بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
(یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں ؟
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، یہ قریشی آپس میں کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ؟ کیا اس بڑی خبر کے بارے میں جس کے متعلق یہ لوگ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کرتے ہیں ؟ (عن النبا العظیم) (شئی مسئولہ کا) عطف بیان ہے، اور استفہام اسی شئی کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے ہے اور وہ قرآن ہے جس کو نبی ﷺ لائے جو کہ بعث وغیرہ پر مشتمل ہے، (بایں طور) کہ مومنین اس کو ثابت کرتے ہیں اور کافر اس کا انکار کرتے ہیں، خبردار ! ان کو عنقریب وہ چیز معلوم ہوجائے گی جو ان کے اوپر اس کے انکار کی وجہ سے نازل ہوگی (کلا) حرف توبیخ ہے، پھر بالیقین انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا، یہ تاکید ہے، اس میں ثم اس بات کو بتانے کے لئے لایا گیا ہے کہ دوسری وعید پہلی سے شدید تر ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے قدرت علی البعث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (الم نجعل الخ) کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہم نے زمین کو گہوارہ کے مانند بچھونا بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کے مانند گاڑ دیا، زمین کو پہاڑوں کے ذریعہ ساکن (غیر مضطرب) کردیا جس طرح خیموں کو میخوں کے ذریعہ قائم کردیا جاتا ہے، اور استفہام تقریر کے لئے ہے، اور ہم نے تم کو مردوں اور عورتوں کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور تمہاری نیند کو ہم نے تمہارے جسموں کے لئے (باعث) راحت بنایا اور ہم نے رات کو اس کی ظلمت کی وجہ سے ساتر بنایا اور دن کو معاش یعنی معاش کا وقت بنایا، اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے شدادا، شدیدۃ کی جمع ہے یعنی ایسے قوی اور مضبوط کہ ان میں مرور زمان بھی اثر نہ کرسکے، اور ایک نہایت ہی روشن دہکتا ہوا چراغ یعنی سورج بنایا اور ہم نے پانی بھرے بادلوں سے یعنی ان بادلوں سے جو برسنے کے قریب ہوگئے ہوں مثل اس عورت کے کہ جو قریب البلوغ ہو اور جس کے حیض کا زمانہ قریب آگیا ہو، بہتا ہوا پانی برسایا، تاکہ ہم اس (پانی) کے ذریعہ غلہ مثل گندم اور گھاس مثل بھوسہ کے پیدا کریں اور گھنے گتھے ہوئے باغات اگائیں (الفاف) لفیف کی جمع ہے جیسا کہ اشراف، شریف کی جمع ہے، بلاشبہ مخلوق کے درمیان فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے (یعنی) ثواب و عقاب کا وقت ہے، جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی صور بمعنی قرن، (یوم ینفخ) یوم الفصل سے بدل ہے یا اس کا عطف بیان ہے، اور صور پھونکنے والے (حضرت) اسرافیل (علیہ السلام) ہیں تو تم اپنی قبروں سے محشر کی جانب مختلف جماعتوں کی شکل میں چلے آئو گے، اور آسمان کھول دیا جائے گا (فتحت) تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے یعنی (آسمان کو) نزول ملائکہ کے لئے پھاڑ دیا جائے گا، تو وہ دروازے یہ دروازے ہوجائے گا یعنی دروازوں والا ہوجائے گا، اور پہاڑ چلائے جائیں گے یعنی ان کو ان کی جگہ سے اکھاڑ دیا جائے گا، تو وہ چمکتے ہوئے ریت ہوجائیں گے (یعنی) اڑنے میں اور ہلکے پن میں مثل غبار (ہو جائیں گے) بلاشبہ جہنم کافروں کے گھات میں ہے کہ اس سے بچ کر نہیں جاسکتے یا (کافروں کے لئے) تیار کی گئی ہے کہ وہ ان کا ٹھکانہ ہے جس میں وہ داخل ہو گے، اور وہ اس میں قرنہا قرن رہیں گے (لابثین) حال مقدرہ ہے یعنی ان کے لئے اس میں داخل ہونا مقدر ہوچکا ہے نہ ان کو وہاں نیند میسر ہوگی اور نہ لذت کے ساتھ پینے کے قابل کوئی چیز اور اگر کچھ ملے گا تو بس نہایت گرم پانی اور بہتی پیپ (غساقا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ یعنی وہ چیز جو دوزخیوں کے زخموں سے نکلے گی، بس وہ اسی کو چکھیں گے، اور اسی کے ذریعہ ان کو ان کے اعمال کے مطابق بھرپور بدلہ دیا جائے گا، یہ لوگ ان کے بعث سے منکر ہونے کی وجہ سے حساب کا اندیشہ نہ رکھتے تھے اور انہوں نے ہماری آیتوں قرآن کو بالکل جھٹلا دیا تھا، حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے ہر عمل کو گن کر ضبط کرلیا تھا یعنی لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا تاکہ ہم اس کا بدل دیں اور ان ہی (اعمال) میں سے ان کا قرآن کو جھٹلانا بھی ہے، اب چکھو مزہ یعنی ان پر عذاب واقع کرتے وقت ان سے کہا جائے گا