Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 48
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ : والے الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالًا : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَهُمْ : وہ انہیں پہچان لیں گے بِسِيْمٰىهُمْ : ان کی پیشانی سے قَالُوْا : وہ کہیں گے مَآ اَغْنٰى : نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں جَمْعُكُمْ : تمہارا جتھا وَمَا : اور جو كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ : تم تکبر کرتے تھے
اور اہل اعراف اہل جھنم میں سے جن کی صورت سے پہچانیں گے پکاریں گیں اور کہیں گے کہ آج کے دن نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کوئی کام آئی اور نہ تمہارا تکبر ہی سودمند ہوا
آیت نمبر 48 تا 53 ترجمہ : اور اہل اعراف جہنمیوں میں سے بڑے بڑے لوگوں سے جن کو وہ ان کی علامتوں سے پہچانتے ہوں گے پکار کر کہیں گے (سوال کریں گے) کہ تمہارا مال کو جمع کرنا یا تمہاری اکثریت اور تمہارا ایمان سے تکبر کرنا آگ سے بچانے میں کیا کام آیا ؟ اور (اہل اعراف) ضعفاء مسلمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دوزخیوں سے کہیں گے، کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم نے قسم کھا کر کہا تھا کہ ان کو خدا کی رحمت کا کچھ بھی حصہ نہ ملے گا ؟ ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ اس حال میں کہ تمہارے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم اُدْخِلُوا، مجہول کے صیغہ کے ساتھ اور دَخَلوا (ماضی معروف) کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور (دونوں) منفیہ جملہ مقولاً کی تقدیر کے ساتھ حال ہیں، حال یہ ہے کہ یہ بات ان سے کہہ دی گئی، اور دوزخی جنتیوں سے پکار کر کہیں گے کچھ تھوڑے پانی سے ہمارے اوپر بھی کرم کردو یا جو رزق کھانے کیلئے اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہماری طرف بھی ڈال دو تو وہ جواب دیں گے یہ دونوں چیزیں اللہ نے کافروں کیلئے حرام (ممنوع) کردی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیوی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا تو آج ہم بھی انھیں بھلا دیں گے (یعنی) ہم ان کو دوزخ میں داخل کر کے چھوڑ دیں گے، جیسا کہ انہوں نے ملاقات کیلئے عمل کو ترک کرکے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا، اور جیسا کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے، یعنی جیسا کہ انہوں نے انکار کیا، اور ہم نے اہل مکہ کے پاس ایسی کتاب (یعنی) قرآن پہنچا دیا کہ جس میں اخبار اور وعدوں اور وعیدوں کو ہم نے کھول کھول کر بیان کیا حال یہ ہے کہ جو اس میں کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے ہم اس کے جاننے والے ہیں حال یہ کہ وہ کتاب ہدایت ہے، ھدًی فصّلنٰہٗ کی ضمیر مفعولی سے حال ہے، اور وہ اس (قرآن) پر ایمان لانیوالوں کیلئے رحمت ہے، ان لوگوں کو کسی چیز کا انتظار نہیں صرف قرآن میں بیان کردہ کے انجام کا انتظار ہے، جس دن اس کا آخری نتیجہ آجائیگا وہ قیامت کا دن ہوگا، جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یعنی اس پر ایمان کو ترک کئے ہوئے تھے اس روز یوں کہیں گے واقعی ہمارے رب کے رسول سچی باتیں لائے تھے، سو اب کیا ہمارا کوئی سفارشی ہے کہ جو ہماری سفارش کر دے، یا کیا ہم پھر دنیا میں واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم ان اعمال کے برخلاف جنہیں ہم کیا کرتے تھے، دوسرے (نیک) اعمال کریں (یعنی) اللہ کی توحید کے قائل ہوجائیں اور شرک کو ترک کردیں، تو ان سے کہا جائیگا، نہیں، بیشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال لیا جبکہ وہ ہلاکت کی طرف چلے دعوائے شرک کی جو باتیں ان لوگوں نے تصنیف کر رکھی تھیں ان سے غائب ہوگئیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : رِجَالاً مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ ، ای الذین کانوا عظماء فی الدنیا فینادونھم، یا ابا جھل بن ہشام ویا ولید بن مغیرۃ ویا فلان ویافلان وھم فی النار، اصحاب عراف ان لوگوں کا نام بنام پکار کر کہیں گے کہ تم دنیا میں رؤساء قوم کہلاتے تھے تمہاری جمعیتیں اور مال و دولت اور وہ جاہ و حشمت کیا ہوئے ؟ جن پر تم کو بڑا فخر و غرور تھا، آج ان میں سے تمہارے کچھ بھی کام نہیں آیا۔ قولہ : اغنیٰ عنکم، ما استفہام توبیخی ہے ای ایُّ شئ اغنٰی، اور ما نافیہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی ان میں سے تمہارے کچھ کام نہیں آتا۔ قولہ : استکبارًا، اس میں اشارہ ہے کہ ’ ما کنتم ‘ میں ما مصدریہ ہے لہٰذا عدم عائد کا شبہ ختم ہوگیا اور بعض حضرات نے استکباراً کا مطلب بڑا سمجھنا، لیا ہے اور بعض نے اعراض کرنا علامہ سیوطی نے دوسرے معنی مراد لئے ہیں۔ قولہ : یَقُوْلُوْنَ لھم، اس سے اشارہ کردیا کہ اٰھؤلاء الذین الخ یہ بھی اہل اعراف کا مقولہ ہے۔ قولہ : بِالْبِنَاءِ لِلْمَفْعُوْلِ ، یعنی باب افعال سے ماضی مجہول اور دخلوا (ن) سے ماضی معروف ہے یہ دونوں قراءتیں شاذ ہیں جس کی طرف قُرِئ کہہ کر اشارہ کردیا ہے، ان دونوں قراءتوں کی صحت میں قول کی تقدیر کی ضرورت نہیں ہے، اسلئے کہ بغیر تاویل کے خبر واقع ہوجائیگا۔ (فیہ مافیہ) قولہ : مَنَعھما، حَرَّمَھُمَا، کی تفسیر مَنَعھما سے کرکے اشارہ کردیا کہ حرّم بمعنی مَنَعَ ہے اسلئے کہ حرام و حلال کا محل دنیا ہے نہ کہ آخرت قولہ : نَتْرُکُھْم اس میں اشارہ ہے کہ نسیان سے اس کے لازم معنی یعنی ترک مراد ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے نسیان محال ہے۔ قولہ : ای وکما جَحَدوا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : وما کانوا بِایٰتِنَا یجحدون، کا عطف کما نَسُوْا لِقاء، پر درست نہیں ہے اسلئے کہ معطوف علیہ ماضی اور معطوف مضارع ہے۔ جواب : مضارع پر جب کان داخل ہوجاتا ہے تو ماضی بن جاتا ہے، لہٰذا عطف درست ہے۔ قولہ : عَاقِبَۃَ مَا فِیہ، فیہ کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے یعنی اب ان کو صرف قرآن میں مذکور وعدوں اور وعیدوں کے انجام کی صداقت ہی کا انتظار ہے۔ تفسیر و تشریح نادی اصحب۔۔۔ رجالاً ، اہل اعراف اہل نار میں سے بڑے بڑے لوگوں کو جن کو وہ ان کی علامتوں سے پہچان لیں گے کہیں گے، دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے کچھ کام آئے اور نہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے، اور کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا، آج انہی سے کہا گیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ، پھر اہل اعراف سے کہا جائیگا، تم بھی جنت میں داخل ہوجاؤ تم کو کچھ خوف و غم نہیں حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کافروں سے فرمائیگا کہ جن غریبوں کو تم دنیا میں محروم بتاتے تھے لو اب یہی لوگ جنت میں پہنچ گئے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے بحوالہ مسلم، کہ آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کے بڑے بڑے نافرمان مالدار لوگ قیامت کے دن جب دوزخ میں ڈالے جاویں گے تو دوزخ میں پڑتے ہی فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس مالداری نے تم کو آخرت سے غافل رکھا دوزخ کے عذاب کے مقابلہ میں تم کو دنیا کی وہ مالداری کچھ یاد ہے تو وہ لوگ قسم کھا کر کہیں گے کہ اس عذاب کے مقابلہ میں ہمیں دنیا کی وہ مالداری ذرا بھی یاد نہیں اسی طرح اہل جنت کو جنت کی نعمتوں کے آگت دنیا کی تنگدستی کچھ یاد نہ آئے گی۔
Top