Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔
ولا تفسدوا فی الارض (الآیۃ) ممانعت کا مطلب ہے فساد فی الارض سے ممانعت۔ انسان کا خدا کی بندگی سے نکل کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا اور خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی معاشرت تمدن و اخلاق کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرنا جو خدا کے سوا کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں، یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے نظام میں خرابی کی بیشمار صورتیں رونما ہوتی ہیں اور اسی فساد کو روکنا قرآن کا مقصد ہے قانون اسلام کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے ہی سے عالم کی اصلاح ہوتی ہے اور مکمل دستور العمل سے انکار و انحراف ہی سے پہلے فساد عقائد اور فساد اعمال و اخلاق پیدا ہوتے ہیں جو جرائم، معاصی، قتل و گا رت گری غرضیکہ ہر قسم کے فساد کا باعث ہے جس کی وجہ سے عالم میں فساد برپا ہوتا ہے۔ آداب دعاء : دعاء میں آداب دعاء و عبودیت کا لحاظ رکھنا بھی آداب دعاء سے ہے دعاء کے آداب کا لحاظ نہ رکھنا بھی دعاء میں حد سے تجاوز کرنا ہے، آداب دعاء میں یہ بھی داخل ہے کہ دعاء محالات عقلیہ وعادیہ کی نہ مانگی جائے، مثلاً یہ کہ اے اللہ تو مجھے دنیا میں خلود نصیب فرمایا میری جوانی لوٹا دے اور نہ معاصی کی طلب و تمنا کی جائے مطلب یہ ہے کہ دعاء اپنی حیثیت اور مرتبہ سے بڑھ کر نہ کی جائے، بلکہ شان عبودیت کے ساتھ لجاجت کے لہجہ میں خشوع قلب کے ساتھ دعاء مانگی جائے، دعاء چلا چلا کر بھی نہ مانگنی چاہیے (نعوذ باللہ) تمہارا پروردگار نہ گراں گوش ہے اور نہ دور، چلا چلا کر دعاء کرنے سے حدیث شریف میں بھی ممانعت آئی ہے صحیح بخاری اور مسلم میں یہ روایت آئی ہے کہ ایک موقعہ پر لوگ چلا چلا کر زور زور سے دعاء مانگ رہے تھے اس پر آپ نے فرمایا ” جسے تم پکار رہے ہو وہ نہ اونچا سنتا ہے اور نہ وہ دور ہے وہ تو قریب ہے اور خوب سنتا ہے “ حنفیہ نے یہیں سے استدلال کیا ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ کے بعد آمین بھی چونکہ دعاء ہے لہٰذا آمین آہشتہ کہنی چاہیے (جصاص) دعاء کرتے وقت امید و بین کی کیفیت ہونی چاہیے، اس کے عذاب کا خوف بھی ہو اور اس کی رحمت کی امید بھی اس طرح دعاء کرنے والے کا شمار محسنین میں ہوتا ہے، یقیناً اللہ کی رحمت ایسے لوگوں کے قریب ہے۔
Top