Tafseer-e-Jalalain - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان لوگوں کی اس طرح آزمائش کی ہم جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی جب انہوں نے قمسیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
باغ والوں کا قصہ : انابلونھم کما بلونا اصحب الجنۃ (الآیہ) یہ باغ حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق یمن میں تھا اور حضرت سعید بن جبیر ؓ کی ایک روایت یہ ہے کہ صنعاء جو یمن کا مشہور شہر ہے اس سے چھ میل کے فاصلہ پر تھا، اور بعض حضرات نے اس کا محل وقوع حبشہ بتایا ہے۔ (اب کثیر) یہ لوگ اہل کتاب تھے اور یہ واقعہ رفع عیسیٰ علیہ والصلوٰۃ والسلام کے کچھ عرصہ بعد کا ہے، (معارف) دو باغ والوں کا اسی قسم کا ایک واقعہ تمثیل کے طور پر سورة کہف رکوع 5 میں بیان ہوا ہے۔ باغ والوں کا واقعہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے اس طرح منقول ہے کہ صنعاء یمن سے دو فرسخ کے فاصلہ پر ایک باغ تھا اس مقام کو صروان کہا جاتا تھا، یہ باغ ایک صالح نیک بندے کا تھا، اس کا عمل یہ تھا کہ جب درختوں سے پھل توڑتا تو پھل توڑنے کے دوران جو پھل نیچے گرجاتے وہ فقیروں اور مسکینوں کے لئے چھوڑ دیتا، اسی طرح کھیتی کاٹتے وقت جو خوشہ گر جاتا اور کھلیان میں جو دانہ بھوسے کے ساتھ چلا جاتا وہ بھی فقیروں کے لئے چھوڑ دیتا (یہی وجہ تھی کہ جب پھل توڑنے اور کھیتی کاٹنے کا وقت آتا تو بہت سے فقراء و مساکین جمع ہوجاتے تھے) اس مرد صالح کا انتقال ہوگیا اس کے تین بیٹے باغ اور زمین کے وارث ہوئے، انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہماری عیالداری بڑھ گئی ہے اور پیداوار ضرورت سے کم ہے اس لئے اب ان فقراء کے لئے اتنا غلہ اور پھل چھوڑنا ہمارے بس کی بات نہیں، ہمیں یہ سلسلہ بند کرنا چاہیے، آگے ان کا قصہ خود قرآن کریم حسب ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اذا قسموا لیصر منھا مصبحین ولا یستثنون یعنی انہوں نے قسم کے ساتھ یہ عہد کرلیا کہ اب کی مرتبہ ہم صبح سویرے ہی جا کر کھیتی کاٹ لیں گے، تاکہ فقراء و مساکین کو خبر نہ ہو اور ساتھ نہ لگ لیں، ان کو اپنے اس منصوبے پر اتنا یقین تھا کہ انشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی، بعض مفسرین نے ” لا یستثنون “ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ پورا کا پورا غلہ اور پھل گھر لے آئیں گے اور فقراء کا حصہ مستثنیٰ نہ کریں گے۔ (مظہری)
Top