بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، بیشک انسان (یعنی) آدم پر، زمانہ میں ایسا وقت (یعنی) چالیس سال بھی گزرا ہے کہ وہ اس میں کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا (بلکہ) وہ اس زمانہ میں ایک ناقابل ذکر مٹی کا پتلا تھا، یا انسان سے جنس انسان مراد ہے، اور حین سے مدت حمل مراد ہے، بیشک ہم نے انسانوں کو مرد اور عورت (یعنی) حال یہ کہ ہم اس کو اہل بنا کر آزمانے والے تھے، اسی لئے ہم نے اس کو شنوا اور بینا بنایا، ہم نے اس کو راہ دکھائی (یعنی) رسول بھیج کر اس کے لئے راہ ہدایت واضح فرمائی، اب خواہ وہ شکر گزار مومن بنے، یا ناشکرا دونوں مفعول سے حال ہیں یعنی اس کی حالت شکر یا حالت کفر میں جو اس کے لئے مقدر ہے (یعنی) راستہ واضح کردیا، اور اما حالات کی تفصیل کے لئے ہے، بیشک ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں جن کے ذریعہ ان کو آگ میں گھسیٹا جائے گا اور طوق ان کی گردن میں کہ جن میں زنجیروں کو باندھا جائے گا اور دہکتی ہوئی آگ جس میں ان کو عذاب دیا جائے گا تیار کر رکھی ہے، بیشک نیک لوگ ایسا جام شراب پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی کاس شراب کے اس پیالے کو کہتے ہیں جس میں شراب ہو اور کاس سے مراد جام کی شراب ہے، یعنی محل بول کر حال مراد ہے اور من تبعیضیہ ہے، (کافور) ایک چشمہ ہے کہ جس سے اللہ کے نیک بندے اس کے ولی پئیں گے عینا، کافور سے بدل ہے، وہ چشمہ کہ جس میں کافور کی خوشبو ہوگی اور اپنے گھروں میں جہاں چاہیں گے اس سے نہریں نکال کرلے جائیں گے اور خدا کی اطاعت میں جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی بڑائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے اور مسکین کو یعنی فقیر اور یتیم کو جس کا باپ نہ ہو اور قیدیوں کو جو (اس پر) کسی کے حق میں محبوس ہو اس کھانے کی خواہش کے باوجود کھلاتے ہیں (حال یہ کہ وہ کہتے ہیں) ہم تو تمہیں خدا کی رضا مندی یعنی طلب ثواب کے لئے کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے کوئی صلہ چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری، اس میں کھانا کھلانے کی علت کا بیان ہے، خواہ انہوں نے یہ بات کہی ہو یا خدا کو ان کے بارے میں اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہو، دونوں قول ہیں، بیشک ہم اپنے پروردگار سے اداسی کے دن سے جس میں چہرے بگڑ جائیں گے ڈرتے ہیں یعنی اس دن کی نہایت شدت کی وجہ سے کریہہ المنظر ہوجائیں گے، پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لیا اور انہیں تازگی (یعنی) حسن اور چہرے کی رونق اور خوشی عطا فرمائی اور ان کی معصیت سے باز رہنے پر صبر کرنے کے بدلے انہیں جنت میں داخلہ اور ریشم کا لباس عطا فرمایا، یہ لوگ وہاں مسہریوں پر خیموں میں تکیہ لگائے بیٹھیں گے (متکئین) ادخلوھا مقدر کی ضمیر مرفوع سے حال ہے نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے اور نہ جاڑے کی سردی، یعنی نہ گرمی اور نہ سردی ہوگی، (لایرون) لا یجدون کے معنی میں حال ثانیہ ہے، کہا گیا ہے کہ زمھریر سے مراد قمر ہے (جنت) بغیر شمس و قمر کے (نور عرش سے منور ہوگی) اور ان پر جنت کے درختوں کے سایہ جھکے ہوئے ہوں گے، (دانیۃ) کا عطف لایرون