Tafseer-e-Jalalain - Al-Hashr : 15
كَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۚ
كَمَثَلِ : حال جیسا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے قبل قَرِيْبًا : قریبی زمانہ ذَاقُوْا : انہوں نے چکھ لیا وَبَالَ اَمْرِهِمْ ۚ : اپنے کام کا وبال وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے کاموں کی سزا کا مزا چکھ چکے ہیں اور (ابھی) ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب تیار ہے
کمثل الذین من قبلھم قریباً (الآیۃ) یہ بنو نضیر کی مثال کا بیان ہے اور الذین من قبلھم کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمتہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار اہل بدر مراد ہیں اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یہود کا قبیلہ بنو قینقاع مراد ہے دونوں کا انجام بد قریبی زمانہ میں واضح ہوچکا تھا، کیونکہ بنو نضیر کی جلاوطنی کا واقعہ غزوہ بدر واحد کے بعد واقع ہوا ہے اور بنو قینقاع کا واقعہ بھی واقعہ بدر کے بعد پیش آیا تھا۔ غزوہ بنی قینقاع : غزوہ بنی قینقاع 15 شوال بروز شنبہ 2 ھ میں واقع ہوا، بنی قینقاع عبداللہ بن سلام کی برادری کے لوگ تھے جو کہ نہایت شجاع اور بہادر تھے، زرگری کا کام کرتے تھے مدینہ کے جوہری بازار پر ان کا قبضہ تھا، مسلمان مردوں اور عورتوں کی بھی بازار میں آمد و رفت تھی، آپ ﷺ نے بنی نضیر اور بنی قریظہ کے ساتھ بنی قینقاع سے بھی معاہدہ فرمایا تھا، سب سے پہلے بنی قینقاع نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں آپ ﷺ نے باقاعدہ ان سے معاہدہ فسخ کرنے کا اعلان فرما دیا، اسی دوران بنو قینقاع کے ایک یہودی نے ایک مسلمان عورت کو چھیڑا اور اس کو برسر بازار برہنہ کردیا جس کی وجہ سے مسلمانوں اور یہود میں تکرار شروع ہوگئی اور یہ تو تو میں میں بڑھ جانے کی وجہ قیتل و قتال کی نوبت آگئی، جس میں ایک مسلمان اور ایک یہودی مارا گیا، اسی دوران آپ ﷺ ان کے بازار میں تشریف لے گئے اور سب کو جمع کر کے وعظ و نصیحت فرمائی، آپ نے فرمایا : ” اے گروہ یہود اللہ سے ڈرو جیسے بدر میں قریش پر خدا کا عذاب نازل ہوا کہیں اسی طرح تمہارے اوپر بھی نازل نہ ہوجائے، اسلام لے آئو اس لئے کہ تم یقینی طور پر خوب پہچانتے ہو کہ میں بالیقین اللہ کا نبی ہوں جس کو تم اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہو اور اللہ نے تم سے اس کا عہد لیا ہے۔ “ یہودیہ سنتے ہی مشتعل ہوگئے اور یہ جواب دیا کہ آپ اس غرہ میں ہرگز نہ رہنا جس کی وجہ سے ایک ناواقف اور نا تجربہ کار قوم یعنی قریش سے مقابلہ میں آپ غالب آگئے، واللہ اگر ہم سے مقابلہ ہوا تو خوب معلوم ہوجائے گا کہ ہم مرد ہیں، اس پر حق جل شانہ نے یہ آیت نازل فرمائی قد کان لکم آیۃ فیی فئتین التقتاً (الآیۃ) بنو قینقاع مضافات مدینہ میں رہتے تھے، آپ ﷺ نے بنی قینقاع کا محاصرہ فرمایا بنو قینقاع قلعہ بند ہوگئے یہ محاصرہ پندرہ شوال سے لیکر ذی قعدہ کی ابتدائی تاریخوں تک جاری رہا، بالآخر مجبور ہو کر سولہویں روز یہ قلوگ قلعے سے اتر آئے، آپ ﷺ نے ان کی مشکیں باندھنے کا حکم فرمایا ہے۔ راس المنافقین عبداللہ بن ابی کی الحاج وزاری اور بےحد اصرار کی وجہ سے قتل سے تو درگزر فرمایا مگر ان کو جلا وطن کر دا گیا اور ان کا تمام مال بطور مال غنیمت لیکر مدینہ واپس تشریف لائے اس مال میں سے ایک خمس خود لیا اور بقیہ چار خمس غانمین پر تقسیم فرما دیئے۔ (سیرت مصطفیٰ ملخصاً )
Top