Tafseer-e-Jalalain - An-Naba : 38
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ صَفًّا١ۙۗؕ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا
يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ الرُّوْحُ : قیام کریں گے روح/ روح الامین وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے صَفًّا ٷ : صف در صف لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ : نہ کلام کرسکیں گے/ نہ بات کرسیں گے اِلَّا : مگر مَنْ اَذِنَ : جس کو اجازت دے لَهُ : اس کے لئے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَقَالَ صَوَابًا : اور وہ کہے درست بات
جس دن روح (الامین) اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی بول نہ سکے گا مگر جس کو (خدائے) رحمن اجازت بخشے اور اس نے بات بھی درست کہی ہو
یوم یقوم الروح و الملائکۃ صفا، روح سے مراد بعض ائمہ تفسیر کے نزدیک جبرئیل (علیہ السلام) ہیں چونکہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا ملائکہ میں ایک خاص امتیازی مقام ہے اس وجہ سے عام ملائکہ سے الگ ان کا ذکر فرمایا، اور بعض روایات میں ہے کہ روح، اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان مخصوص لشکر ہے جو فرشتے نہیں ہیں، اس تفسیر کی رو سے دو صفیں ہوں گی ایک روح کی اور دوسری فرشتوں کی۔ (معارف ملخصًا) لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن وقال صوابا، یہاں کلام نہ کرنے سے مراد شفاعت نہ کرنا ہے، شفاعت کی اجازت دو شرطوں کے ساتھ ممکن ہوگی، ایک شرط یہ کہ جس شخص کو جس گنہگار کے حق میں شفاعت کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی صرف وہی شخص اسی کے حق میں شفاعت کرسکے گا، دوسری شرط یہ کہ شفاعت کرنے والا بجا اور درست بات کہے یعنی بےجا سفارش نہ کرے اور جس کے معاملہ میں وہ سفارش کر رہا ہو وہ دنیا میں کم از کم کلمہ ٔ حق کا قائل رہا ہو یعنی وہ گنہگار ہو، کافر مشرک نہ ہو۔
Top