کے محل پر ہے ای لایرون غیر رائین کے معنی ہیں، اور ان درختوں کے پھلوں کے گچھے نیچے لٹکائے گئے ہوں گے، یعنی ان درختوں کے پھل قریب کردیئے گئے ہوں گے، کہ ان کو کھڑے کھڑے اور بیٹھے بیٹھے اور لیٹے لیٹے حاصل کرلیں، اور جنت میں ان پر چاندی کے برتنوں اور ایسے جاموں کا دور چلایا جائے گا، کہ جو شیشے کے ہوں گے (اکواب) ایسے جام کہ جن میں ٹونٹی نہ ہو اور شیشے بھی چاندی کے یعنی وہ جام ایسی چاندی کے ہوں گے کہ جن کا اندر باہر سے نظر آئے گا، کانچ کے مانند اور دورچلانے والے ان جاموں کو ایک انداز سے پینے والوں کے پیاس کے مطابق بغیر زیادتی اور کمی کے بھریں گے اور یہ (طریقہ) لذیذ ترین طریقہ ہے اور انہیں وہاں ایسے جام شراب پلائے جائیں گے کہ جن کی آمیزش زنجبیل (سونٹھ) کی ہوگی یعنی ان میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی، جنت کے ایک چشمے سے کہ جس کا نام سلسبیل ہے، عینا، زنجبیل سے بدل ہے یعنی اس کا پانی زنجبیل کی مانند ہوگا جس سے عرب لذت حاصل کرتے ہیں جس کا حلق سے اترنا سہل ہوگا، اور ان کے پاس ایسے نو خیز لڑکے آمد و رفت رکھیں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، یعنی نوجوانی کی صفت سے ہمیشہ متصف رہیں گے کبھی بوڑھے نہ ہوں گے، اور جب تو انہیں دیکھے تو سمجھے کہ وہ لڑی یا صدف سے بکھرے ہوئے موتی ہیں اور لڑی میں یا صدف میں حسین ترین معلوم ہونے کی وجہ سے، اور تو وہاں جہاں کہیں نظر ڈالے گا یعنی جب بھی تیری طرف سے رویت پائی جائے گی تو تو نعمت ہی نعمت کہ ان کی صفت بیان نہیں ہوسکتی اور بڑا ملک دیکھے گا ایسا وسیع کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی وہ سبز ریشم کے موٹے اور باریک کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے (عالیھم) ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے، اور اس کا مابعد مبتداء کی خبر ہے، اور ایک قرأت میں یاء کے سکون کے ساتھ مبتداء ہے اور اس کا مابعد اس کی خبر ہے، اور (عالیھم) کی ضمیر متصل معطوف علیہ (یعنی) جنتیوں کی طرف راجع ہے، خضر رفع کے اور استبرق جر کے ساتھ، ریشم کے موٹے کپڑے کو کہتے ہیں اور وہ استر ہوگا، اور سندس ابرا (اوپر کا کپڑا) اور ایک قرأت میں مذکورہ قرأت کا عکس ہے اور ایک تیسری قرأت میں دونوں کا رفع ہے اور ایک اور قرأت میں دونوں کا جر ہے، اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ایک دوسری جگہ ہے کہ ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو دونوں قسم کے زیور ایک ساتھ یا متفرق طریقہ پر پہنائے جائیں گے، اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا وہ شراب اپنی طہارت اور نظافت میں انتہا درجہ کو پہنچی ہوگی، بخلاف دنیا کی شرابوں کے (ان سے کہا جائے گا) یہ نعمتیں تمہارے لئے بطور صلہ کے ہیں اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ھل قد اس میں اشارہ ہے کہ ھل بمعنی قد ہے اس لئے کہ استفہام کے معنی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہیں، یا پھر استفہام تقریری ہوسکتا ہے۔ قولہ : علی الانسان، آدم یہاں انسان کی تفسیر آدم سے کی ہے اور آئندہ انسان کی تفسیر جنس آدم سے کی ہے، حالانکہ قاعدہ ہے اذا اعیدت المعرفۃ کانت عین الاولی جب معرفہ کا اعادہ کیا جائے تو عین اولیٰ مراد ہوتا ہے اس کا مقتضٰی ہے کہ دونوں جگہ انسان کی تفسیر آدم سے ہو۔ جواب : یہ قاعدہ اکثر یہ ہے کلیہ نہیں۔ دوسرا جواب : خلقنا الانسان میں مضاف محذوف ہے ای خلقنا ذریۃ الانسان۔ قولہ : نبتلیہ جملہ مستانفہ ہے یا خلقنا کی ضمیر فاعل سے حال مقدرہ ہے ای خلقناہ حال کونہ مریذین ابتلاء … اس لئے کہ ابتلا بالتکالیف سمیع وبصیر ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے نہ کہ اس سے پہلے۔ قولہ : انا ھدیناہ یہاں ہدایت سے مراد دلالت اور رہنمائی ہے مفسر علام نے بینا کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : کاس ” جام شراب “ یہاں کاس بول کر مجازاً شراب مراد ہے یعنی ظرف بول کر مظروف مراد ہے، اور اگر کاس سے ظرف ہی مراد لیا جائے تو من کو ابتدائیہ ماننا ہوگا یعنی شراب پینے کی ابتداء جام شراب سے ہوگی، ظرف بول کر مظروف مراد لینے سے تکلف کی وجہ یہ ہے کہ کان مزاجھا کافورا جملہ ہو کر کاس کی صفت واقع ہو رہی ہے ترجمہ یہ ہوگا، جنتی ایسے جام سے پئیں گے کہ جس میں کافور کی آمیزش ہوگی حالانکہ جام میں کافور کی آمیزش کا کوئی مطلب نہیں ہے، البتہ شراب میں آمیزش ہوسکتی ہے اسی شبہ کو دفع کرنے کے لئے کہہ دیا اس سے مافی الک اس مراد ہے۔ قولہ : یشرب بھا، باء میں چند وجوہ ہیں، (1) باء زائدہ ای یشربھا اس وقت یشرب متعدی بنفسہ ہوگا، (2) بمعنی من مفسر علام نے یہی معنی مراد لئے ہیں، (3) باء حالیہ، ای ممزوجۃ بھا (4) یشربون یلتذون کے معنی کو متضمن ہو، ای یلتذون بھا شاربین۔ قولہ : المحبوس بحق اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر کسی کا حق واجب ہے مثلاً قرض وغیرہ جس کو یہ ادا نہیں کرسکتا، قرض خواہ نے اپنے حق کے عوض اس کو قید کرا دیا، اس لئے کہ قرض خواہ کو یہ حق ہے کہ مقروض کو عدم ادائیگی کی صورت میں قید کرا دے اور اگر کوئی شخص باطل اور غلط طریقہ پر محبوس ہے تو اس کو کھانا کھلانا بطریق اولیٰ کار ثواب ہوگا۔ قولہ : انما نطعمکم لوجہ اللہ الخ، قائلین اس سے پہلے محذوف ہے۔ قولہ : شکورا، شکرا کے معنی میں ہے فواصل کی رعایت کی وجہ سے شکوراً لایا گیا ہے، ایک نسخہ میں فیہ علۃ الاطعام ہے، اس کا مطلب ہے کہ انما نطعمکم لوجہ اللہ یہ اطعام کی علت ہے، اور بعض نسخوں میں علۃ کے بجائے علی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تم کو لوجہ اللہ کھانا کھلاتے ہیں اس کھلانے پر ہم شکریہ کے طالب نہیں ہیں، مگر اس صورت میں فیہ کی ضرورت نہیں ہے۔ قولہ : وھل تکلموا بذلک او علمہ اللہ منھم اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مذکورہ جملہ میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ یہ مقولہ کھانا کھلانے والوں کا ہو اور انہوں نے زبان مقال سے یہ بات کہی ہو، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ مقولہ اللہ تعالیٰ کا ہو، اور اللہ تعالیٰ کو چونکہ ہر شخص کی نیت اور ارادہ کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ انہوں نے کھانا لوجہ اللہ کھلایا ہے کسی صلہ یا شکر یہ کا طالب ہو کر نہیں کھلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے یہ جملہ فرمایا۔ قولہ : یوما عبوسا قمطریرا، عبوس صفت مشبہ کا صیغہ ہے منہ بگاڑنے والا، ترش رو ہونے والا، قمطریرامصیبت اور رنج کا طویل دن (یعنی روز قیامت) کو کہتے ہیں، اصل محاورہ میں قمطرت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی دم اٹھا کر، ناک چڑھا کر، منہ بنا کر مکروہ شکل اختیار کرلے، اسی مناسبت سے ہر مکروہ اور رنج وہ دن کو ” قمطریر “ کہتے ہیں اصل مادہ قطر ہے میم زائد ہے (لغات القرآن) یوما موصوف ہے عبوسا صفت اول ہے اور قمطریرا صفت ثانی ہے جملہ ہو کر نخاف کا ظرف ہے۔ قولہ : فی ذلک ای فی العبوس۔ قولہ : لایرون یہ بھی اذخلوا کی ضمیر سے حال ثانیہ ہے۔ قولہ : زمھریرا، زمھریر کے معنی سخت سردی کے ہیں فلسفہ کی اصطلاح میں زمہریر فضاء میں ایک نہایت شدید سرد طبقہ کا نام ہے اس کے علاوہ فضاء میں کرہ ناری اور کرہ ہوائی بھی ہیں۔ قولہ : علی محل لا یرون، لا یرون حال ہونے کی بنا پر محلا منصوب ہے اسی وجہ سے دانیۃ بھی منصوب ہے۔ قولہ : علیھم، منھم، علی کی تفسیر من سے کر کے اشارہ کردیا کہ علی بمعنی من ہے اس لئے کہ دانیۃ کا صلہ من مستعمل ہے نہ کہ علی۔ قولہ : شجرھا، ظلالھا کی تفسیر شجرھا سے کرنے کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے، اعتراض یہ ہے کہ جنت کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے، حالانکہ سایہ سورج کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جنت میں شمس و قمر نہ ہوں گے تو سایہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب دیا کہ ظلال سے مراد نفس شجر ہے، یعنی درخت کی شاخیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ قولہ : احسن منہ فی غیر ذلک اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے۔ سوال : جنت کے غلمان کو بکھرے ہوئے موتیوں سے تشبیہ دینے میں کیا حکمت ہے ؟ جب کہ عام طور پر منظوم اور پروئے ہوئے موتیوں سے تشبیہ دی جاتی ہے ؟ جواب : جنتی غلمان کو حسن و انتشار میں غیر مثقب (بن بندھے) موتیوں سے تشبیہ دینا مقصود ہے، اس لئے کہ موتی میں سوراخ ہونے کے بعد چمک اور صفائی کم ہوجاتی ہے جو کہ ایک قسم کا نقص ہے اور بن بندھے (غیر مثقب) موتی منتشر ہی ہوتے ہیں، یعنی موتی جب صدف اور سلک میں نہیں ہوتا تو وہ حسن و خوبی میں بہتر ہوتا ہے اس سے جو صدف یا سلک میں ہوتا ہے۔ قولہ : اذا رأیت وجدت، رایت کی تفسیر وجدت سے کر کے اشارہ کردیا کہ رأیت یہاں لازم ہے اسی وجہ سے اس کے مفعول کو حذف کردیا گیا ہے۔ تفسیر و تشریح ھل اتی علی الانسان، ھل بمعنی قد ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے الانسان سے بعض حضرات نے ابوالبشر ” آدم (علیہ السلام) “ مراد لئے ہیں، اور حین سے روح پھونکنے تک کا زمانہ مراد لیا ہے، جو چالیس سال ہے، اور اکثر مفسرین نے الانسان کو بطور جنس کے استعمال کیا ہے، اور حین سے مراد حمل کی مدت لی ہے جس میں جنبین قابل ذکر شئی نہیں ہوتی، اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں رحم مادر سے باہر آتا ہے اور جب عنفوان شباب کا زمانہ آتا ہے تو اپنے رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت اور حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں کہ مجھ پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب میں عالم نیست میں تھا اور کوئی قابل ذکر شئی نہ تھا۔
Top