Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اسکے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا۔
واتل۔۔۔۔ منھا (الآیۃ) اس آیت میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا عبرت ناک واقعہ مذکور ہے، بنی اسرائیل کا ایک بڑا عالم اور مشہور مقتداء علم و معرفت کے اعلی معیار پر ہونے کے باوجود دفعۃً گمراہ ہوگیا۔ بلعم بن باعوراء کے واقعہ کی تفصیل : مذکورہ آیت میں نبی ﷺ کو حکم دیا گیا کہ تم یہود کو اس شخص کا قصہ سناؤ جس کو اللہ نے اپنی نشانیاں دی تھیں مگر وہ ان نشانیوں سے اس طرح نکل گیا جس طرح سانپ کینچلی سے نکل جاتا ہے ائمہ تفسیر سے اس بارے میں مختلف روایتیں مذکور ہیں جن میں زیادہ مشہور اور جمہور کے نزدیک قابل اعتماد وہ روایت ہے جو ابن مردویہ نے حضرت عباس ؓ سے نقل کی ہے اس روایت میں اس شخص کا نام بلعم بن باعوراء اور بعض نے بلعام بن باعرنام بتایا ہے، یہ ملک شام میں بیت المقدس کے قریب کنعان کا رہنے والا تھا، ایک روایت میں اس کو اسرائیلی بتایا گیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کی بعض کتابوں کا علم حاصل تھا قرآن کریم میں جو اس کی صفت بیان ہوئی ہے وہ ” الذی اتیناہ آیتِنَا “ ہے اس سے اسی علم کی طرف اشارہ ہے، غرق فرعون اور ترک مصر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو جبارین قوم عمالقہ سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور جبارین نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرئیل کا لشکر لے کر قریب پہنچ چکے ہیں، جبارین کو اس کی فکر ہوئی جمع ہو کر بلعم بن باعوارء کے پاس آئے اور کہا موسیٰ (علیہ السلام) سخت آدمی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بہت بڑا لشکر ہے وہ ہمارے ملک پر قبضہ کرنے اور ہم کو ہمارے ملک سے بےدخل کرنے کے لئے آئے ہیں آپ اللہ سے دعا کریں کہ ان کو ہمارے ملک سے واپس کردے، بلعم بن باعوراء کو اسم اعظیم معلوم تھا وہ اس کے ذریعہ جو دعاء کرتا وہ قبول ہوتی تھی۔ بلعم نے اول تو معذرت کی اور کہا وہ اللہ کے نبی ہیں ان کے ساتھ فرشتوں کا لشکر ہے میں ان کے خلاف بددعاء کیسے کرسکتا ہوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میرا دین اور دنیا دونوں برباد ہوجائیں گی، مگر قوم نے بےحد اصرار کیا تو بلعم نے کہا اچھا تو میں اس معاملہ میں استخارہ کرکے اپنے رب کی مرضی معلوم کرلوں اس نے استخارہ کیا استخارہ میں معلوم ہوا کہ ایسا ہرگز نہ کرنا، اس نے قوم سے کہا مجھے بددعاء کرنے سے منع کردیا گیا ہے، اس وقت جبارین نے ایک بہت بڑا تحفہ بلعم کو پیش کیا اس نے قبول کرلیا اس کے بعد جبارین کا اصرار بہت زیادہ بڑھ گیا، بعض روایات میں ہے کہ اس کی بیوی نے مشورہ دیا کہ رشوت قبول کرلیں اور ان کا کام کردیں، بیوی کی رضا جوئی اور مال کی محبت نے اسکو اندھا کردیا، اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے لئے بددعاء کرنی شروع کردی قدرت الہٰیہ کا عجیب کرشمہ : اس وقت قدرت الہٰیہ کا عجیب کرشمہ ظاہر ہوا وہ کلمات بددعاء جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لئے کہنا چاہتا تھا اس کی زبان سے وہ الفاظ بددعاء قوم جبارین کے لئے نکلے، جبارین چلا اٹھے کہ تم تو ہمارے لئے بددعاء کررہے ہو، بلعم نے جواب دیا یہ میرے اختیار میں نہیں ہے میری زبان اس کے خلاف پر قادر نہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم پر تباہی آئی اور بلعم کو یہ سزاملی کہ اس کی زبان لٹک کر سینے پر آگئی، اب اس نے جبارین سے کہا میری تو دنیا و آخرت تباہ ہوگئی اب میری دعاء کی قبولیت سلب کرلی گئی، لیکن میں تمہیں ایک تدبیر بتاتا ہوں جس کے ذریعہ تم موسیٰ اور اس کی قوم پر غالب آسکتے ہو، وہ یہ کہ تم اپنی حسین لڑکیوں کو آراستہ کرکے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان کو تاکید کردو کہ بنی اسرائیل میں کوئی بھی ان کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہیے منع نہ کریں، بلعم بن باعوراء کی یہ شیطانی چال ان کی سمجھ میں آگئی، اور اس پر عمل کیا گیا، بنی اسرائیل کا ایک بڑا