کہ تم اپنے (اعمال) کا بدلہ چکھو، اب ہم تمہارے لئے عذاب پر عذاب ہی کا اضافہ کرتے جائیں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : عم، عم دو حرفوں عن، اور ما سے مرکب ہے، اصل میں عما تھا، ما استفہامیہ ہے اس پر حرف جرداخل ہے قاعدہ معروفہ کی وجہ سے ما سے الف حذف ہوگیا، قاعدہ معروفہ یہ ہے کہ جب ما استفہامیہ پر حرف جرداخل ہو تو الف کو حذف کردیا جاتا ہے، البتہ ضرورت شعری وغیرہ کے لئے باقی بھی رکھا جاسکتا ہے، ما استفہامیہ یہاں تفخیم و عظمت کیلئے ہے، اس لئے کہ یہاں استفہام کے حقیقی معنی ممکن نہیں کیوں کہ استفہام کے لئے مستفہم کا ناواقف ہونا ضروری ہے اور یہ خدا کے لئے محال ہے۔ قولہ : النبا، نباء عظیم الشان اور بڑی خبر کو کہتے ہیں، یہاں عظیم الشان خبر سے مراد قیامت ہے، کلا یہ حرف زجر و توبیخ ہے اس میں وعید و تہدید کے معنی ہیں۔ قولہ : ما یحل بھم یہ یعلمون کا مفعول بہ ہے۔ قولہ : وجی بثم للایذان الخ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے۔ اعتراض : اعتراض یہ ہے کہ جو مفہوم معطوف علیہ کا ہے وہی بعینہ معطوف کا ہے اور یہ عطف الشیء علی نفسہ ہے جو کہ جائز نہیں ہے ؟ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ ثم کے ذریعہ عطف کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ دوسری تاکید پہلی کی بہ نسبت شدید ہے، پس دونوں میں تغائر موجود ہے لہٰذا عطف الشیء علی نفسہ کا اعتراض دفع ہوگیا۔ قولہ : الم نجعل الارض مھادا، الارض مفعول بہ اول ہے اور مھادا مفعول بہ ثانی جب کہ جعل بمعنی صیر ہو اور اگر بمعنی خلق ہو تو مھادا، الارض سے حال ہوگا۔ قولہ : سباتا، سبات، سبت سے مشتق ہے اس کے معنی مونڈنے اور قطع کرنے کے ہیں، نیند چونکہ ہموم و غمم کو قطع کردیتی ہے جس کی وجہ سے جسم کو راحت اور دماغ کو سکون نصیب ہوتا ہے، اسی وجہ سے بعض حضرات نے سبات کے معنی راحت کے لئے ہیں، انہیں میں سے مفسر علام بھی ہیں، یوم السبت کو سبت اس لئے کہتے ہیں کہ یوم السبت میں بقول یہد کے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے فارغ ہونے کے بعد آرام فرمایا تھا۔ قولہ : وقتا للمعایش اس میں اشارہ کردیا کہ معاش مصدر میمی بمعنی ظرف زمان ہے۔ قولہ : الجاریۃ یہاں مطلق انثی مراد ہے۔ قولہ : ان یوم الفصل یہ کلام مستانف ہے جو کہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ وہ وقت کونسا ہے جو ادلہ متقدمہ سے ثابت کیا گیا ہے ؟ اس کا جواب ان یوم الفصل سے دیا گیا ہے کہ وہ مخلوق کے درمیان فیصلے کا دن ہے اس دن کے آنے میں چونکہ کفار کو تردد تھا اس لئے کلام کو ان کے ذریعہ مؤکد لایا گیا ہے۔ قولہ : جو زوا بذلک اس عبارت کے اضافہ سے اشارہ کر دا کہ جزاء وفاقا فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے، ای جو زوا جزاء وفاقا۔ قولہ : موافقا لعملھم اس سے اشارہ کردیا کہ وفاقا مصدر بمعنی اسم فاعل ہے اور جزاء کی صفت ہے، ای جزاء موافقا لعملھم۔ قولہ : وکل شیء یہ اشتغال کی وجہ سے منصوب ہے تقدیر عبارت یہ ہے احصینا کل شیء احصینہ اور بعض حضرات نے کل کو ابتداء کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے اور اس کا مابعد اس کی خبر ہے، اور یہ جملہ سبب اور مسبب کے درمیان معترضہ ہے۔ قولہ : کتابا، کتابا مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے اس لئے کہ احصینا بمعنی کتبنا ہے ای کتبناہ کتابا۔ قولہ : فذوقوا فلن نزید کم الا عذابا یہ جملہ ان کے کفر و تکذیب کا مسبب ہے۔ تفسیر و تشریح جب رسول اللہ ﷺ کو خلعت نبوت سے نوازا گیا، اور آپ ﷺ نے توحید، قیامت وغیرہ کو بیان فرمایا، تو کفار آپس میں پوچھ تاچھ کرتے کہ کیا واقعی قیامت برپا ہوسکتی ہے ؟ اور یہ قرآن جس کو یہ شخص اللہ کا کلام کہتا ہے کیا واقعی اللہ کا کلام ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو کفار مکہ اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر اس کے متعلق رائے زنی اور چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے خود ہی سوال کر کے ان امور کی حیثیت و اہمیت کو واضح فرمایا اور پھر خود ہی جواب دے کر فیصلہ فرما دیا اور کلا کے ذریعہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے فرمایا کہ یہ چیزیں بحث و مباحثہ اور تنقید و تبصرہ سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں، جب اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھو گے تو سب کچھ خود ہی معلوم ہوجائے گا اور یہ عنقریب ہونے والا ہے۔
Top