Tafseer-e-Jalalain - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور تمہارے اخلاق بہت (عالی) ہیں
وانک لعلی خلق عظیم، خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ تو اس خلق پر ہیں کہ جس کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا ہے، یا اس سے مراد تہذیب و شائستگی نرمی و شفقت، امانت و صداقت، حلم و کرم اور دیگر اخلاقی خوبیاں ہیں، جن میں آپ ﷺ نبوت سے پہلے بھی ممتاز تھے اور نبوت کے بعد ان میں مزید اور وسعت آئی، اسی لئے جب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے آپ ﷺ کے خلق کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کان خلقہ القرآن (صحیح مسلم) بلند اخلاقی اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ کفار آپ ﷺ پر دیوانگی اور جنون کی جو تہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹی ہے کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو، اس کے برعکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے، رسول اللہ ﷺ کے اخلاق سے اہل مکہ ناواقف نہیں تھے، اس لئے ان کی طرف محض اشارہ کردینا ہی اس بات کے لئے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ وہ لوگ کس قدر بےشرم ہیں جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہیں، ان کی یہ بےہودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ دماغی توازن آپ ﷺ کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا خراب ہے جو مخالفت کے جوش میں پاگل ہو کر پاگلوں والی باتیں کرتے ہیں، یہی معاملہ ان مدعیان علم و تحقق کا بھی ہے جو اس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ پر مرگی اور جنون کی تہمت رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ کے اخلاق کے سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا یہ قول ” کان خلقہٗ القرآن “ قرآن آپ ﷺ کا اخلاق تھا، کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں فرمائی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھایا تھا، ایک اور روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی خادم کو نہیں مارا اور نہ کبھی عورت پر ہاتھ اٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ ﷺ نے کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی ہے، آپ ﷺ نے کبھی میری کسی بات پر اف تک نہ کی، کبھی میرے کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا ؟ اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا ؟ (بخاری مسلم)
Top