شخص جس کا نام شمعون بن یعقوب بتایا گیا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کا سپہ سالار بھی تھا اسے ایک عورت بہت پسند آئی وہ اسے لیکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میرا خیال یہ ہے کہ آپ اس عورت کو حرام سمجھیں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ مجھ پر بھی حرام ہے اور تجھ پر بھی، اس نے یہ بات سنتے ہی قسم کھا کر کہا کہ میں آپ کی اطاعت نہیں کروں گا، اور اپنے خیمہ میں لے جا کر فعل بد کا مرتکب ہوگیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں طاعون بھیج دیا جس کے نتیجہ میں ستر ہزار آدمی ہلاک ہوگئے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں امیہ بن صلت کا نام لیا ہے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھا، اس کے علاوہ بعض مفسرین نے شان نزول کے سلسلہ میں اور نام بھی لئے ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ علی بن طلحہ کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے تفسیر کے باب میں بڑی معبتر روایت ہے، ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کا یہی شان نزول بیان کیا ہے لہٰذا یہی شان نزول صحیح ہے۔ (معارف، احسن التفاسیر، فتح القدیر شوکانی) فمثلہ۔۔۔۔ یلھث، (الآیۃ) لَھِثَ (س) لَھَثًا، پیاسا ہونا، کتے کا ہانپتے وقت زبان نکالنا کتے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو ٖڈراؤ یا اس کو اس کی حالت پر چھوڑ در زبان لٹکائے ہی رہتا ہے۔ کتے کے ساتھ جس شخص کو تشبیہ دی گئی ہے وہی شخص ہے جس کا ذکر سطور بالا میں ہوا ہے اللہ نے اس کو جو علم، معرفت عطا کیا تھا اس کا تقاضہ یہ تھا کہ اس رویہّ سے بچتا جس کو وہ غلط سمجھتا تھا اور وہ طرز عمل اختیار کرتا جو اسے معلوم تھا کہ صحیح ہے، لیکن وہ دنیا کے فائدوں، لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا، خواہشات نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس نے ان کے آگے سپر ڈالدی دنیا کی حرص و طمع سے بالا ترہونے کے بجائے وہ اس حرص و طمع سے مغلوب ہوا کہ ان تمام حدود کو توڑ کر نکل بھاگا جن کی نگہداشت اس کو خود کرنی چاہیے تھی جب وہ اپنی اخلاقی کمزوری کی وجہ سے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا تھا اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف دھکیلتا رہا یہاں تک کہ ظالم نے اسے ان لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا کو اس کے دام فریب میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاع عقل و ہوش گم کرچکے ہیں۔ کتے کے ساتھ تشبیہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ کتے کی جو خصلتیں ہوتی ہیں وہ سب اس میں جمع ہوجاتی ہیں، کتے کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان اور ٹپکتی ہوئی رال، نہ بجھنے والی آتش حرص، کبھی سیر نہ ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے ہم اپنے محاورہ میں بھی ایسے شخص کو جو دنیا کی حرص میں اندھا ہورہا ہو، دنیا کا کتا، کہتے ہیں، کتے کی جبلت کیا ہے ؟ حرص و آز۔ چلتے پھرتے اس کی ناک سو نگنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاہد کہیں سے بوئے طعام آجائے، کتا پوری دنیا کو صرف پیٹ ہی کے نظریہ سے دیکھتا ہے، کہیں کوئی بڑی لاش پڑی ہو جو کئی کتوں کے لئے کافی ہو تو ایک کتا اس سے صرف اپنا حصہ لینے پر ہی اکتفاء نہیں کرتا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لئے مخصوص رکھنا چاہتا ہے اور کسی دوسرے کتے کو اس کے پاس پھٹکنے نہیں دیتا، اس شہوت شکم کے بعد کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ شہوت فرج ہے، اپنے سارے جسم میں سے صرف شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دل چسپی رکھتا ہے اور اسی کو سونگھنے اور چاٹنے میں مشغول رہتا ہے، اس تشبیہ کا مدعایہ ہے کہ دنیا پرست آدمی جب علم و ایمان کی رسی تڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں تھما دیتا ہے تو کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا۔
Top