Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 21
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح جو قَالُوْا : انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَهُمْ : حالانکہ وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہیں سنتے
اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے (حکم خدا) سن لیا مگز (حقیقت میں) نہیں سنتے۔
وَلا تکونوا کالذین قالوا سَمِعْنَا وھم لا یسمَعُوْنَ ، یہاں سننے سے مراد وہ سننا ہے جس کو قبول کرنا اور ماننا کہتے ہیں، اس آیت میں اشارہ ان منافقوں کی طرف ہے جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے تھے مگر احکام کی اطاعت سے منہ موڑ جاتے تھے، سن لینے کے باوجود عمل نہ کرنا کافروں کا شیوہ ہے، تم اس رویہ سے بچو، اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کو بہرہ اور گونگا بدترین قرار دیا گیا ہے اگر ان میں اللہ تعالیٰ کوئی خیر و خوبی دیکھتا تو ضرور انھیں سنکر سمجھنے کی توفیق عطا کرتا چونکہ ان کے اندر خیر یعنی طلب صادق ہی نہیں اسلئے وہ فہم صحیح سے محروم ہیں، پہلے سماع سے مراد سماع نافع ہے جسے مفسرّ علاّم نے سماع تفہیم کہا ہے، اور دوسرے سماع سے مطلق سماع مراد ہے یعنی بالفرض اگر اللہ تعالیٰ انھیں حق بات سنوا بھی دے تو چونکہ ان کے اندر حق کی طلب ہی نہیں اس لئے وہ بدستور اس سے اعراض ہی کریں گے۔ وَاتقوا فتنة لا تصیبنَّ ظلموا منکم خاصَّة، لا تصیبنَّ ، کے نون تاکید کے میں نحاة کا اختلاف ہے، فرّاء نے کہا ہے کہ قول '' انزل عن الدابة لا تَطْرَ حَنَّکَ '' کے مثل ہے یہ امر ہے بصورت نہی، ای اِنْ تنزل عنھا لا تَطْرَ حَنَّکَ ، یعنی اگر تو اتر آئیگا تو وہ نہیں گرائے گا، اور اسی طرح کا اللہ تعالیٰ کا قول '' اُدخلوا مَسَا کنکم لا یَحْطِمَنَّکم سلیمان وجنود ہ '' ای اِنْ تد خلو الا یحطمنکم، اس میں نون اسلئے داخل ہے کہ اس میں معنی جزاء ہیں۔ پہلی آیت میں ایسے گناہ سے خاص طور پر بچنے کی تاکید کی گئی ہے جس کا وبال اور عذاب صرف گناہ کرنے والوں پر محدود نہیں رہتا بلکہ ناکردہ گناہ لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں، وہ کونسا گناہ ہے ؟ اس میں علماء تفسیر کے متعدد اقوال ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ گناہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جدوجہد کو ترک کردیتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانون کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ کسی جرم اور گناہ کو اپنے ماحول میں قائم نہ رہئے دیں کیونکہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا یعنی جرم و گناہ کو دیکھتے ہوئے باوجود قدرت کے منع نہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب عام کردیں گے جس سے نہ گنہگار بچیں گے اور نہ بےگناہ۔ اور بےگناہ سے یہاں وہ لوگ مراد ہیں جو اصل گناہ میں ان کے شریک نہیں مگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کردینے کے گنہگار وہ بھی ہیں، اس لئے یہاں یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ ایک کے گناہ دوسرے پر ڈالنا بےانصافی ہے اور قرآنی فیصلے '' لا تزر وازرَة وِزراخریٰ '' کے خلاف ہے کیونکہ گنہگار اپنے اصل گناہ کے وبال میں اور بےگناہ ترک امربالمعروف کے گناہ میں پکڑے گئے، کسی کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا گیا۔ وہ گناہ جس کے وبال میں ناکردہ گناہ لوگ بھی پھنس جاتے ہیں وہ اجتماعی فتنے اور جرائم ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گنہگار معاشرہ میں رہنا گوارہ کرتے رہے ہوں، مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ جب تک کسی شہر میں گندگی کہیں کہیں انفرادی طور پر پڑی ہو اس کا اثر محدود وہتا ہے اور اس سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کررکھا ہو، لیکن جب گندگی عام ہوجاتی ہے اور کوئی گروہ بھی پورے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکے اور صفائی کا انتظام کرنے کی کوشش کرے تو پھر زمین اور فضا اور ہوا اور پانی غرضیکہ ہر چیز میں سمّیت پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے اور گندے ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے، اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال ہے اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود ہیں معاشرہ کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں لیکن جب معاشرہ کا اجتماعی ضمیر کمزور ہوجاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اس میں نہیں رہتی، اور جب اچھے لوگ اپنی انفرادی نیکیوں پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و مصامت ہوجاتے ہیں اور صورت حال یہاں تک خراب ہوجاتی ہے کہ نیکی بدی کے آگے منہ چھپائے پھرنے لگتی ہے تو ایسی صورت میں مجموعی طور پر پورے معاشرہ کی شامت آجاتی ہے اور ایسا فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے امام بغوی السنہ اور معالم میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود و صدیقہ عائشہ ؓ یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص جماعت کے گناہ کا عذاب عام لوگوں پر نہیں ڈالتے جب تک کہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہوجائے کہ وہ اپنے ماحول میں گناہ ہوتا ہوا دیکھیں اور ان کو یہ قدرت بھی ہو کہ اس کو روک سکیں اس کے باوجود انہوں نے اس کو روکا نہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا عذاب ان سب کو گھیرلیتا ہے۔ برائی روکنے پر قدرت کے باوجود نہ روکنے والے بھی گنہگار ہیں : صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی روایت سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قانونی حدود توڑنے والے گنہگار ہیں اور جو لوگ ان کو دیکھ کر مداہنت کرنے والے ہیں یعنی باوجود قدرت کے ان کو گناہ سے نہیں روکتے ان دونوں طبقوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز کے دو طبقے ہوں اور نیچے کے طبقہ والے اوپر آکر اپنی ضروریات کے لئے پانی لیتے ہوں جس سے اوپر والے تکلیف محسوس کرتے ہوں نیچے والے یہ حالت دیکھ کر یہ صورت اختیار کریں کہ کشتی کے نچلے حصہ میں سوراخ کرکے اس سے اپنے لئے پانی حاصل کریں اور اوپر کے لوگ ان کی اس حرکت کو دیکھیں اور منع نہ کریں تو ظاہر ہے کہ پانی پوری کشتی میں بھر جائیگا اور جب نیچے والے غرق ہوں گے تو اوپر والے بھی ڈوبنے سے نہ بچیں گے۔ ان روایات کی روشنی میں حضرات مفسرین نے آیت کا مطلب یہ قرار دیا کہ اس آیت میں فتنہ سے مراد امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کرینا ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ اس گناہ سے مراد ترک جہاد کا گناہ ہے مگر جہاد بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہی کے لئے ہوتا ہے لہٰذا دونوں مصداق ایک ہی ہیں۔ امانتوں میں خیانت سے کیا مراد ہے ؟ امانتوں میں خیانتوں سے مراد تمام ذمہ داریاں ہیں جو کہ کسی پر اعتماد کرکے اس کے سپرد کی جائیں، خواہ وہ عہد وفا کی ذمہ داری ہو یا اجتماعی معاہدات کی یا رازدارانہ گفتگو کی یا عہدہ اور منصب کی جو کسی شخص پر بھروسہ کرتے ہوئے جماعت یا فرد اس کے حوالہ کردے۔
Top