Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے (رسول) اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَضَرَّعُوْنَ : تاکہ وہ عاجزی کریں
اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے (پھر انکی طرف نافرمانیوں کے سبب) ہم انھیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں۔
آیت نمبر 42 تا 50 ترجمہ : اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سی) قوموں کی طرف رسول بھیجے تھے مِن زائدہ ہے تو انہوں نے ان کی تکذیب کی، تو ہم نے ان کی تنگدستی اور بیماری میں پکڑا تاکہ وہ ڈھیلے پڑجائیں (یعنی) عاجزی کریں اور ایمان لے آئیں سو جب ان کو ہمارا عذاب پہنچا تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہ کی ؟ یعنی انہوں نے عاجزی اختیار نہیں کہ حالانکہ اس کا مقتضی موجود تھا، لیکن ان کے قلوب (مزید) سخت ہوگئے جس کی وجہ سے ایمان لانے کیلئے نرم نہیں پڑے اور شیطان ان کے برے اعمال کو ان کی نظر میں آراستہ کرکے پیش کرتا رہا اور وہ ان ہی اعمال پر مصر رہے پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو ان کو کی گئی تھی اور جس کے ذریعہ مصائب و آلام سے ڈرایا گیا تھا تو انہوں نے نصیحت حاصل نہ کی تو ہم نے ان کیلئے ڈھیل کے طور پر ہر قسم کی خوشحالی کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ بخششوں میں اترانے کے طور پر مگن مست ہوگئے تو ہم نے ان کو عذاب میں اچانک پکڑ لیا (تو اب صورت حال یہ ہوئی) کہ وہ ہر خیر سے ناامید ہوگئے چناچہ اس ظالم قوم کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی (یعنی) ان کے آخری فرد کی بھی جڑ کاٹ دی گئی، بایں طور کہ ان کو بالکلیہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا اور رسولوں کی نصر اور کافروں کی ہلاکت پر تعریف اللہ رب العالمین ہی کیلئے ہے، (اے محمد) اہل مکہ سے کہو تم مجھے بتاؤ اگر اللہ تمہاری قوت و سماعت لے لے (یعنی) تم کو بہرہ کر دے اور تمہاری بینائی سلب کرلے بایں طور کہ تم کو اندھا کر دے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے کہ تم کچھ نہ سمجھ سکو، اللہ کے سوا تمہارے خیال میں کون معبود ہے کہ سلب کردہ تمہاری ان قوتوں کو واپس دلا دے ؟ دیکھو ہم اپنی وحدانیت پر کس طرح بار بار دلائل پیش کر رہے ہیں پھر (بھی) وہ اس سے اعراض کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لاتے، آپ ان سے پوچھو کہ کبھی تم نے سوچا کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک یا علانیہ رات میں یا دن میں آجائے تو ظالموں کافروں کے سوا کون ہلاک ہوگا یعنی کافروں کے سوا کوئی ہلاک نہ ہوگا، ہم رسول صرف اسی لئے بھیجتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کو جنت کی خوشخبری سنائیں اور کافروں کو جہنم سے ڈرائیں، سو جو ان پر ایمان لایا اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی ان کے لئے آخرت میں کسی خوف و رنج کا موقع نہیں اور جو ہماری آیتوں کو جھٹلائیں تو ان کو اپنے اعمال فاسقہ کی وجہ سے سزا بھگتنی ہی ہوگی، یعنی ان کے حد طاعت سے نکل جانے کی وجہ سے، (اے محمد) تم ان سے کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں جس میں سے وہ رزق دیتا ہے اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں یعنی جو مجھ سے غائب ہے اور حال یہ کہ میری طرف (اس کے بارے میں) وحی نہ بھیجی گئی ہو اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، پھر ان سے پوچھو کہ اندھا (یعنی) کافر، اور بینا (یعنی) مومن دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں، کیا تم اس میں غور نہیں کرتے ؟ کہ ایمان لے آؤ۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مِن زائدۃٌ، مِن قَبْلِکَ میں مِن زائد ہے، اس لئے کہ ظرف حرف جر کا متقاضی نہیں ہے۔ قولہ : رُسُلاً ، یہ اَرْسَلْنا کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : فَکَذَبُوْھُمْ ۔ سوال : فکذبوھم محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ جواب : تاکہ فاخذناھم، کی تفریح درست ہوجائے، تقدیر عبارت یہ ہوگی، ” وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا اَلی امم من قبلِکَ رُسُلاً فکذبوھم فاخذنٰھم “ ، ورنہ تو محض ارسال رسل پر مؤاخذہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قولہ : اخذہٗ منکم۔ سوال : اخذہٗ میں ضمیر کو واحد کس لئے لائے ہیں حالانکہ اس کا مرجع جمع ہے ؟ جواب : ماخوذ مذکور کی تاویل کی وجہ سے ضمیر واحد لائے ہیں۔ قولہ : بزعمکم، کا تعلق مَن الہٌ سے ہے، یعنی وہ اِلہٰ کہ جس کو تم الہٰ سمجھتے ہو۔ تفسیر و تشریح فَلَولاَ اِذْ جَاءَھم باسُنَا تضرعوا (الآیۃ) قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کا عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتا ہے پھر اسکے ہاتھ طلب مغفرت کیلئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے نہ ان کے دل اس بارگاہ میں جھکتے ہیں اور ان کے رخ اصلاح کی طرف مڑتے ہیں بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتے ہیں، اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے اس کے لئے خوبصورت بنادیا ہے۔
Top