Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى
: یقیناً آیا (گزرا)
عَلَي
: پر
الْاِنْسَانِ
: انسان
حِيْنٌ
: ایک وقت
مِّنَ الدَّهْرِ
: زمانہ کا
لَمْ يَكُنْ
: اور نہ تھا
شَيْئًا
: کچھ
مَّذْكُوْرًا
: قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، بیشک انسان (یعنی) آدم پر، زمانہ میں ایسا وقت (یعنی) چالیس سال بھی گزرا ہے کہ وہ اس میں کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا (بلکہ) وہ اس زمانہ میں ایک ناقابل ذکر مٹی کا پتلا تھا، یا انسان سے جنس انسان مراد ہے، اور حین سے مدت حمل مراد ہے، بیشک ہم نے انسانوں کو مرد اور عورت (یعنی) حال یہ کہ ہم اس کو اہل بنا کر آزمانے والے تھے، اسی لئے ہم نے اس کو شنوا اور بینا بنایا، ہم نے اس کو راہ دکھائی (یعنی) رسول بھیج کر اس کے لئے راہ ہدایت واضح فرمائی، اب خواہ وہ شکر گزار مومن بنے، یا ناشکرا دونوں مفعول سے حال ہیں یعنی اس کی حالت شکر یا حالت کفر میں جو اس کے لئے مقدر ہے (یعنی) راستہ واضح کردیا، اور اما حالات کی تفصیل کے لئے ہے، بیشک ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں جن کے ذریعہ ان کو آگ میں گھسیٹا جائے گا اور طوق ان کی گردن میں کہ جن میں زنجیروں کو باندھا جائے گا اور دہکتی ہوئی آگ جس میں ان کو عذاب دیا جائے گا تیار کر رکھی ہے، بیشک نیک لوگ ایسا جام شراب پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی کاس شراب کے اس پیالے کو کہتے ہیں جس میں شراب ہو اور کاس سے مراد جام کی شراب ہے، یعنی محل بول کر حال مراد ہے اور من تبعیضیہ ہے، (کافور) ایک چشمہ ہے کہ جس سے اللہ کے نیک بندے اس کے ولی پئیں گے عینا، کافور سے بدل ہے، وہ چشمہ کہ جس میں کافور کی خوشبو ہوگی اور اپنے گھروں میں جہاں چاہیں گے اس سے نہریں نکال کرلے جائیں گے اور خدا کی اطاعت میں جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی بڑائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے اور مسکین کو یعنی فقیر اور یتیم کو جس کا باپ نہ ہو اور قیدیوں کو جو (اس پر) کسی کے حق میں محبوس ہو اس کھانے کی خواہش کے باوجود کھلاتے ہیں (حال یہ کہ وہ کہتے ہیں) ہم تو تمہیں خدا کی رضا مندی یعنی طلب ثواب کے لئے کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے کوئی صلہ چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری، اس میں کھانا کھلانے کی علت کا بیان ہے، خواہ انہوں نے یہ بات کہی ہو یا خدا کو ان کے بارے میں اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہو، دونوں قول ہیں، بیشک ہم اپنے پروردگار سے اداسی کے دن سے جس میں چہرے بگڑ جائیں گے ڈرتے ہیں یعنی اس دن کی نہایت شدت کی وجہ سے کریہہ المنظر ہوجائیں گے، پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لیا اور انہیں تازگی (یعنی) حسن اور چہرے کی رونق اور خوشی عطا فرمائی اور ان کی معصیت سے باز رہنے پر صبر کرنے کے بدلے انہیں جنت میں داخلہ اور ریشم کا لباس عطا فرمایا، یہ لوگ وہاں مسہریوں پر خیموں میں تکیہ لگائے بیٹھیں گے (متکئین) ادخلوھا مقدر کی ضمیر مرفوع سے حال ہے نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے اور نہ جاڑے کی سردی، یعنی نہ گرمی اور نہ سردی ہوگی، (لایرون) لا یجدون کے معنی میں حال ثانیہ ہے، کہا گیا ہے کہ زمھریر سے مراد قمر ہے (جنت) بغیر شمس و قمر کے (نور عرش سے منور ہوگی) اور ان پر جنت کے درختوں کے سایہ جھکے ہوئے ہوں گے، (دانیۃ) کا عطف لایرون کے محل پر ہے ای لایرون غیر رائین کے معنی ہیں، اور ان درختوں کے پھلوں کے گچھے نیچے لٹکائے گئے ہوں گے، یعنی ان درختوں کے پھل قریب کردیئے گئے ہوں گے، کہ ان کو کھڑے کھڑے اور بیٹھے بیٹھے اور لیٹے لیٹے حاصل کرلیں، اور جنت میں ان پر چاندی کے برتنوں اور ایسے جاموں کا دور چلایا جائے گا، کہ جو شیشے کے ہوں گے (اکواب) ایسے جام کہ جن میں ٹونٹی نہ ہو اور شیشے بھی چاندی کے یعنی وہ جام ایسی چاندی کے ہوں گے کہ جن کا اندر باہر سے نظر آئے گا، کانچ کے مانند اور دورچلانے والے ان جاموں کو ایک انداز سے پینے والوں کے پیاس کے مطابق بغیر زیادتی اور کمی کے بھریں گے اور یہ (طریقہ) لذیذ ترین طریقہ ہے اور انہیں وہاں ایسے جام شراب پلائے جائیں گے کہ جن کی آمیزش زنجبیل (سونٹھ) کی ہوگی یعنی ان میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی، جنت کے ایک چشمے سے کہ جس کا نام سلسبیل ہے، عینا، زنجبیل سے بدل ہے یعنی اس کا پانی زنجبیل کی مانند ہوگا جس سے عرب لذت حاصل کرتے ہیں جس کا حلق سے اترنا سہل ہوگا، اور ان کے پاس ایسے نو خیز لڑکے آمد و رفت رکھیں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، یعنی نوجوانی کی صفت سے ہمیشہ متصف رہیں گے کبھی بوڑھے نہ ہوں گے، اور جب تو انہیں دیکھے تو سمجھے کہ وہ لڑی یا صدف سے بکھرے ہوئے موتی ہیں اور لڑی میں یا صدف میں حسین ترین معلوم ہونے کی وجہ سے، اور تو وہاں جہاں کہیں نظر ڈالے گا یعنی جب بھی تیری طرف سے رویت پائی جائے گی تو تو نعمت ہی نعمت کہ ان کی صفت بیان نہیں ہوسکتی اور بڑا ملک دیکھے گا ایسا وسیع کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی وہ سبز ریشم کے موٹے اور باریک کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے (عالیھم) ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے، اور اس کا مابعد مبتداء کی خبر ہے، اور ایک قرأت میں یاء کے سکون کے ساتھ مبتداء ہے اور اس کا مابعد اس کی خبر ہے، اور (عالیھم) کی ضمیر متصل معطوف علیہ (یعنی) جنتیوں کی طرف راجع ہے، خضر رفع کے اور استبرق جر کے ساتھ، ریشم کے موٹے کپڑے کو کہتے ہیں اور وہ استر ہوگا، اور سندس ابرا (اوپر کا کپڑا) اور ایک قرأت میں مذکورہ قرأت کا عکس ہے اور ایک تیسری قرأت میں دونوں کا رفع ہے اور ایک اور قرأت میں دونوں کا جر ہے، اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ایک دوسری جگہ ہے کہ ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو دونوں قسم کے زیور ایک ساتھ یا متفرق طریقہ پر پہنائے جائیں گے، اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا وہ شراب اپنی طہارت اور نظافت میں انتہا درجہ کو پہنچی ہوگی، بخلاف دنیا کی شرابوں کے (ان سے کہا جائے گا) یہ نعمتیں تمہارے لئے بطور صلہ کے ہیں اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ھل قد اس میں اشارہ ہے کہ ھل بمعنی قد ہے اس لئے کہ استفہام کے معنی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہیں، یا پھر استفہام تقریری ہوسکتا ہے۔ قولہ : علی الانسان، آدم یہاں انسان کی تفسیر آدم سے کی ہے اور آئندہ انسان کی تفسیر جنس آدم سے کی ہے، حالانکہ قاعدہ ہے اذا اعیدت المعرفۃ کانت عین الاولی جب معرفہ کا اعادہ کیا جائے تو عین اولیٰ مراد ہوتا ہے اس کا مقتضٰی ہے کہ دونوں جگہ انسان کی تفسیر آدم سے ہو۔ جواب : یہ قاعدہ اکثر یہ ہے کلیہ نہیں۔ دوسرا جواب : خلقنا الانسان میں مضاف محذوف ہے ای خلقنا ذریۃ الانسان۔ قولہ : نبتلیہ جملہ مستانفہ ہے یا خلقنا کی ضمیر فاعل سے حال مقدرہ ہے ای خلقناہ حال کونہ مریذین ابتلاء … اس لئے کہ ابتلا بالتکالیف سمیع وبصیر ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے نہ کہ اس سے پہلے۔ قولہ : انا ھدیناہ یہاں ہدایت سے مراد دلالت اور رہنمائی ہے مفسر علام نے بینا کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : کاس ” جام شراب “ یہاں کاس بول کر مجازاً شراب مراد ہے یعنی ظرف بول کر مظروف مراد ہے، اور اگر کاس سے ظرف ہی مراد لیا جائے تو من کو ابتدائیہ ماننا ہوگا یعنی شراب پینے کی ابتداء جام شراب سے ہوگی، ظرف بول کر مظروف مراد لینے سے تکلف کی وجہ یہ ہے کہ کان مزاجھا کافورا جملہ ہو کر کاس کی صفت واقع ہو رہی ہے ترجمہ یہ ہوگا، جنتی ایسے جام سے پئیں گے کہ جس میں کافور کی آمیزش ہوگی حالانکہ جام میں کافور کی آمیزش کا کوئی مطلب نہیں ہے، البتہ شراب میں آمیزش ہوسکتی ہے اسی شبہ کو دفع کرنے کے لئے کہہ دیا اس سے مافی الک اس مراد ہے۔ قولہ : یشرب بھا، باء میں چند وجوہ ہیں، (1) باء زائدہ ای یشربھا اس وقت یشرب متعدی بنفسہ ہوگا، (2) بمعنی من مفسر علام نے یہی معنی مراد لئے ہیں، (3) باء حالیہ، ای ممزوجۃ بھا (4) یشربون یلتذون کے معنی کو متضمن ہو، ای یلتذون بھا شاربین۔ قولہ : المحبوس بحق اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر کسی کا حق واجب ہے مثلاً قرض وغیرہ جس کو یہ ادا نہیں کرسکتا، قرض خواہ نے اپنے حق کے عوض اس کو قید کرا دیا، اس لئے کہ قرض خواہ کو یہ حق ہے کہ مقروض کو عدم ادائیگی کی صورت میں قید کرا دے اور اگر کوئی شخص باطل اور غلط طریقہ پر محبوس ہے تو اس کو کھانا کھلانا بطریق اولیٰ کار ثواب ہوگا۔ قولہ : انما نطعمکم لوجہ اللہ الخ، قائلین اس سے پہلے محذوف ہے۔ قولہ : شکورا، شکرا کے معنی میں ہے فواصل کی رعایت کی وجہ سے شکوراً لایا گیا ہے، ایک نسخہ میں فیہ علۃ الاطعام ہے، اس کا مطلب ہے کہ انما نطعمکم لوجہ اللہ یہ اطعام کی علت ہے، اور بعض نسخوں میں علۃ کے بجائے علی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تم کو لوجہ اللہ کھانا کھلاتے ہیں اس کھلانے پر ہم شکریہ کے طالب نہیں ہیں، مگر اس صورت میں فیہ کی ضرورت نہیں ہے۔ قولہ : وھل تکلموا بذلک او علمہ اللہ منھم اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مذکورہ جملہ میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ یہ مقولہ کھانا کھلانے والوں کا ہو اور انہوں نے زبان مقال سے یہ بات کہی ہو، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ مقولہ اللہ تعالیٰ کا ہو، اور اللہ تعالیٰ کو چونکہ ہر شخص کی نیت اور ارادہ کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ انہوں نے کھانا لوجہ اللہ کھلایا ہے کسی صلہ یا شکر یہ کا طالب ہو کر نہیں کھلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے یہ جملہ فرمایا۔ قولہ : یوما عبوسا قمطریرا، عبوس صفت مشبہ کا صیغہ ہے منہ بگاڑنے والا، ترش رو ہونے والا، قمطریرامصیبت اور رنج کا طویل دن (یعنی روز قیامت) کو کہتے ہیں، اصل محاورہ میں قمطرت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی دم اٹھا کر، ناک چڑھا کر، منہ بنا کر مکروہ شکل اختیار کرلے، اسی مناسبت سے ہر مکروہ اور رنج وہ دن کو ” قمطریر “ کہتے ہیں اصل مادہ قطر ہے میم زائد ہے (لغات القرآن) یوما موصوف ہے عبوسا صفت اول ہے اور قمطریرا صفت ثانی ہے جملہ ہو کر نخاف کا ظرف ہے۔ قولہ : فی ذلک ای فی العبوس۔ قولہ : لایرون یہ بھی اذخلوا کی ضمیر سے حال ثانیہ ہے۔ قولہ : زمھریرا، زمھریر کے معنی سخت سردی کے ہیں فلسفہ کی اصطلاح میں زمہریر فضاء میں ایک نہایت شدید سرد طبقہ کا نام ہے اس کے علاوہ فضاء میں کرہ ناری اور کرہ ہوائی بھی ہیں۔ قولہ : علی محل لا یرون، لا یرون حال ہونے کی بنا پر محلا منصوب ہے اسی وجہ سے دانیۃ بھی منصوب ہے۔ قولہ : علیھم، منھم، علی کی تفسیر من سے کر کے اشارہ کردیا کہ علی بمعنی من ہے اس لئے کہ دانیۃ کا صلہ من مستعمل ہے نہ کہ علی۔ قولہ : شجرھا، ظلالھا کی تفسیر شجرھا سے کرنے کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے، اعتراض یہ ہے کہ جنت کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے، حالانکہ سایہ سورج کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جنت میں شمس و قمر نہ ہوں گے تو سایہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب دیا کہ ظلال سے مراد نفس شجر ہے، یعنی درخت کی شاخیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ قولہ : احسن منہ فی غیر ذلک اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے۔ سوال : جنت کے غلمان کو بکھرے ہوئے موتیوں سے تشبیہ دینے میں کیا حکمت ہے ؟ جب کہ عام طور پر منظوم اور پروئے ہوئے موتیوں سے تشبیہ دی جاتی ہے ؟ جواب : جنتی غلمان کو حسن و انتشار میں غیر مثقب (بن بندھے) موتیوں سے تشبیہ دینا مقصود ہے، اس لئے کہ موتی میں سوراخ ہونے کے بعد چمک اور صفائی کم ہوجاتی ہے جو کہ ایک قسم کا نقص ہے اور بن بندھے (غیر مثقب) موتی منتشر ہی ہوتے ہیں، یعنی موتی جب صدف اور سلک میں نہیں ہوتا تو وہ حسن و خوبی میں بہتر ہوتا ہے اس سے جو صدف یا سلک میں ہوتا ہے۔ قولہ : اذا رأیت وجدت، رایت کی تفسیر وجدت سے کر کے اشارہ کردیا کہ رأیت یہاں لازم ہے اسی وجہ سے اس کے مفعول کو حذف کردیا گیا ہے۔ تفسیر و تشریح ھل اتی علی الانسان، ھل بمعنی قد ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے الانسان سے بعض حضرات نے ابوالبشر ” آدم (علیہ السلام) “ مراد لئے ہیں، اور حین سے روح پھونکنے تک کا زمانہ مراد لیا ہے، جو چالیس سال ہے، اور اکثر مفسرین نے الانسان کو بطور جنس کے استعمال کیا ہے، اور حین سے مراد حمل کی مدت لی ہے جس میں جنبین قابل ذکر شئی نہیں ہوتی، اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں رحم مادر سے باہر آتا ہے اور جب عنفوان شباب کا زمانہ آتا ہے تو اپنے رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت اور حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں کہ مجھ پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب میں عالم نیست میں تھا اور کوئی قابل ذکر شئی نہ تھا۔
Top