مبتداء ثالث ہو اور الصدیقون اس کی خبر مبتداء خبر سے مل کر خبر مبتداء ثانی کی اور مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر خبر ہوئی مبتداء اول کی اور یہ بھی جائز ہے کہ ھم ضمیر فصل ہو اور اولئک اور اس کی خبر مل کر مبتداء اول کی خبر ہو۔ تفسیر و تشریح من ذا الذی یقرض اللہ قرضاً حسناً الخ یہ وہ عجیب و غریب، پر تاثیر، درد انگیز الفاظ ہیں کہ جو کفر کے مقابل ہمیں اسلام کی جانی اور مالی نصرت کی اپیل کے لئے استعمال کئے گئے ہیں، خدا کی یہ شان کریمی ہی تو ہے کہ آدمی اگر اس کے عطا کئے ہوئے مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دے بشرطیکہ وہ قرض حسن ہو لوجہ اللہ خلوص نیت کے ساتھ ہو، اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ایک یہ کہ وہ اس کو کئی گنا بڑھا کر واپس کر دے گا دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا کرے گا۔ انفاق فی سبیل اللہ کا عجیب واقعہ : حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے لوگوں نے اسے سنا تو حضرت ابوالحداح انصاری ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضور نے فرمایا ہاں ! اے ابو الحد اح ! انہوں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ دکھایئے، آپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا، انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض دیدیا، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے، اسی میں ان کا گھر تھا وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے، رسول اللہ ﷺ سے یہ بات کر کے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکار کر کہا دحداح کی ماں باہر نکل آئو میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دیدیا ہے، وہ بولیں تم نے نفع کا سودا کیا، دحداح کے باپ ! اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں (ابن ابی حاتم) اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا ؟ اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنیکا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا۔ یوم تری المومنین والمومنت (الآیۃ) ” اس دن “ سے مراد قیامت کا دن ہے اور یہ نور عطا ہونے کا معاملہ پل صراط پر چلنے سے کچھ پہلے پیش آئے گا، میدان حشر سے جس وقت پل صراط پر جائیں گے، کھلے کافر تو پل صراط تک پہنچنے سیے پہلے ہی جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے، البتہ کسی بھی نبی کے سچے یا کچے امتیوں کو پل صراط پر چلنے سے پہلے روشنی عطا کی جائے گی، وہاں روشنی جو کچھ بھی ہوگی صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہوگی، ایمان کی صداقت اور کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہوجائے گی، جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہوگا اس کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہوگی اور جب وہ محشر سے جنت کی طرف چلیں گے تو ان کی روشنی ان کے سامنے اور داہنی جانب ہوگی، اس کی بہترین تشریح قتادہ ؓ کی ایک مرسل روایت میں ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی کا نور اتنا تیز ہوگا کہ جتنی مدینہ سے عدن تک کی مسافت ہے اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء کی مسافت کی مقدار ہوگا اور کسی کا اس سے کم یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔ (ابن جریر ملخصاً ) حضرت ابوامامہ باہلی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ظلمت شدیدہ کے وقت مومنین اور مومنات کو نور تقسیم کیا جائے گا تو منافقین اس سے بالکل محروم رہیں گے۔ مگر طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک مرفوع روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” پل صراط کے پاس اللہ تعالیٰ ہر مومن و منافق کو نور عطا کرے گا جب یہ پل صراط پر پہنچ جائیں گے تو منافقین کا نور سلب کرلیا جائے گا۔ “ بہرحال خواہ ابتداء ہی سے منافقین کو نور نہ ملا ہو یا مل کر بجھ گیا ہو، اس وقت مومنین سے درخواست کریں گے کہ ذرا ٹھہرو ہم بھی تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھا لیں، کیونکہ ہم دنیا میں بھی نماز، زکوۃ، حج، جہاد سب چیزوں میں تمہارے شریک رہا کرتے تھے، تو ان کو ان درخواست کا جواب نامنظوری کی شکل میں دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا کہ روشنی پیچھے تلاش کرو پیچھے تقسیم ہو رہی ہے، وہ لوگ روشنی حاصل کرنے کے لئے پیچھے کی طرف پلٹیں گے تو انکے اور جنتیوں کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی۔ سوال : حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوامامہ باہلی کی روایتوں میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ان میں تطبیق کی کیا صورت ہے ؟ جواب :۔ تفسیر مظہری میں دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اصل منافقین جو کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تھے ان کو تو شروع ہی سے کافر کی طرح کوئی نور نہ ملے گا، مگر وہ منافقین جو اس امت میں رسول اللہ ﷺ کے بعد ہوں گے جن کو منافق کا نام تو نہیں دیا جاسکتا اس لئے کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے لہٰذا کسی کے لئے قطعی طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے، ہاں البتہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال سے واقف ہے سے معلوم ہے کہ کون منافق ہے اور کون مومن ؟ لہٰذا سلب نور کا یہ معاملہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہوگا جو اللہ تعالیٰ ک علم میں منافق ہوں گے۔ (ملخصاً )
Top