Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 155
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ
وَھٰذَا : اور یہ كِتٰب : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس کی پیروی کرو وَاتَّقُوْا : اور پرہیزگاری اختیار کرو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے تم پر
اور (اے کفر کرنے والو) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی۔ تو اس کی پیروی کرو اور (خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے
آیت نمبر 155 تا 165 ترجمہ : اور یہ قرآن ایک بڑی خیر و برکت والی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اے مکہ والو ! جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرکے اس کی اتباع کرو، اور کفر سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اس کو نازل کیا تاکہ تم یہ نہ کہو سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے وہ فرقوں یہود و نصاریٰ پر نازل کی گئی تھی اور ہم ان کو پڑھنے پڑھانے سے ناواقف تھے ہماری زبان میں ان کتابوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ان کی معرفت حاصل نہ تھی (اِنْ ) مخففہ ہے اس کا اسم محذوف ہے ای اِنّا، یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم اپنی تیزی ذہانت کی وجہ سے زیادہ راہ راست پر ہوتے، سو اب تمہارے پاس رب کی جانب سے اس شخص کے لئے جو اس کی اتباع کرلے ایک (واضح) بیان اور ہدایت اور رحمت آچکی ہے، اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جس نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ؟ اور ان سے اعراض کیا، کوئی نہیں، ہم جلدی ہی ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے اعراض کرتے ہیں بدترین یعنی سخت ترین عذاب دیں گے ان کے اعراض کرنے کی وجہ سے ان جھٹلانے والوں کو صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس ان کی روحیں قبض کرنے کیلئے فرشتے آجائیں، (تاتیھم) یاء اور تاء کے ساتھ، یا اس کے پاس تیرا رب آجائے یعنی اس کا حکم بشکل عذاب آجائے یا آپ کے رب کی کوئی نشانی آجائے، جس دن آپ کے رب کی کوئی نشانی آجائے گی اور وہ مغرب کی جانب سے سورج کا نکلنا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے، کسی شخص کو کسی ایسے شخص کا ایمان کام نہ آیئگا جو پہلے (دنیا میں) ایمان نہ لایا ہوگا (جملہ لم تکن) نفساً کی صفت ہے یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو یعنی اس کی توبہ اس کے کوئی کام نہ آئے گی ؛ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے، ان سے کہہ دو ان اشیاء میں سے کسی ایک کا انتظار کرو، ہم بھی اس کے منتظر ہیں بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو اس میں اختلاف کرکے جدا جدا کرلیا بایں طور کر بعض کو لیا اور بعض کو ترک کردیا، اور اس میں گروہ گروہ ہوگے، اور ایک قراءت میں فارقوا ہے یعنی اپنے اس دین کو ترک کردیا جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اور وہ یہود و نصاریٰ ہیں، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا آپ ان سے تعرض نہ کریں (بس) ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے وہ دیکھ لے گا، پھر ان کو آخرت میں ان کے سب کرتوت بتادے گا کہ ان کو ان کے اعمال کی سزا دے گا یہ حکم آیت سیف (یعنی) حکم جہاد سے منسوخ ہے، جو شخص نیک کام کرے گا یعنی لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کرے گا تو اس کو دس گنا یعنی دس نیکیوں کے برابر اجر ملے گا اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائیگا یعنی ان کے اجر میں کچھ بھی کم نہ کیا جائیگا، آپ کہہ دیجئے کہ مجھے میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتادیا ہے بالکل ٹھیک دین اور دیناً قیماً (صراط) کے محل سے بدل ہے، جو ابراہیم (علیہ السلام) کا راستہ ہے جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کو نیوالوں میں نہی تھے، کہہ دو میری نماز اور میرے تمام مراسم عبادت حج وغیرہ اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے، اس میں جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی توحید کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اس امت میں سب سے پہلا ماننے والا ہوں آپ کہہ دیجئے کیا اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنانے کیلئے تلاش کروں یعنی اس کے غیر کو تلاش نہ کروں گا، حالانکہ وہ ہر شئ کا مالک ہے ہر شخص جو بھی بدی کرتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، اور کوئی گنہگار نفس کسی دوسرے نفس کا بوجھ نہ اٹھائیگا پھر تم سب کو تمہارے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو اس چیز کی حقیقت بتلا دے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں ایک دوسرے