Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّجَعَلَ
: اور بنایا
مِنْهَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
: تاکہ وہ سکون حاصل کرے
اِلَيْهَا
: اس کی طرف (پاس)
فَلَمَّا
: پھر جب
تَغَشّٰىهَا
: مرد نے اس کو ڈھانپ لیا
حَمَلَتْ
: اسے حمل رہا
حَمْلًا
: ہلکا سا
خَفِيْفًا
: ہلکا سا
فَمَرَّتْ
: پھر وہ لیے پھری
بِهٖ
: اس کے ساتھ (اسکو)
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَثْقَلَتْ
: بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا اللّٰهَ
: دونوں نے پکارا
رَبَّهُمَا
: دونوں کا (اپنا) رب
لَئِنْ
: اگر
اٰتَيْتَنَا
: تونے ہمیں دیا
صَالِحًا
: صالح
لَّنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوں گے
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا کا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر کچھ بوجھ معلوم کرتی (یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا) ہے تو دونوں (میاں بیوی) اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دیگا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔
آیت نمبر 189 تا 206 ترجمہ : وہ یعنی اللہ ہی ہے جس نے تم کو ایک جان یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا حوّاء کو پیدا کیا تاکہ اس سے سکون حاصل کرے اور اس سے الفت کرے، چناچہ جب اس کو ڈھانپ لیا یعنی اس سے مجامعت کی، اگر اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا، اور اس بات سے خوفزدہ ہوئے کہ وہ (حمل) کوئی جانور نہ ہو تو انہوں نے اپنے رب اللہ سے دعاء کی، اگر آپ ہمیں نیک صحیح سالم بچہ عطا فرمائیں تو ہم اس پر آپ کے شکر گذار ہوں گے، چناچہ جب ان کو صحیح سالم اولاد دیدی تو دونوں (بیوی) نے (اللہ کے) عطا کردہ بچے کا نام عبدالحارث رکھ کر خدا کا شریک قراردیدیا، اور ایک قراءت میں شین کے کسرہ اور (کاف) کی تنوین کے ساتھ (شرکٌ) ہے حالانکہ یہ قطعاً درست نہیں کہ خدا کے علاوہ کسی کا بندہ ہو، اور یہ (شرک فی التسمیہ ہے) شرک فی العبادت نہیں ہے حضرت آدم (علیہ السلام) کے معصوم ہونے کی وجہ سے، اور (حضرت) سمرہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا، جب حوّاء نے بچہ جنا تو ابلیس نے ان کے پاس چکر لگانا شروع کردیا، اور حوّاء کا بچہ زندہ نہیں رہتا تھا ابلیس نے حوّا سے کہا تم اس کا نام عبدالحارث رکھو تو وہ زندہ رہے گا، چناچہ حوّاء نے اس کا نام (عندالحارث) رکھ دیا تو وہ بچہ زندہ رہا، اور یہ سب کچھ شیطان کے اشارہ اور اس کے حکم سے ہوا، اس کو حاکم نے روایت کیا ہے اور صحیح کہا ہے، اور ترمذی نے حسن غریب کہا ہے سو اللہ تعالیٰ اہل مکہ کے اس کے ساتھ بتوں کو شریک کرنے سے پاک ہے اور (فتعٰلیٰ اللہ عما یشرکون) جملہ مسببیہ ہے اور خلقکم پر عطف ہے، اور دونوں کے درمیان جملہ معترضہ ہے، کیا وہ عبادت میں اس کا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ پیدا نہیں کرسکتے، اور وہ خود مخلوق ہیں اور وہ اپنے عبادت کرنے والوں کی کسی قسم کی مدد نہیں کرسکتے اور نہ خود کو بچا سکتے ہیں اس شخص سے جو ان کو بدنیتی سے توڑنے وغیرہ کا ارادہ کرے، اور استفہام تو بیخ کے لئے ہے، اور تم بتوں کو ہدایت (رہنمائی) کے لئے پکارو تو وہ تمہاری بات نہ مانیں (یتبعوکم) تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے تمہارے لئے برابر ہے کہ تم ان کو رہنمائی کے لئے پکارو یا ان کو نہ پکارو، ان کے نہ سننے کی وجہ سے تمہاری پکار کی طرف کان نہ دھریں گے اللہ کو چھوڑ کر جن کی تم بندگی کرتے ہو وہ بھی تمہارے جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکار کر دیکھ لو، ان کو چاہیے کہ تمہاری پکار کا جواب دیں اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ وہ معبود ہیں پھر بتوں کے انتہائی عجز اور ان کے عابدوں کی ان پر فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، کیا ان کے پیر ہیں جن سے وہ چل سکیں ؟ یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑ سکیں ؟ ایدِ ، ید کی جمع ہے، یا ان کے آنکھ ہیں جن سے وہ دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں کہ جن سے وہ سن سکیں، ( سب جگہ) استفہام انکاری ہے یعنی مذکورہ چیزوں میں سے ان کے پاس ایک بھی نہیں ہے جو تمہارے پاس ہیں، تو پھر ان کی بندگی کس بناء پر کرتے ہو حالانکہ تم ان سے حالت کے اعتبار سے (بہرحال) بہتر ہو اے محمد ﷺ ان سے کہو میری ہلاکت کے لئے اپنے شرکاء کو بلا لو پھر میرے بارے میں تدبیر کرو مجھے مہلت دو ، میں تمہاری کچھ پرواہ نہیں کرتا ہوں، بیشک میرا مددگار اللہ ہے جس نے کتاب (یعنی) قرآن نازل کیا اور وہ اپنی نگرانی میں نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہے اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی ہی مدد پر قادر ہیں، تو میں ان کی کیوں پرواہ کروں ؟ اور تم بتوں کو رہنمائی کے لئے پکارو تو وہ نہ سنیں اور اے محمد تم اگر ان بتوں کو دیکھو ایسا معلوم ہوگا کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں یعنی دیکھنے والے کے مانند آپ کے روبرو ہیں، حالانکہ وہ کچھ نہیں دیکھتے آپ درگذر کو اختیار کریں (یعنی) لوگوں کے اخلاق کے بارے میں سہل انگیزی سے کام لیجئے (ان کے عیوب) کی کھود کرید میں نہ پڑیئے، اور نیکی کا حکم کیجئے، اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کیجئے، اور ان کی حماقت کا مقابلہ نہ کیجئے، اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے یعنی اگر آپ کو مامور بہ سے کوئی برگشتہ کرنے والا برگشتہ کرے تو اللہ کی پناہ طلب کیجئے (اِمّا) میں مازائدہ میں نون شرطیہ کا ادغام ہے، (فاستعذ باللہ) جواب شرط ہے، اور جواب امر محذوب ہے اور وہ یَدْفعہ عنک ہے، بلا شبہ وہ بات کا سننے والا عمل کا دیکھنے والا ہے بلا شبہ وہ لوگ جو خدا ترس ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اللہ کی سزا اور ثواب کو یاد کرنے لگتے ہیں اور ایک قراءت میں (طیف) کے بجائے طائف ہے، یعنی اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیش آتا ہے، تو وہ دفعۃً حق اور ناحق کو دیکھنے لگتے ہیں (یعنی دونوں میں امتیاز کرنے لگتے ہیں) تو وہ اس وسوسہ سے باز آجاتے ہیں، اور کفار میں جو شیطان کے بھائی بند ہوتے ہیں شیاطین ان کو گمراہی میں گھسیٹ لیتے ہیں پھر وہ (شیطان کے بھائی بند) اس گمراہی سے آنکھ کھلنے یعنی آگاہ ہو نیکے باوجود باز نہیں آتے، جیسا کہ متقی دیدہ بنیا سے کام لیتے ہیں، اور جب آپ اہل مکہ کے سامنے ان کا تجویز کردہ (فرمائشی) معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ اپنی طرف سے کیوں نہ لائے ؟ آپ ان سے کہدیجئے میں تو صرف اس حکم کی اتباع کرتا ہوں جو میرے پاس میرے رب کی طرف سے بھیجا جاتا ہے میرے اختیار میں نہیں کہ میں کچھ بھی اپنی طرف سے لاسکوں، ی قرآن لوگوں کے لئے تمہارے رب کی جانب سے دلائل ہیں، اور ہدایت ہے اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کو غور سے سنا کرو اور بات چیت بند کرکے خاموش ہوجایا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے یہ آیت خطبہ کے وقت ترک کلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور خطبہ کو قرآن سے اس لئے تعبیر کردیا ہے کہ خطبہ قرآن پر مشتمل ہوتا ہے، اور کہا گیا ہے کہ مطلقاً قرآن کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور (اے مخاطب) اپنے رب کو چپکے چپکے عاجزی اور اللہ سے خوف کے ساتھ یاد کیا کر، یعنی زیر زبان سے اوپر اور جہر فی الکلام سے نیچے، یعنی سر اور جہر کے درمیان کا قصد کرتے ہوئے صبح و شام یعنی اول دن میں اور آخر دن میں، اور اللہ کے ذکر سے غفلت کرنے والوں میں مت ہو، بلا شبہ وہ مخلوق یعنی جو تیرے رب کے پاس ہے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتی اور جو چیز اس کی شایانِ شان نہیں اس سے اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور اس کے لئے سجدہ کرتی ہے اور عاجزی اور عبادت کے لئے اس کو خالص کرتی ہے سو تم بھی ان کے جیسے ہوجاؤ۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد وَجَعَلَ مِنھا، ضمیر مجرور نفس کی طرف راجع ہے باعتبار لفظ کے اور لیسکنَ کی ضمیر بھی نفس کی طرف راجع ہے باعتبار معنی کے، اور مراد نفس سے آدم (علیہ السلام) ہیں۔ قولہ : وفی قِرَاءَۃً بِکَسْرِ الشِیْنِ والتَنْوِیْنِ ای شَرِیْکاً ، یہ شرکاء میں دوسری قراءت کا بیان ہے، شرکاء شریک کی جمع ہے مگر مراد مفرد ہی ہے اس کا قرینہ دوسری قراءت ہے اور وہ شِرْ کاً ہے کسرہ اور راء کے سکون کے اور کاف کی تنوین کے ساتھ۔ قولہ : ای شریکا، اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شِر کاً مصدر فاعل شریکاً کے معنی میں ہے تاکہ حمل درست ہوسکے۔ قولہ : جَعَلَا لہ ‘، جَعَلا میں ضمیر تثنیہ کی طرف راجع ہے ؟ بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ آدم و حوّاء کی طرف راجع ہے، لیکن محقق قول یہ ہے کہ بنی آدم میں سے ہر نفس اور زوج نفس مراد ہے، بعض تا بعین سے بھی یہی قول منقول ہے قال الحسن وقتادۃ الضمیر فی جعلا عائد الی النفس وزوجہٖ من ولد آدم لا الی آدم و حوّا ؛ (جصاص) جعل الزوج والزوجۃ شرکاء (کبیرعن القفال) امام رازی نے قفال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ قصہ بطور تمثیل کے مشرکین کی عام حالت کو بیان کررہا ہے، اور اس تفسیر کو بہت ہی پسند فرمایا ہے ھذا جوابٌ فی غایۃ الصحۃ والسداد (کبیر) اور محققین نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت میں ضمیر کو آدم و خواء کی طرف راجع کرنے کی کوئی تائید نہ قرآن سے ملتی ہے نہ حدیث صحیح سے اور ایسے قصے پیغمبروں کے لائق نہیں۔ (بحر، بیضاوی) قولہ : بتَسْمِیَتہٖ ای بتسمیۃ الولد، حارث، بتسمیۃ شرکاء بمعنی شریک کے متعلق ہے۔ قولہ : ولَیْسَ بِاِ شْرَاکٍٍ فی العُبُوْدِیَّۃِ لعَصْمَۃِ آدَمَ اس اضافہ کا مقصد انبیاء کی عصمت کا دفاع ہے۔ قولہ : العُبُوْدِیَّۃ، زیادہ بہتر ہوتا کہ العبودیۃ کے بجائے العبادۃ یا معبودیۃ فرماتے۔ (حاشیہ جلالین) قولہ : اَھْلُ مَکَّۃ اس میں اس بات کی تائید ہے کہ جَعَلاَ کا مرجع آدم و حوّاء نہیں ہے بلکہ ہر نفس اور اس کا زوج ہے، اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا قول فتعالی اللہ عما یشرکون ہے یسرکون، صیغہ جمع کے ساتھ لایا گیا ہے حالانکہ آدم وحوّاء جمع نہیں ہیں۔ قولہ : والجُمْلَۃُ مُسَبَّبَۃٌ، یعنی فتعالی اللہ عما یشرکون، اس کا عطف خَلَقکم من نفسٍ واحدۃ یر ہے، معطوف علیہ معطوف کا سبب ہے، یعنی جن چیزوں کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو وہ اس سے بڑی ہے اسلئے کہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے اور مخلوق کی شریک نہیں ہوسکتی گویا کہ اس میں فاء تعقیبیہ کے فائدہ کی طرف اشارہ ہے، درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : یُقابِلُوْ نکَ اس میں اشارہ ہے کہ کلام بطور رشبیہ ہے، لہٰذا اب یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ اصنام سے دیکھنا ممکن نہیں ہے، قولہ : طَیْف، اس سے یہ بھی احتمال ہے کہ طَیْفُ ، طیفاً سے اسم فاعل، ای طاف بہ الخیال، طائف وسوسہ، خطرہ۔ قولہ : اَلَمَّ بھم ای مسَّ بھم۔ تفسیر وتشریح ھو۔۔۔ واحدۃ (الآیۃ) سابق میں ابو البشر اور ام البشر کی تخلیق کا بیان تھا، اب یہاں عام مرد و زن کی پیدائش کا بیان ہے، اس کو اصطلاح میں التفات عن الخاص الی العام کہتے ہیں اور قرآن کریم کا یہ عام اور پسندیدہ اسلوب بیان ہے ان آیات میں حسن بصری وغیرہ کی رائے کے مطابق خاص آدم و حواء کا نہیں بلکہ عام انسانوں کی حالت کا بقشہ کھینچا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتداء میں ھُوَ الَّذی خَلقکم من خلقکم من نفس واحدۃ و جعل منھا زوجھا میں بطور تمہید آدم و حواء کا ذکر تھا اس کے بعد مطلق مرد و عورت کے ذکر کی طرف منتقل ہوگئے، اور ایسا ہوتا ہے کہ شخص کے ذکر سے جنس کے ذکر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں مثلاً ، وَلقد زیَّناَ السماء الدنیا بمصابیح وَجَعَلْنَا ھَارُ جو ماً للشیاطین، میں جن ستاروں کو مصابیح فرمایا گیا وہ ٹوٹنے والے ستارے نہیں جن سے رجم شیاطین ہوتا ہے مگر شخص مصابیح سے جنس مصابیح کی جانب کلام کو منتقل کردیا گیا، اس کے مطابق ” جَعَلَالَہ ‘ شرکاء “ میں کوئی اشکال نہیں، مگر اکثر سلف سے منقول ہے کہ ان آیتوں میں آدم و حواء کا واقعہ مذکور ہے۔ احادیث کی روشنی میں آیات کی تفسیر : جب آدم و حواء (علیہ السلام) کو زمین پر اتاردیا گیا اور زمین پر بودوباش شروع کردی تو ایک روز حضرت آدم حواء سے ہم بستر ہوئے، حواء کو حمل رہ گیا جب تک حمل ابتدائی مرحلے میں رہا تو حضرت حواء کو کوئی گرانی نہیں ہوئی اور باآسانی چلتی پھرتی رہیں، مگر جب زمانہ گذرتا گیا تو حمل میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے حواء کو ثقل محسوس ہونے لگا، اس سے یہ بات سمجھ آگئی کہ حواء کو علوق ہوگیا، اور ایک روز ہماری جنس کا بچہ پیدا ہونے والا ہے پھر دونوں حضرات دعائیں کرنے لگیں اے اللہ اگر تو ہمیں صالح صحیح سالم تندرست بچہ دے گا تو ہم بہت شکر گزار ہوں گے، حمل کے دوران ابلیس نے حضرت حواء کے پاس آنا جانا شروع کردیا، ایک روز ابلیس نے حضرت حواء سے کہا کہ جب تمہارا بچہ پیدا ہو تو اس کا نام میرے نام پر رکھنا، حواء نے معلوم کیا تیرا کیا نام ہے ؟ ابلیس نے اپنا غیر معروف نام بتایا یعنی حارث، جب بچہ پیدا ہو تو اس کا نام عبد الحارث رکھا، اگر مفسرین نے جَعَلاَ لہ شرکاء فیما آتاھما، کی یہی تفسیر کی ہے، ترمذی، امام احمد، ابی حاتم وغیرہ محدثین نے اس موقع پر سمرہ بن جندب کی حدیث بیان فرمائی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا، حواء کا کوئی بچہ زندہ نہ رہتا تھا، اس مرتبہ جو حمل رہا تو ابلیس نے آکر کہا، اگر اس بچہ کا نام عبد الحارث رکھو گے تو یہ بچہ زندہ رہے گا، غرضیکہ ابلیس کے بہکانے سے حواء نے ایسا کیا، اس میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا کوئی قصور نہیں تھا، اور بعض مفسرین نے آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کی شان میں نازل ہوئی ہے اسلئے کہ مشرکین مکہ اپنے بچوں کا نام غیر اللہ کے نام پر مثلاً عبد العزیٰ ، عبد الشمس وغیرہ رکھا کرتے تھے اس قسم کے نام رکھنا بھی شرک میں داخل ہے، سمرہ بن جندب کی روایت جو ابھی اوپر گزری ہے، اس کی سند میں ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے، اسی واسطے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ کی صحیح حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی عمر میں سے چالیس سال حضرت داؤد (علیہ السلام) کو دئیے مگر پھر اس اقرار پر قائم نہ رہے اس کا ذکر آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا اور پھر فرمایا کہ حضرت آدم کا اقرار پر قائم نہ رہنا اس بات کا ایک نمونہ تھا کہ ا ان کی اولاد میں بھی یہ بات پائی جائے گی، اس حدیث سے ان مفسرین کے قول کی تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عبادت میں تو نہیں مگر نام رکھنے میں شرک شیطان کے بہکانے سے حواء سے ظہور میں آیا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں میں سے سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کا حاصل یہ ہے کہ شیطان نے یہ نام حواء کو خواب میں سکھایا تھا اور حضرت حواء نے اپنا یہ خواب حضرت آدم (علیہ السلام) سے بیان کیا حضرت آدم (علیہ السلام) نے یہ نام رکھنے سے منع فرمایا، لیکن اس لڑکے سے پہلے دو لڑکے فوت ہوچکے تھے، اس لئے شیطان نے حواء کو یہ پٹی پڑھائی کہ اب کہ دفعہ جو لڑکا پیدا ہو اس کا نام عبد الحارث رکھنا تو وہ لڑکا زندہ رہیگا اور عمر دراز ہوگا، اولاد کی محبت کے جوش میں حواء نے اس بچہ کا نام عبد الحارث رکھ دیا، حضرت آدم چونکہ پہلے ہی منع کرچکے تھے اس لئے بچہ کے پیدا ہونے اور اس نام کے رکھے جانے کے بعد اس نام کی انہوں نے کچھ کریدنہ کی یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حواء دونوں کا نام اس قصہ میں ذکر فرمایا، اس آیت کی تفسیر کو علماء نے بہت مشکل قرار دیا ہے، لیکن سلف میں سے قتادہ اور سفیان ثوری کا یہ قول جب مدنظر رکھا جائے کہ تفسیر کے باب میں سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کا بڑا اعتبار ہے اور سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کے مطابق آیت کی تفسیر کی جائے تو آیت کی تفسیر میں کوئی دشواری باقی نہیں رہتی۔ (خلاصہ احسن التفاسیر) تم بحمد اللہ
Top