کا خلیفہ بنایا خلائف، خلیفہ کی جمع ہے اور ایک کو دوسرے پر مال و جاہ وغیرہ کے درجات میں فوقیت دی تاکہ تم کو عطا کردہ چیزوں میں آزمائے تاکہ فرمانبردار کر نافرمان سے ممتاز کرے یقیناً تیرا رب اپنی نافرمانی کرنے والوں کو بہت جلد سزا دینے والا ہے اور یقیناً وہ مومنین کی مغفرت کرنے والا ان پر رحم کرنے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : لِاَنْ لاَ تَقُوْلُوْا، لام اور لامقدر ماننے کا مقصد ایک سوال کا مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اَنْ تَقُوْلُوْا، انزلناہ کا مفعول لہ واقع ہونا معنی درست نہیں ہے بلکہ عدم قول مفعول لہ ہے اسی سوال کے جواب کیلئے مفسر علام نے لام جارہ محذوف مان کر انزلناہ کی علت کے بیان کی جانب اشارہ کردیا اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ ان مصدریہ ہے یہی وجہ ہے کہ تقولوا سے نون حذف ہوگیا، کسائی اور فراء نے کہا ہے کہ ان تقولوا کی اصل لِان لا تقولوا ہے، حرف جار اور حرف نفی کو حذف کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول یُبَیْنُ اللہ لکم اَن تضلوا، اس کی اصل لِئلا تضلوا تھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قول ” رَوَاسِی اَنْ تَمِیْدَ بکم کی اصل لِئلا تمیدَبکم تھی، شارح علیہ الرحمۃ نے اسی توجیہ کو اختیار فرمایا ہے اور بصریین نے حذف مضاف کی توجیہ اختیار کی ہے تقدیر عبارت یہ ہے انزلناہ کراھیۃَ اَنْ تقولوا بصریین کہتے ہیں کہ ’ لا ‘ کا حذف جائز نہیں ہے اسلئے کہ جئت اَنْ اکرمَکَ کہنا درست نہیں ہے بمعنی ان لا اکرمک۔ قولہ : او تقولوا اس کا عطف سابق اَنْ تقولوا پر ہے لہٰذا یہاں بھی لام اور لا مقدر ہوں گے۔ قولہ : اَلْجُمْلَۃُ صِفَۃُ نفساً ، اس میں اشارہ ہے کہ جملہ لم تکن آمنتْ لکم من قبل، نفساً کی صفت ہے نہ کہ ایمان کی جیسا کہ قرب سے بظاہر شبہ ہوتا ہے، اسلئے کہ ایمان کیلئے ایمان لازم آئیگا جو کہ محال ہے۔ (ترویح الارواح) قولہ : اونَفْسًا لَمْ تَکُنْ ، اس میں اشارہ ہے کہ او کَسَبَتْ کا عطف آمَنَتْ پر ہے نہ کہ ایمانُھَا پر ہے۔ قولہ : ای لا تَنْفَعُھَا تَوْبَتُھا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ آیت معتزلہ کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہے اسلئے کہ ان کے نزدیک ایمان مجرد عن الاعمال الصالحہ نافع نہ ہوگا۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ آیت لف تقدیری کے قبیل سے ہے، ای لا ینفع نفساً ایمانُھا ولا کَسبُھَا فی الایمان لم تکن آمنت من قبل او کسبت فیہ خیرًا۔ قولہ : جَزَاءُ عَشَرِ حَسَنَاتٍ اس عبارت میں مفسر علام نے فَلَہٗ عَشْرُ اَمثالھا “ میں عشر میں ترک تاء کی وجہ کی جانب اشارہ کیا ہے اسلئے کہ بظاہر عشرۃ امثالھا ہونا چاہیے اسلئے کہ مثل مذکر ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ امثال معنی مؤنث ہے۔ قولہ : ویُبْدَلُ مِِنْ مَحَلِّہٖ ، ھدانی کا مفعول اول ھدانی کی یاء ہے اور مفعول ثانی الی صراط مستقیم ہے اور دینًا قیماً ، صراط کے محل سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب ہے نہ کہ مفعول ثانی جیسا کہ بعض حضرات کو یہ مغالطہ لاحق ہوا ہے۔ قولہ : اعطاکم اس میں اشارہ ہے کہ آتاکم ایتاء سے ہے نہ کہ اتیان سے۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : وَھٰذَا کتابٌ۔۔۔۔ (الآیۃ) گذشتہ آیات میں مشرکین کی بد عقیدگی اور خود ساختہ حلال و حرام کی پوری شدت کے ساتھ تردید کی گئی تھی، اسی سلسلہ میں بالواسطہ طور پر نبوت و رسالت کا ذکر آگیا تھا، ان آیات میں سمجھایا جا رہا ہے کہ انسان کی رہبری اور دارین کی سعادت و کامرانی کے لئے نبوت کا تاج کسی نہ کسی انسان کے سر پر رکھا جانا ضروری ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، پہلے بہت سے انبیاء گذر چکے ہیں جو سب کے سب انسان ہی تھے جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت معروف و مشہور ہیں آخر میں جناب محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ہیں آخر ان کا انکار کس بناء پر کیا جاتا ہے ؟ آپ ﷺ کو جو کتاب ہدایت عطا کی گئی ہے وہ بڑی خیر و برکت والی ہے اور تمہاری زبان میں ہے لہٰذا اس کا اتباع کرکے رحمت خداوندی کے مستحق بنو، قرآن کے نزول کے بعد اب تمہارے پاس یہ عذر بھی باقی نہیں رہا کہ تم یہ کہہ سکو کہ کتابیں تو پہلے دو فرقوں یہود و نصاری پر نازل ہوئی تھیں وہ چونکہ ہماری زبان میں نہیں تھیں اسلئے ہمیں کیا معلوم کہ اس میں کیا تھا، تمہاری زبان میں کتاب نازل کرکے حجت پوری کردی گئی اب روز قیامت تمہارا کوئی عذر مسموع نہیں ہوگا، آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے اور رہبر اعظم کے آجانے کے بعد کیا اب ان لوگوں کو صرف ملائکہ موت ہی کا انتظار ہے خوب یاد رکھو موت کے وقت عالم غیب مشاہد ہوجانے کے بعد ایمان معتبر نہیں ہے۔
Top